شبنم بنت رشید
ہر انسان کے وجود میں آتے ہی ایک کہانی بھی وجود میں ضرور آتی ہے۔ کہیں خوابوں خیالوں کی کہانی تو کہیں جبر اور صبر کی کہانی، کہیں ایثار کی کہانی تو کہیں اذیت ناک انتظار کی کہانی، کہیں رحم کی تو کہیں ظلم و ستم کی کہانی، کہیں سمجھوتے اور بغاوت کی کہانی تو کہیں حق یا تو شک کی کہانی مگر کہیں کہیں لا جواب عشق محبت کی کہانیاں بھی د یکھنے سننے کو ضرور ملتی ہیں۔
ہر دور اور زمانے میں اکثر عورت بڑی آسانی سے ہی مرد کے ظلم و ستم کی آدھی ادھوری کہانی سماج کے سامنے بیان کرکے ساری ہمدردیاں سمیٹ لیتی ہے۔ لیکن اسی سماج کے اندر اگر کوئی مرد عورت کے ظلم و ستم اور حسد اور لاپرواہی، نفرت کے آتش فشاں کا شکار ہوکر راکھ بھی ہو جائے تب بھی وہ آسانی سے اپنے حالات کسی سے بانٹ نہیں لیتا بلکہ سوچ سمجھ کر بات زبان پر لاتا ہے اور سوچ سمجھ کر ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر ایسے مردوں کی کہانیاں یا تو گمشدہ ہو جاتیں ہیں یا پھر بلاعنوان رہ جاتیں ہیں۔
مجھے داماد نہیں بلکہ ایک ایسا بیٹا چاہیے جو گھر کے ساتھ ساتھ ہمارے خاندان کے کاروبار کی رکھوالی کرے۔ یہ الفاظ ایک ایسی خاتون کے تھے جسکو اپنی کوکھ سے اللّٰہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی تھی۔ دونوں بیٹے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ بیرون ملک بس گئے تھے۔ اسلئے اُسکی چھوٹی بیٹی ماہرہ خود بہ خود اپنے والد کے کاروبار اور جائیداد کی اکلوتی وارث بن گئی۔
سوچا شاید سادہ حلیے میں معصوم بھولی بھالی اور ذہین نظر آنے والی ماہرہ گھر کے معاملات میں بھی ماہر ہوگی اُس نے مجھے پہلی ملاقات میں ہی بتایا کہ مجھے ایسا جیون ساتھی چاہیے جو ہر دکھ سکھ میں میرا مضبوط ساتھی اور سہارا بھی بنے۔ ماہرہ تو مجھے سے بڑھکر تھی حیثیت میں بھی اور تعلیم میں بھی جبکہ میں ایک ایسا بد نصیب یتیم تھا جسکو اپنے ہی دادو نے ٹھکرا کر بے دخل کر دیا، پھر امی کا سہارا تھاوہ بھی بچپن میں چل بسی جیسے تیسے اور کافی مشکلوں سے لڑکر نانو نے پرورش کی، پڑھایا لکھایا مگر قسمت کا کیا کہوں وہ پھر بھی میرے اوپر مہربان نہ ہوئی۔ ورنہ میں نے تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود چھوٹی موٹی نوکریوں کے بے شمار فارم بھر دیئے۔ اچھے سے اچھے امتحانات اور انٹرویوز بھی دیئے۔ کئی بار ایمانداری سے کاروبار بھی شروع کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ نتیجہ صفر کے برابر رہا ہے۔ جب کوئی راستہ نظر ہی نہیں آیا تو نانو مجھ سے زیادہ مایوس ہوئے اور ایک دن پاس بلاکر بٹھایا، بہت دیر خاموش رہ کر کہا بیٹا میری زندگی اب ڈھلتے سورج کی مانند ہے کم از کم میرے جیتے جی تمہارا نکاح ہو جائے تاکہ میں سکون سے مر سکوں۔ میری رضامندی لیکر نانو نے ایک جان پہچان والے سے رابطہ کرکے بڑی تگ و دو کے بعد ماہرہ اور اسکی امی سے ملایا۔
مجھے ایک ایسے جیون ساتھی کی ضرورت ہے جو ہر دکھ ہر سکھ میں میرا وفادار اور مضبوط سہارا بنے۔ پیسوں کی یہاں کوئی نہ کمی ہے اور ناہی کوئی ٹینشن۔ ویسے بھی میرے سامنے پیسوں کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں، اگر ہے تو وہ ہے رشتوں کی اہمیت۔ پیسہ ضروری ہے لیکن رششتوں کی مضبوطی کے لئے پیسے کے علاؤہ بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے جس میں بہتر ذہنی سکون احساس اور محبت۔ محبت بہت ضروری ہے کیونکہ محبت ہی سے دلوں کے اندر امیدوں اور قرار کے دیئے جلتے ہیں اور روشن رہتے ہیں۔ ماہرہ نے بڑے شوخ اور شیرین لہجے میں کہا تو میں اسکے الفاظ سن کر بڑا متاثر ہوا۔ مانو تو میں اسکا دیوانہ ہی ہوا۔ اپنی تمام تر ہمت یکجا کرکے عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ میں نے بھی کردیا۔ نانو کے پاس میری مرحوم امی کے زیورات پڑے تھے انہوں نے انہیں بیچ کر ماہرہ کے لیے نئے ڈیزائن کے زیورات بنوائے، پھر ہمارا نکاح ہوا پھر میں اپنی غیرت، خوداری اور سب سے زیادہ عزیز اپنے نانو کو پیچھے چھوڑ کر نانو کی مرضی سے ہی مستقل طور پر ماہرہ کے گھر رہنے آیا۔ مجھے نانو سے بڑی محبت تھی۔ ننھال سے بڑا لگاؤ تھااور ننھال سے جڑے ہر رشتے ہر چیز سے دلی محبت تھی۔ اب یہ نئی محبت، نیا گھر سب پر بھاری پڑنے لگا۔ شاید اسلئے کہ میں اپنے وجود کے ساتھ اپنے توقعات اور خوابوں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لایا تھا۔ پچھلا سب کچھ بھلانے کی کوشش کرکے مستقبل کے خواب دیکھنے لگا۔ یہاں بنگلہ، گاڑی، فرج، ٹی وی، لیپ ٹاپ، فرنیچر اور وائ فائ اور سب سے بڑھ کر ماں ملی تو خود کو خوش نصیب سمجھنے لگا۔ سوچا مل جھل کر اس گھر کو جنت بنائیں گے۔ بھرپور محنت کرکے کاروبار کو پروان چڑھائینگے۔ ہماری اولادیں ہونگی، ماں کی خوب خدمت کریں گے لیکن شادی کا ہنگامہ ختم ہوتے ہی ماں اپنے بیٹوں کے ساتھ سات سمندر پار چلی گئی اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔
اسکے چلے جانے کے بعد ماہرہ نے سرد موسم کا ایک مہینہ باہر گھومنے کا پروگرام بنایا۔ میں بھی پورے مہینے سوٹ کیس گھسیٹا ہوا ماہرہ کے پیچھے چلتا رہا۔ ایک مہینہ بعد رات کا کھانا باہر ہی کھا کر گھر میں واپس خوشی خوشی قدم رکھا۔ ماہرہ بیڈ سے گرد آلود شیٹ ہٹاکر بیٹھ گئ اور برق رفتاری سے اپنے سیل فون پر انگلیاں چلانے لگی۔ میں واش روم سے کپڑے بدل کر آیا تو سو گیا۔ دو چار مہینے یونہی ٹھیک ٹھاک گزر گئے۔ ابھی تو نئی نئی شادی ہوئی تھی، نئے نئے دن اور نیا خمار سوار ہی تھا کہ میں عصر کے وقت نانو سے ملنے گیا کیونکہ اسکی طبیعت ذرا خراب تھی۔ شام سے پہلے لوٹ کے آیا تو ماہرہ حسب دستور فون پر مصروف تھی۔ میں واش روم سے کپڑے بدل کر آیا اور ماہرہ کے ایک طرف جیسے ہی بیٹھا وہ بری طرح چونکی۔ میری طرف ایسے دیکھ لیا مانو تو جیسے اپنی نظروں سے مجھے زندہ نگل لے گی۔ پھر دل کو چیرنے والے انداز میں کہا آپکو اندازہ نہیں تھا کہ میں کتنی مصروف ہوں؟ آپ نے مجھے ڈرا دیا۔ آپ کیوں اور کیسے آکر بیٹھ گئے، میں سمجھ گئی آپ تو میری جاسوسی کرنے لگے ہیں۔ نہ میں نے ویسی کوئی بات کی اور نا ہی کوئی ایسی ویسی حرکت کی۔ ماہرہ کو اچانک کیا ہوا؟ کیوں اس نے ایسا رویہ اختیار کیا۔؟ کچھ سمجھ نہ سکا اور اسکی باتوں کا کیا مطلب ہے ؟ تذزب کا شکار ہوا اور شرمندہ بھی۔ دل کے اندر ایک ہوک سی اٹھی۔ میں خاموشی سے بیڈ سے اتر کر دبے پاؤں کمرے سے باہر آیا۔ ٹھنڈے فرش پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر صبح تک سوچتا رہا کہ کیا میرے اندر اچانک کوئی عیب نکل آیا ہے؟ یا میرے رویئے میں کوئی بدلاؤ آیا ہے؟ جس وجہ سے میں ماہرہ کے پاس بیٹھنے کے قابل نہیں رہا۔ دل کے اندر درد کی لہریں اٹھتی گئی۔ خیر رات کی بات بھول کر صبح نماز ادا کی۔ ناشتہ تیار کیا اور ماہرہ کا انتظار کرتا رہا۔
جیسے تیسے ماہرہ دوپہر کو نیند بھری آنکھوں کو مسلتے مسلتے باہر آئی۔ باہر آتے ہی کمرے میں فون کی گھنٹی بج اٹھی تو وہ واپس کمرے میں گھس گئی ۔ نہ میری موجودگی کا احساس، نہ دیر سے اٹھنے کی شرمندگی ،نہ گھر کی کوئی فکر اور نہ خدا کا کوئی ذکر۔ کچھ دیر بعد بالکل تیار ہوکر کمرے سے نکلی تو باہر کی طرف جانے لگی تو میں بناوٹی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا کر پوچھ بیٹھا آپکو کہیں باہر جانا ہے؟ کیوں آپکو کوئی اعتراض ہے؟ ماہرہ نے میری طرف دیکھے بغیر اُلٹا ایک غیر متوقع سوال پوچھا۔ نہیں نہیں مجھے کیوں اعتراض ہوگا؟ یہ انسانی فطرت ہے اسلئے پوچھ بیٹھا اور میں نے نا شتہ تیار کیا تھا۔ اکٹھا کرتے تو اچھا لگتا۔ میں نے گھبراتے ہوے جواب دیا۔ آپ کرلو ناشتہ مجھے ضروری کام سے ایک رشتے دار کے یہاں جانا ہے۔ میرا ناشتہ بھی وہیں ہوگا۔ یہ بات سچ ہے کہ اکثر عورت سماج اور رشتوں کے معاملے اور رابطے مرد سے زیادہ نبھاتی ہے۔ اسلئے عورت کو چار دیواری کا قیدی سمجھنا غلط بات ہے۔ مگر ہر حال میں حد بہت ضروری ہو تی ہے۔ ماہرہ کو اکثر کبھی پکنک کبھی شاپنگ، کبھی مبارک باد دینے، کبھی تعزیت ، کبھی عیادت یا کبھی کسی سے یونہی ملنے کا جنون ہمیشہ سر پر سوار رہتا تھا۔ جس وجہ سے وہ گھر سے اکثر غافل رہ کر اپنا قیمتی وقت برباد کر کے بڑی خوش اور مطمئن نظر آتی تھی۔ اپنے گھر سے زیادہ غیر گھروں کی فکر کرنے میں زیادہ مصروف رہتی تھی۔ جن میں اسکی سہیلیوں، لقب دار رشت داروں اور ہمسائیوں کے گھر شامل تھے۔ میٹھی میٹھی دل کو مول لینے والی باتیں کرنا، انکے مسئلوں سے باخبر رہنا اور انکے معاملات میں اتر کر ان میں دلچسپی لے نا جیسے اسکی زندگی کا مقصد تھا۔ اسی لئے اپنے حال اور مستقبل سے بے نیاز ہوکر انہیں مشوروں سے نوازنا، ان کے درمیان رہ کر اپنا نام سرفہرست رکھنا اور ان سے ہمدردیاں جتا کر تعریفیں بٹورنا اپنا پہلا فرض سمجھتی تھی۔ میری ہر بات ان سے کرکےنظر انداز کرنے کے باوجود مجھے اس سے محبت تھی۔ دل میں عزت تھی۔ اسلئے میں اسے منتظر نظروں سے دیکھتا رہتا تھا۔ وہ اپنی مرضی کی مالک، خود پسند، متکبر، اپنے آپ میں مست مگن رہتی اور ہمیشہ فون پر کھسر پھسر کرنے پر اگر میں غلطی سے بھی ٹوکنے کی کوشش کرتا تو اسے اتنا غصہ آجاتا تھا کہ یک دم لڑنے کے لئے آمادہ ہو جاتی تھی۔ اس کو دوستانہ انداز میں سمجھاتے سمجھاتے زندگی کا کافی حصہ نکل گیا۔ مانو تو ضائع ہی ہوگیا۔ اولادیں تو چرندوں، پرندوں اور درندوں کے بھی ہوجاتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایک اولاد ہوئی۔ اب کافی تھک گیا گھر کو سنبھالتے سنبھالتے۔ کمروں کی سیٹینگ کرتے کرتے، کپڑوں اور برتنوں کے انبار دھوتے دھوتے اور اکیلاپن اور تنہائی جھیلتے جھیلتے۔ ماہرہ نے کبھی بھی گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹانے کی کوشش نہ کی۔ مرد کے لئے گھر کے کام کرنے میں کوئی عیب یا شرم نہیں لیکن عزت ،ا عتدال اور اہمیت بہت ضروری ہے۔ اپنوں کے ہاتھوں استحصال ہونا اس سے بڑا دکھ دنیا میں کوئی نہیں۔ میں نے کبھی بھی کسی کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا نہ کیا، جس وجہ سے میرا وجود کھوکھلا ہوتا گیا اور ہمارے درمیان فاصلے بڑھتے گئے۔ ماہرہ گھر میں ہوتی تو تھی مگر نہ ہونے کے برابر۔ میرے اندر پل رہے خواب آہستہ آہستہ دم توڑتے گئے۔ مگر اپنے غموں کو چھپا کر مسکرانے سے جینا آسان ہوگیا۔
میں یہاں رہوں کہ میں وہاں رہوں
میں جہاں میں چاہے جہاں رہوں
مجھے آملیں گے عقیدتاً مجھے غم کہاں نہیں جانتے۔
دولت اور حسن میں کیا تاثیر ہے ۔ جسے ملے تو وہ ہواؤں میں اُڑنے لگتا ہے اور جسے نا ملے تو اُسے واقعی خاک میں ملنا پڑتا ہے ۔ رشتے جب جذبوں ، وعدوں ، یقین اور سماج کی زنجیروں سے بندھے ہوں تو ان زنجیروں سے آزاد ہو نا آسان نہیں ہوتا ۔ ہاں اگر ان زنجیروں کو بے حسی کا زنگ لگ جائے تو اپنی خاموشی کو توڑ کر سامنے والے کو حس میں لانا تو فرض بنتا ہے ۔ میں بھی کچھ ایسا ہی کرنے جا رہا تھا۔ پھر سوچا بچہ بارہ سال کا ہونے والا ہے ۔ اس بات پر غور سے سوچا کہ ماہرہ اگر ناراض ہوکر کوئی غلط قدم اٹھائے پھر کوئی دردناک کہانی وجود میں آجاے اور پھر اس کہانی کا پر اسرار کردار صرف میرے نام سے ہی نہیں بلکہ میرے بیٹے کے باپ کے نام سے جڑ جاے تو پھر میرا بیٹا اور میں کیسے جی پائینگے؟ کیا ہم باپ بیٹے کو ماہرہ کے بغیر جینا آے گا؟ میں ماہرہ کو کھونا بھی نہیں چاہتا اسلئے ہر رات اپنے خوابوں کو سمیٹ کر ان پر مٹی ڈال کر سوجاتا ہوں اور صبح اندر ہی اندر نئ امید کے ساتھ جاگ کر اپنی زبان کو رہن رکھ کر ہر دن کی شروعات کرتا ہوں۔
���
پہلگام اننت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛9419038028