گزشتہ ہفتے سابق وزیر اعلیٰ اور این سی کے خاندانی لیڈر عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر 1996میں اس کے والد فاروق عبداللہ این سی کو ساتھ لیکر الیکشن میں حصہ نہیں لیتے تو اخوان کے سربراہ کوکہ پرے کشمیر کے وزیر اعلیٰ بن چکے ہوتے اور یوں اخوان جیسی بدنام زنامہ ملی ٹینٹ مخالف تنظیم کے ہاتھ میں کشمیر کی حکمرانی آتی۔ عمر عبداللہ کے اس بیان نے نوے کی دہائی کے پُر آشوب حالات کی یاد تازہ کردی جب اخوان ایک بہت بڑے عفریت کی شکل میں دند ناتے پھر رہا تھا اور قتل و غارت گری اور عصمت دری کا مجرمانہ اور سفاکانہ کاروائیوں سے پورے کشمیر کو دہشت زدہ کئے ہوئے تھا ۔ سرکاری پشت پناہی میں قائم اس جماعت کو فوج ، ایجنسیوں اور دلی کے حکمرانوں ، سیاسی نیتائوں اور میڈیاکی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ این سی سمیت بھارت نواز حلقوں میں اس جماعت کیلئے میزبانی اور تعاون کے درو دریچے ہمیشہ کھلا رہا کرتے تھے۔ تحریک نواز افراد کو ،چاہئے بندوق کو انہوں نے چھوا تک بھی نہ ہو، چن چن کر گھروں میں ، مسجدوں میں ، کوچوں میں انہوں نے انتہائی سفاکیت کے ساتھ قتل کیا جس پر ان کو شاباشی ملتی رہی۔ اقتدار کے ایوانوں میں ان کو رسائی حاصل تھی۔ انکے ابرو کے اشارے پر زندگی اور موت کے فیصلے صادر ہوتے تھے اور عصمتیں لوٹی جاتی تھیں۔ کوکہ پرے کو ایک نواب کا پروٹوکال دیا جاتا تھا ۔ اس تناظر میں اگر تخت ِ دلی پر براجماں حکمرانوں سال 1996میں کوکہ پرے کے ہاتھ میں ریاست کی کٹھ پتلی تھما دیتے تو ان کیلئے کوئی بڑی بات نہ تھی۔جہاں بچاس کی دہائی میں خالق میڈ ممبران اسمبلی کو کشمیریوں پر مسلط کرنے میں دلی والوں کو کوئی شرم و حیا مانع نہ ہوئی اور پھر عشروں تک دھاندلیوں کی سرکاروں سے وہ جس طرح اپنے تسلط کو مضبوط کرتے رہے، ایسے میں کوکہ پرے کیس تنظیم کے حق میںمنڈیٹ حاصل کرنا کونسی بڑی بات تھی۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود دلی دربار نے اپنی التفات کی نظریں اگر این سی پر مرکوز کیں اور فاروق عبداللہ کو لندن کے عشرت کدوں سے واپس کشمیر لایا تو ظاہر ہے اس کے پیچھے یہی مقصد کار فرما تھا کہ کوکہ پرے اور اخوان کے مقابلے میں اب فاروق عبداللہ اور این سی زیادہ بہتر طریقے سے بھارت کے سیاسی ،فوجی اور ڈپلومیسی کے خاکوں میں رنگ بھر سکتے ہیں۔
کوکہ پرے خوف اور دہشت کی علامت تھا اور اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس کی تنظیم اپنے سربراہ کے نقش قدم پر چل کراسی ’’متاعِ حیات‘‘ کو پروان چڑھائے ہوئی تھی۔ اسمبلی میں سرکاری بندوق برداروں کے مقابلے میں کسی اور برخوردار اور آزمائی ہوئی سیاسی پارٹی کو لانا اور اس کو کرسی پر بٹھانا ،ظاہر ہے دلی کے پلان سازوں کی نظرمیں ملکی مفادات کے ضمن میں زیادہ سودمند ثابت ہوسکتا ہے اور اسی چیز کے پیش نظر فاروق عبداللہ کی دستا ر بندی ضروری سمجھی گئی۔ اقتدار کیلئے جتنی اساسی چیزوں اور مطلوبہ اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے،فاروق اس کا مجسمہ تھا۔دلی کے رتھ کو جوتنے کیلئے وہ ایک ایسا آزمودہ سیاست کار ہے کوکبھی بھی لات نہیں مارتا ہے۔ بس اسے اپنے ٹوبرے سے غرض ہوتی ہے۔ 1938سے انہی لوگوں سے ملی اور قومی مفادات پر شخصی وقار اور مراعات اور انا پسندی کوترجیح دی اور ہمارے مقدر کی لیکروں کی سمت کو بدل ڈالنے کیلئے ہر کھیل کھیلتے رہے۔ جیسا کہ بھارت کے سراغ رساں ادارے ’’را ‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے اپنی کتاب ’’ کشمیر… دی وجپائی ائیرس‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت کیلئے وفاداری کو سر ٹیفکیٹ کیلئے سرفہرست امیدوار فاروق عبداللہ ہے جو تمام تر حالات میں بھارت کیلئے سب سے بڑا مہرہ ثابت ہوا ہے۔ تاریخ کے ہر نازک موڈ پرعبداللہ خاندان نے کشمیری عوام کی تمنائوں پراقتدار پرستی کا خنجر چلایا ہے۔فطرت کے تازیانے ان کو جگانے کیلئے برستے رہے مگر خطاکاریوں سے تائب ہونے اور اصلاح احوال کیلئے قدم بڑھانے کے بجائے اس خاندان کی کوشش ہر بار یہی رہی کہ اپنی پارٹی کا قبلہ تبدیل کرکے اپنے آقائوں کو خوش رکھا جائے۔
1996میں کوکہ پرے اقتدار میں آتے توو ہی کچھ کرتے جو فاروق عبداللہ کی سربراہی والی سرکار نے اپنے چھ سال کے دور اقتدار میں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ فرق یہ پڑتا کہ کوکہ پرے چیف منسٹر کی گدی پر فائز ہوکر فاروق کی طرح اتنی روانی اردو اور انگریزی نہیں بولتے ۔ ابھی تک اخوانی کلچر اسمبلی کے باہر بھارت کے آئین اور قانون اور جمہوریت کی مٹی پلید کرتا تھا ، اب اسمبلی کے ایوانوں سے اخوانی دہشت اور قتل و غارت گری کو لیجی ٹیمیسی ملی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسمبلی کے ایوان سے کوکہ پرے کو فاروق عبداللہ نے خراج تحسین پیش کیا َ اور اسمبلی کے انتخابات کنڈنکٹ کروانے میں اخوانی رول پر ان کا شکریہ ادا کیا؟۔کیا ٹاسک فورس کا احیاء این سی کے زمام اقتدار ہاتھ میں لینے کے بعد نہ ہوا ؟، جس نے ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کی۔ کوکہ پرے اس لحاظ سے’’ بہادر‘‘ تھا کہ اس نے نیشنل کانفرنس کی طرح عیاری اور مکاری کی دستانے نہیں پہن رکھے تھے ۔ وہ اپنے خون آلودہ ہاتھوں کو نہیں چھپائے پھر رہا تھا جبکہ این سی خون بہانے کیلئے ٹاسک فورس کو استعمال کرتی تھی اور پھر جمہوریت کی بھاشن بھی دیتی تھی۔ وزیر اعلیٰ بن کر فاروق عبداللہ نے جو غلط کیا اور جمہوریت کش روایت ڈالی اور جو بعد میں تمام دوسری حکومتوں کے دوران اور مضبوط بنتی چلی گئی ،وہ یہ ہے کہ یونیفائڈ کمانڈ کونسل کی سربراہی قبول کی۔ اس طرح فورسز آپریشن میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور جو زیادتیاں کشمیری عوام سے کی گئیں، ان کااپنے منصب اور پارٹی سطح پر دفاع کیا۔کائونٹر انسرجنسی کارروائیوں کو انجام دینے میں بھارتی فوج ، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس جو کچھ کررہی تھیں،’’ منتخب عوامی حکومت‘‘ کے زیر سایہ ہی کرتی رہی، ایک طرف اگر افسپا فورسز کیلئے قانونی شیلڈ فراہم کرتا رہا ، دوسری طرف بھارت کشمیر کی سیول حکومت کی موجودگی کو فورسز کی طرف سے زیادتیوں پراٹھنے والے سوالات کو ڈائیلوٹ کرنے کیلئے بھی استعمال کر تارہا ہے۔
ابھی لوگوں کے ذہنوں سے فاروق عبداللہ کا وہ بیان محو نہیں ہوچکا ہے جب بحیثیت وزیر اعلیٰ انہوں نے بھارت سے درخواست کی تھی کہ وہ سرحد کے پار ملی ٹنٹوں کے کیمپوں پر حملہ کرے تاکہ معاملہ بقول ان کے’’ ایک ہی بار آر پار ہو جائے‘‘۔ ان سے یہ بیان بھی منسوب ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملی ٹینٹوں کو زندہ پکڑنے کے بجائے باہر ہی مار ڈلا جائے کیونکہ جیلوں میں جگہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں عمر عبداللہ کس منہ سے کوکہ پرے اور اخوان کے مطعون ٹھہراتے ہیں اور اس کی جگہ فاروق عبداللہ اور این سی کو خوب مداح صراحی کرتے ہیں جیسے کہ اگر ان کے والد گدی نہیں سنبھالتے ،کشمیر میں کوئی ذی روح اپنا وجود باقی نہیں رکھتا۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ این سی کے اسی جفاکیشی کا نتیجہ ہے کہ پی ڈی پی کواین سی کے مقابلے میں ’’ کم تر برائی‘‘ (lesser evil) کے طور پر اُس سیاسی ٹرف میں پذیرائی ہوئی جس پر دہائیوں سے عبداللہ فیملی کا غلبہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ این سی ہو یا پی ڈی پی ، ان کا نامہ اعمال کشمیری عوام کے تئیں عیاں جورو ظلم اورمنافقانہ سیاست کاری کے لحاظ سے اتنا سیاہ ہے کہ ڈوگرہ استبدادی نظام اپنی تمام تر سفاکیت اور شخصی راج کے باوصف قدرے بااخلاق نظر آتاہے اور اسی طرح کوکہ پرے کی برہنہ دہشت گردی بھی قدرے باتمیز دکھائی دیتی ہے ،اس لئے کہ دونوں نے مکر و فریب کے برقعے نہیں اوڑھہ رکھے تھے۔
عمر عبداللہ جیسے اقتدار ی سیاست کے پجاریوں کی نظر میں سیاست دلالی کی ایک ایسی دکان ہے جس میں ہر جھوٹ اور ہر مکر کو مختلف رنگوں میں بیچ کر پارٹی کو مضبوط بنایاجاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر نئے دن کے ساتھ یہ لوگ بازار ِکذب کی ’’رونق‘‘بڑھاتے رہتے ہیں۔بے شرمی میں ان کی مدافعاتی قوت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان کو یہ یاد بھی نہیں کہ کوکہ پرے ان کیلئے کوئی غیر نہیں تھا بلکہ کشمیر کی تاریخ کے حوالے سے فاروق عبداللہ کا ساجھے دار ہی رہا ہے اور اخوان اور این سی ایک دوسرے کے لئے چچیرے بھائی کا قرب رکھتے تھے۔علاوہ ازیں وہ اس زعم میں مبتلا ہیںکہ جو بھی پینترا بازی وہ کریں، عوام اسے شرف ِ قبولیت بخشیں گے اور زہر کے جام پر ’زم زم‘کی لیبل چڑھاکر وہ لوگوں کو بیوقوف بنائیں گے ۔انہیں کون یہ بتائے کہ جس قسم کی سیاست کاری وہ کررہے ہیں، کشمیر کے سوادِاعظم نے اس کی طرف سے پیٹھ پھیر لی ہے ۔بے اعتبار لوگوں کا ایسا ٹولہ ہے جس کو کشمیر یوں نے راندۂ درگاہ کیا ہواور اب اغیار کے پھینکے ٹکڑوں پر ایک دوسرے کے ساتھ جھپٹ پڑے ہیں، ان کی قوت ِمردانگی بنکر کی عطا کرد ہ تارِ عنکوبت سے زیادہ نہیں، پھر بھی مہاراجگی کی خلعت ِ فاخرہ کے طالب ہیں!! بہر کیف عمر عبداللہ کے مُنہ سے جو غیر ارادی سچ نکلا، وہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اخوان اور کوکہ پرے کو چھوڑ کر این سی اور فاروق عبداللہ پر دلی نے جو اعتبار کیا ،وہ اول الذکر کی ’’پروگریس رپورٹ‘‘ کو موخرالذکر کے ہاتھوں دھندلا کر دیتی ہے ۔آخر جو شخص ’’وندے ماترم‘‘ کو اپنے شانوں پر اٹھاکے رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہے،س اس کو سو سو کوکہ پرے اور اخوان پچھاڑیں ،یہ کیسے ہوسکتا !
ماخوذ:ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر