خاموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے، کبھی خاموشی سکون دیتی ہے تو کبھی یہی خاموشی چبھنے لگتی ہے۔ جہاں تک ہندوستان کی بات ہے توملک ہمیشہ سے شور شرابے اور ہنگاموں کا ملک رہا ہے، کوئی تیج تہوار ہو یا پھر انتخابی جشن شور شرابے کے بغیر تمام کام ادھورے سے لگتے ہیں ۔یہاں تک یہاں کی ’شو یاترا‘ بھی گاجے باجے کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔ عادی ہو چکے ہیں ہم شور شرابے اور ہنگاموں کے، ہمیں وہ دس سال جو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے خاموشی کے ساتھ کام کرتے ہوئے گزار دئے ،چبھنے لگے تھے، ہمیں چاہیے تھا ایک چیختا، چنگھاڑتا اور خیالوں میں پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا وزیر اعظم،
کہتے ہیں ’تھوتھا چنا باجے گھنا‘ تو ہندوستانیوں تم نے ایسا ہی تھوتھا چنا منتخب کیا ہے جو آواز تو بہت کرتا ہے مگر ہے کسی کام کا نہیں۔ تین سال گزر گئے ،دھاڑنے والے اورچھپن انچ سینہ والے ہمارے وزیر اعظم کی مدت کے لیکن پاکستان کی ایک اینٹ بھی نہیں کھسکی۔ اس درو دیوار سے بلاشبہ ہمارے وزیر اعظم کی دھاڑ میں کوئی کمی نہیں ہے، شاید پاکستان کی اینٹ ہی بہت اچھی کوالٹی کی ہے جو اپنی جگہ سے کھسکتی ہی نہیں۔ وقت بدل رہا ہے، دنیا بدل رہی ہے اور ہمارا ملک بھی بدل رہا ہے، فرق صرف بال برابر بھر کا ہی ہے دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہمارا ملک اُلٹے پاؤں پیچھے چل رہا ہے، مگر چل تو رہا ہے جما ہوا تو نہیں ہے ہم ہندوستانیوں کے لیے بس اتنا ہی بہت ہے۔ مہذب معاشرے کے لوگ ہیں ہم، ہمیں تھوڑے میں ہی قناعت کرلیتے ہیں۔ کہتے ہیں کی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور کیچڑ میں ہی کمل کھلتا ہے ۔آ خر کار دس سال کی انتھک صبر اور محنت کے بدلے ہم وطنوں نے کیچڑ میں تین سال پہلے کمل کھلاہی دیا، کمل کھلتے ہی ملک ’’بھگوا‘‘ بن گیا، گئو ماتا بن گئی اور ہندوستان ’ہندو استھان ‘ میں تبدیل ہوگیا۔ تبدیلی کی ایسی لہر چلی کہ بنارس ٹوکیو بن گیا اور ملک کی ریاست اسمارٹ سٹی میں تبدیل ہوگئی، میک اِن انڈیا کے تحت اتنی جم کر سرمایہ کاری ہوئی کہ ملک دوبارہ سونے کی چڑیا بن گیا، اسٹارٹ اَپ انڈیا، اسکل انڈیا نے ہندوستان کو ایسا اسٹینڈ اَپ موڈ میں لا کھڑا کیا ہے نہ تو بھارت سے بیٹھا جا رہا ہے اور نہ ہی کھڑا ہوا جا رہا ہے، اٹھنے بیٹھنے کی تو بات ہی چھوڑئے۔ جناب مودی جی نے ایسی کمر توڑی ہے دہشت گردوں، نکسلیوں اور کالا دھن رکھنے والے امیر طبقوں کی نوٹ بندی کرکے ۔ تب سے عوام چین کی نیند سور ہے ہیں ۔اس کام دھندے، راشن پانی کی ضرورت ہی نہیں ہے اور آپ کو دو کروڑ، ہر سال ملازمت دینے کا وعدہ کیا تھا ،عوام چلا رہے ہیں، مودی حکومت تو ہاتھوں میں کام لے کر کھڑی ہے مگر عوام ہی سوئی پڑی ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں جب عوام کی نیند ٹوٹے گی اورچھپن انچ والے ای وی ایم مشین میں کمل پھول والے نشانات کا بٹن دبائیں گے تو اس سے کام کا ’’پرساد‘‘ نکل کر عوام میں بٹے گا۔ گزشتہ تین برسوں میں ہزاروں لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں تو کیا، باقی دوبر سوں میں لاکھو لوگوں کی نوکریاں چھیننے کی تیاری ہو رہی ہیں۔ تو کیا ہوا اچھے دن تو آنے ہی والے ہیں، بس من کی بات کرتے رہا کرئیے، ریڈیو چینل نہیں تو ٹوئٹر ، ٹوئٹر نہ سہی تو فیس بک پر ہی موقف پر دل کی بات کیا ضرور کیجیے۔ اس سے ہم وطنوں کا دماغ ہلکا ہو جاتا ہے ۔ ملک کے مفاد میں اتنا تو کرہی سکتے ہیں۔رام مندر وہیں بنے گا جہاں 20،25برسوں سے بن رہا ہے اور ساتھ میں سب کا ساتھ سب کا وکاس بھی ہوگا، کیش لیس اکونومی ہوگی،ڈیجٹل انڈیا ہوگا اور ساتھ میں کسانوں کے قرض بھی معاف ہوں گے، مگر تھوڑا صبر کیجئے ،کوئی جادو کی چھڑی تو ہے نہیں مودی جی کے پاس،ساٹھ سال دئے آپ نے کانگریس کو اور آپ چاہتے ہیں کی پانچ سال کی مدت میں ہی مودی حکومت اپنے انتخابی جملے پورے کر دے ۔یکم مئی یوم مزدور کے موقع پر مودی جی نے ٹویٹ کرکے کسانوں کو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ان کی محنت کو سلام بھی کیا تھا اور ’شرمیو جیتے ‘ کا نعرہ بھی دیا۔، بڑے احسان مند ہیں ہمارے وزیر اعظم صاحب کسانوں کے، یہ الگ بات ہے کہ دو ماہ تک جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھے اور اپنا پیشاب پینے والے تمل ناڈو کے کسان وزیر اعظم جی کو نظر نہیں آئے، پر اس میں بھی مودی جی کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ڈیجیٹل انڈیا میں ٹوئٹر کے کے بجائے کسان جنتر منتر پر دھرنا دیں گے تو وزیر اعظم کو دکھائی کس طرح دے گا، اب ہر وقت ٹوئٹر پردوربین لے کر ہمارے وزیر اعظم بیٹھے تو نہیں رہتے، ٹوئٹر پر چوبیس گھنٹے کام کرتے رہتے ہیں ۔ ملک ڈیجیٹل ہو رہا ہے، کسانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل ہوجائیں تبھی تو ٹوئٹر -ٹوئٹر کے کھیل میں مزہ آئے گا، کھیل صحت کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے پھر چاہے ٹوئٹر پر کھیلیں یا پھر کرکٹ، کھیلیں ۔ کھیلیں گے تو صحت مند رہیں گے اور صحت مند رہیں گے تبھی تو ’’سیلفی ود ڈاٹر‘‘ کے ساتھ اچھی آئے گی اور لائک و تبصرے زیادہ ملیں گے۔ اگر آپ کی اپنی بیٹی نہ ہو تو پڑوسی کی بیٹی کے ساتھ سیلفی لیجیے مگر لیجئے ضرورملک کے مفادمیں ۔ ساتھ میں یوگا بھی کرتے رہیے مگر خیال رہے یوگا میٹ کسی غیر ملکی کمپنی کا ہونا چاہئے، مقامی چٹائی پر یوگا کیا تو چہرے پر رعب نہیں آئے گا۔ پھر سمجھیں کہ آپ کی سیلفی چوپٹ۔ سیلفی سے نمٹنے کے بعد، بھلے ہی مودی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کر دی ہے مگر بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ، پڑھے گا انڈیا تبھی تو آگے بڑھے گا انڈیا، بیٹیاں باقی رہیں گی تبھی تو پکی-پکائی روٹیاں ملیں گی۔ باقی ایسا کون سا ملک ہے اور ایسی کون سی حکومت ہے جس کے راج میں بیٹیوں کی عصمت دری، مار پیٹ اور ان کاقتل نہیں ہوتا ؟ مودی کے راج میں ایسا ہو رہا ہے تو اس میں مودی جی کا کیا ـ’’دوش‘‘ ؟ رام راج میں بھی تو سیتا کی حق تلفی ہوئی تھی ، سوپنکھا کی ناک کٹی تھی، اب مودی کے راج میں ان کے وزیر، ایم ایل اے اور کارکن خواتین کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں تو اس میں ہمارے وزیر اعظم صاحب کیا کر سکتے ہیں بھلا؟ وہ تو عظیم انسان ہیں اور سب کا بھلا چاہتے ہیں تبھی تو انہوں نے ایک یوگی کو مٹھ سے اٹھا کر سیدھا اُترپردیش کے تخت پر بٹھادیا ،اب اس سے زیادہ اور کیا امید رکھتے ہیں آپ مودی جی سے؟ تین سال کی مدت کیا گزر گئی ،آپ ان کے کام کاج کا حساب کتاب لگانے بیٹھ گئے، کیا یہ کم ہے کہ ملک کے مفاد میں مودی جی نے ہزاروں ٹویٹ کئے، سینکڑوں بیرون ملک کے دورے کئے، دس لاکھ کے سوٹ پہنا، کاجو کی روٹی کھائی اور ریڈیو پر من کی بات کی، سرکاری خزانے سے ہزاروں کروڑ اشتہارات پر خرچ کئے اور اربوں خرچ کرکے انتخابی ریلیاں کی، سرحد پر پاکستانی فوج بھارتیہ جوانوں کے سر کاٹ کر لے جاتی ہے تو ہمارے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ جی سخت سے سخت مذمت کرتے ہیں۔ اب کیا چاہتے ہیں آپ؟ مودی حکومت استعفی دیدے۔ یاد رکھئے بی جے پی سرکار میں استعفیٰ نہیں دئے جاتے۔ اگر آپ کا اعتماد مودی حکومت میں نہیں ہے تو پاکستان چلے جائیں اور اگر ہے تو اے سی چلا کر سو جائیں، سونا صحت کیلئے ضروری ہے۔ صحت مند رہیں گے تبھی تو ’’سوچھ بھارت ‘‘کے مسائل پر تبادلۂ خیال کر کے اپنی توانائی خرچ کر پائیں گے۔ آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ کہیں بھی رہیںکچھ بھی کریںبس بھارت ماتا کی جے بولنا مت بھولیں، بھولیں گے تو جان سے جائیں گے اور جان ہے تو جہان ہے ۔