شبنم بنت رشید
طویل سردیوں کا موسم ختم ہوتے ہی گرمی کے موسم نے اتنا زور پکڑ لیا کہ ہر انسان خدا سے پناہ مانگنے لگا۔
میں واشروم سے نہا دھو کر اور وضوء بنا کر نکلی پھر اپنے کمرے کی کھڑکی پر گیلا تولیہ پھیلاتے ہوئے جگنو کو آواز دی کہ بیٹا میرے لیے گرما گرم ایک کپ چائے بنا کر لاؤ۔ تب تک میں نوفل کے دو رکعتیں ادا کروں گی۔ جی آنٹی ابھی لایا، جگنو نے کچن سے ہی جواب دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے میرے ہاتھ میں ایک چائے کا کپ تھمایا اور خود واپس کچن میں چلا گیا۔ میں چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر صوفے پہ بیٹھ گئ۔ اس وقت مجھے اقبال کی یاد شدت سے آرہی تھی۔ مجھے اس عمر میں زندگی کے اس پڑاؤ پر اسکے ساتھ کی کتنی ضرورت تھی یہ صرف میں اور میرا رب جانتا ہے۔ میرا دل بڑا اداس ہوا۔ کھانا کھانے کا بالکل بھی من نہیں تھا اسلئے اپنی اداسی کو منتشر کرنے کے لئے میں نے نہا دھو کر وضوء بنایا اور پھر اقبال کے ایصال ثواب کے لئے دو رکعتیں نوفل کی ادا کیں۔ کھانا کھانے کے بجائے چائے کی طلب ہوئی، سوچا شاید چائے پینے سے اداسی میں کمی آ جائے گی۔
مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب اقبال کی امی نے مجھے اقبال کے لئے پسند کیا تھا۔ وہ ایک باہوش خاتون تھیں۔ وہ میری امی کے دور کے رشتے کی بہن تھیں۔ میرے ننھیال میں شادی کی ایک تقریب کے موقع پر مجھے دیکھ کر میرا رشتہ لے کر آئیں۔ اقبال بھی پڑھا لکھا خوبصورت نوجوان تھا۔ انکا گھر بھی بڑا خوشحال تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ کئی سال پہلے ہی گھر سے بہت دور ایک مصروف اور روشنیوں میں ڈوبے ہوئے شہر میں اپنے کاروبار کی جڑیں مضبوطی سے لگانے میں کامیاب ہوا تھا۔ شادی کے کچھ ہی مہینوں بعد امی نے مجھے اقبال کے پاس یہ کہہ کر بھیجنے کا بندو بست کیا کہ میرا بیچارہ بچہ پردیس میں اکیلے رہ رہا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تاکید کرتی رہیں کی جتنی جلدی ہو سکے اقبال کو واپس اپنے گھر آنے کے لیئے آمادہ کرنا۔ میں اس سے کہتے کہتے تھک چکی ہوں اس لیے جانتی ہوں کہ یہ کام آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔ تم اپنی کوشش کرتی رہنا، یہ تم سے ایک ماں کی التجاء ہے۔ میں نے امی سے وعدہ کیا کہ میں اپنی طرف سے ضرور کوشش کرونگی باقی اللّٰہ مالک ہے۔ ایک روز سب سے رخصت لے کر میں اقبال کی اور روانہ ہوگئی۔ کئی دنوں کے سفر کے بعد وہاں پہنچی۔ مجھے دیکھ کر اقبال کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ایک دو دن ریسٹ کیا کیونکہ سفر سے بے حال ہو گئ تھی۔ پھر میں گھر سنبھالنے اور سمیٹنے میں لگ گئی۔ پورے ایک سال بعد ندیم کا جنم ہوا۔ اسکا جنم ہوتے ہی ہمیں پر سکون اور آسان زندگی میسر رکھنے کے لیئے اقبال کے لیئے روپیے سے روپے کمانا مقصد بن گیا۔ وہ اپنے کاروبار میں اتنا مشغول ہوگیا کہ اسے کھانا کھانے یہاں تک کہ بات کرنے کی فرصت بھی مشکل ہی سے ملتی تھی۔ میں گھر میں اکیلی جان ندیم کی پرورش اور تربیت کرنے لگی۔ اسکی پسند کی چیزیں اسے بنا بنا کر کھلاتی رہی۔ بچے بڑے ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ سکولنگ مکمل ہوئی تو کالج میں قدم رکھا۔ وہ بڑا ذہین اور محنتی بچہ ثابت ہوا۔ کالج گھر سے تھوڈا دور ہی تھا اور آنے جانے میں کافی وقت نکل جا تا تھا۔ پڑھائی تھوڑی سی مشکل تھی، آنے جانے میں کافی وقت ضائع ہو جاتا تھا اسلئے وہ کالج کے ہاسٹل میں شفٹ ہوگیا۔ کالج کی پڑھائی کے دوران ہی اس نے اپنی ایک کلاس فیلو کو پسند کیا۔ سننے میں آیا کہ وہ کسی دوسرے ملک کی مگر امیر باپ کی بیٹی ہے۔ دونوں کالج سے نکلے تو ایک ہی جگہ دونوں کی جاب لگ گئی۔ میری اور اقبال کی خواہش تھی کہ ندیم اپنا کاروبار سنبھالے اور ہم اپنے ہی وطن سے بڑے اہتمام سے بہو لائیں۔ شادی اپنی رسم و روایات کے مطابق ہو جائے اور آنگن پوتے پوتیوں کے کھیل کود، شور شرابے اور مہک سے کھل اٹھے۔ گھر آباد ہو تے ہی ہمارا دامن خوشیوں سے خود بخود بھر جائے گا۔ مگر ندیم نے ہمارے جیتے جی ہی ہمارے سارے خواب مٹی میں ملا دیئے۔ ہم چاہ کر بھی کچھ کہہ نہ سکے۔ وقت کی نزاکت اور اس کے دل کی خوشی کے خاطر ہم نے مجبور ہو کر رضامندی دے دی۔ خیر بہو کو گھر آئے ہوئے کچھ ہی دن ہوگئے۔ وہ تو تھی بڑے باپ کی آزاد خیال بیٹی۔ ملکوں ملکوں گھومنا پھرنا اسکا ایک عام شوق تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنی آزادی کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ مجھے پہلے دن سے اسکی باتوں سے بغاوت کی بو آنے لگی۔ اس نے بڑی چالاکی سے کام لیکر ندیم پر دباؤ ڈالا اور وہ گھر سے کچھ دوری پر اپنا الگ گھر لینے پر مجبور ہوگیا۔ انکے چلے جاتے ہی گھر کے اندر خاموشی چھا گئ۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوے ایک اکلوتا بیٹا ماں باپ سے دور رہے تو انکا دل خون کے آنسوں رونے پر مجبور ہو ہی جا تا ہے۔ آہستہ آہستہ ہماری جوانی کو زنگ لگنے لگا۔ جوانی کب پیچھے چھوٹ گئی، کب خواہشوں کی جگہ دوائیوں نے لے لی پتہ ہی نہیں چلا۔ بیٹے کی بے رخی نے مجھے وقت سے پہلے ہرا دیا۔ مجھے اس وقت امی کی کہی ہوئی باتیں یاد آنے لگیں، جو میں خود غرض ہو کر بھول بیٹھی تھی۔ جب خود پر بیتی ہے تب ہی تو دوسرے کا احساس ہوتا ہے۔ ایک دن باتوں باتوں میں میں نے اقبال سے کہا کیوں نہ ہم اپنا مکان اور کاروبار ندیم کے نام کر کے اپنے وطن اپنوں کے بیچ واپس چلیں؟ ابھی بھی تھوڑی زندگی باقی ہے۔ کھلی فضا اور فراغت میں سانس لے کر رشتوں کی محبت کی ٹھنڈک سے سرشار ہو جائیں۔ زندگی بھر میں ان نعمتوں کے لیے ترستی رہی۔ دنیا کافی بدل گئی ہے، ہمیں بھی خود کو وقت کے ساتھ بدلنا ہوگا۔ رشتوں کے سہارے تھوڑی زندگی گزرتی ہے؟ وہاں کیا رکھا ہے؟ پس ماندہ علاقہ، تنگ خستہ سڑکیں، گند کے ڈھیر، کچے پکے سادہ سے مکانات اور بجلی کی آنکھ مچولی۔ کیا کرینگے وہاں جا کر؟ دوسری طرف میرے کاروبار میں کافی پیچیدہ مسئلے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے بیٹا بھی بیگانہ ہوا، ایسی صورتحال میں کروں تو کیا کروں؟ اقبال کا جواب سن کر مجھے واپسی کی کوئی سبیل ہی نظر نہ آئی۔ افاقے کے بجائے ہر طرف درد ہی درد ملتا رہا۔اچانک وقت نے ایسا پلٹا کھایا میں ہاتھ ملتی رہ گئ۔ وہ دن روز محشر سے کم نہ تھا جب ایک انہونی نے مجھے آدھ موا کرکے اکیلا کردیا۔ میرے ساتھ ساتھ میرا گھر بھی بے رونق ہوگیا۔ بہو بیٹا مہمانوں کی طرح ایک دو ہفتے تو آئے لیکن پھر آہستہ آہستہ گھر آنا ہی چھوڈ دیا۔ جس وجہ سے میں کئی ماہ تک بالکل اکیلی رہی۔ پھر پوری عدت میں کسی نے میرا دروازا تک نہیں کھٹکھٹایا۔ پھر نہ جانے کیسے اور کیوں ایک دن اچانک ندیم کو احساس ہوا۔ وہ ایک شام میرے پاس چلا آیا۔ بچپن کی طرح میری گود میں سر رکھ کر لیٹا رہا۔ میں بہت دیر تک اسکے سر کو سہلاتی رہی۔ ایسے لگا جیسے میں نے ایک پل میں پوری زندگی جی لی۔ پھر دوسرے دن وہ چلا گیا۔ تیسرے دن شام کو ایک نو عمر لڑکے کو ساتھ لا کر مجھ سے کہا ماں یہ جگنو ہے اور کافی ٹائم سے ہمارے آفس میں کام کر رہا ہے۔ یہ آج سے آپکے ساتھ رہے گا۔ یہ چائے بہت اچھی بناتا ہے، اسکے ہاتھوں میں جادو ہے۔ آپ اسکے ہاتھ کی چائے ایک بار پیو گی تو پھر اسکے ہاتھوں کی چائے پینے کا من بار بار کرے گا۔ اور ہاں ماں میں نے ایک سال کی تنخواہ اسکو ایڈوانس میں دے دی ہے۔ ندیم آج بہت کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے الفاظ اس کے حلق میں ہی اٹک رہے ہوں۔ پھر ہر شام میری خبر گیری اور فون پہ فون کرنا اسکا معمول بن گیا۔ اسکی بھی کچھ اپنی مجبوریاں تھیں اسلئے مجھے اس سے کوئی گلہ نہ تھا۔ اصل میں تو میرا سکھ، چین اور راتوں کی نیندیں میرا ہم سفر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اکیلا پن اور بوڑھاپا ویسے بھی انسان کے لیے کسی بیماری سے کم نہیں۔ مگر میرے لیے یہ دونوں چیزیں اس طرح سزا بھی بن جائینگی یہ کبھی میں نے سوچا تک نہ تھا۔ مگر یہ بات بھی سمجھ آئی کہ جو کچھ بھی ہوگا، اچھا یا برا مجھے اکیلے جھیلنا پڑے گا۔ اسلئے میں نے ہٹ دھرمی، شکوہ شکایت، ضد، کرنے کے بجائے بیٹے کا بھرم رکھا۔ اسلئے جگنو کا کھلے دل سے استقبال کیا۔ سوچا اس میں بھی میرے رب کریم کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی۔ جگنو نے بھی ایک ماہ کے اندر اندر پورے بکھرے پڑے گھر کو کسی گھریلو عورت کی طرح سمیٹا اور سنبھالا۔ اب گھر پہلے سے بھی زیادہ صاف ستھرا رہنے لگا۔ کھانے پینے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اولاد کی طرح میری دوائیوں کا بھی خیال رکھنے لگا۔ وہ کافی عقل مند اور سمجھدار بچہ تھا۔ اسکے رہتے ہوے مجھے کوئی بھی پریشانی محسوس ہی نہ ہوئی۔ اقبال بھی میرے لئے کافی پیسہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی۔ کمی تھی تو بس بات سننے والے کی۔ وہ بھی جگنو کے آنے سے پوری ہوگئی۔ پھر بھی نہ جانے کیوں جب جب میں اپنے بارے میں سوچتی تھی مجھے ہر وقت اپنے ہر سو خوف، خطرات اور خدشات ہی نظر آتے تھے۔ اسلئے میرے دل کے اندر ایک ڈر سا پیدا ہو رہا تھا۔ خیر وقت کسی کے ڈرنے یا نہ ڈرنے سے رکتا نہیں بلکہ اپنی رفتار بھاگتا رہتا ہے۔ ایک شام جب ندیم مجھ سے ملنے آیا تو اسکا موڑ اچھا دیکھ کر میں نے اس سے کہا بیٹا تم اپنا گھر، اپنا پیسہ اور باپ کا رکا پڑا کاروبار سنبھال لو۔ مجھے اس جنجال سے آزاد کر کے میرا داخلہ نزدیک ہی کسی اولڈ ایج ہوم میں کرا دو۔ مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں۔ میں تمہاری مشکور رہوں گی۔ ماں کیوں ایسی دل جلانے والی باتیں کرتی ہو، مانا کہ میں بڑا مجبور ہوں مگر مجھے ان باتوں سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ میں ویسے بھی بہت پریشان رہتا ہوں، ندیم سر جھکا کر جواب دے کر جگنو کے ہاتھ سے بنے ہوئے چائے کا کپ وہیں چھوڑ کر واپس اپنے گھر چلاگیا۔ ایک روز صبح صبح ندیم کی فون کال آئی ماں مجھے آفس کے ایک ضروری کام کے لیے باہر جانا ہوگا۔ بیٹا ٹھیک ہے لیکن کتنے دنوں کے لیے جارہے ہو؟ ماں میں کچھ کہہ نہیں سکتا، مگر ماں آپ اپنا دھیان رکھنا۔ پھر ندیم نے جگنو کو الگ سے فون کر کے یہ تاکید کردی کہ ماں کا خیال رکھنا۔
میرا وقت تو ویسے ہی رک رک کے گزر رہا تھا۔ جیسے تیسے دو تین دن گزر گئے۔ ندیم سے بھی فون پر بات چیت ہوتی رہی۔ اگلے دن صبح سے ہی آسمان نے سیاہ بادلوں کا لباس پہنا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ موسم کافی خراب ہونے والا ہے۔ میرا بچپن سے ہی سیاہ بادلوں اور تیز بارشوں سے دل گھبراتا تھا۔ باہر کا موسم اور گھر کا سناٹا ہیبت ناک منظر پیش کر رہا تھا کیوںکہ نہ جگنو اپنے کمرے سے باہر آیا اور نہ ہی ندیم کا کوئی فون آیا۔ اسلئے میرا دل کافی بوجھل ہوا۔ میں کئی بار جگنو کے کمرے کے باہر اسے بلانے گئی۔ بلانے کے بجائے پھر یہ سوچ کے واپس لوٹ آئی کہ شاید اس معصوم بچے کی طبیعت ناساز ہوگی۔ دوپہر کا وقت ہوا لیکن شام کی طرح لگ رہا تھا۔ میں نے بھی ساری کھڑکیاں کو بند کرکے انکے پردے گرائے۔ دوپہر ڈھلتے ہی جگنو اپنے کمرے سے باہر آیا اور جا کر کچن کے کاموں میں لگ گیا۔ تیز بارش شروع ہوئی، میں بھی حسب معمول نہ جانے کن خیالوں میں گھم کھڑکی کا پردہ تھوڑا سا ہٹا کر باہر دیکھ رہی تھی۔ پیچھے سے آہٹ ہوئی۔ مجھے کافی بھوک بھی لگی تھی سوچا شاید جگنو کھانا لیکر آیا ہے۔ مڑ کے دیکھا تو میرے سامنے جگنو اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنے پیچھے کچھ چھپائے ہوئے کھڑا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ پلٹا اور کمرے سے نکل گیا۔ میں یہ دیکھ کے حیران رہ گئی کہ اسکے ہاتھوں میں پھل کاٹنے والی چھری ہے۔ ہائے میرے اللہ! میں خوفزدہ ہوگئ۔ اسلئے میں کچھ سمجھ ہی نہ پائی۔ ڈرے ہوے لہجے میں میں نے کہا ببببببیٹا میرے لیئے ایک کپ چائے بنا کے لاؤ مجھے کافی بھوک لگی ہے۔ میں سر سے لیکر پاؤں تک کانپ اٹھی۔ لیکن وہ الٹے پاؤں واپس کمرے میں آیا۔ میں بھی پھرتی سے نکلی سیڑھیوں سے اترتے ہی مین دروازے کی طرف بھاگی۔ بھاگ کے کہاں جاؤ گی آنٹی، میں نے سارا انتظام کر کے رکھا ہے جگنو نے میرے پیچھے آتے ہوے کہا۔ میں نے دروازا کھولنے کی کافی کوشش کی لیکن وہ لاکڈ تھا۔ وہ دھیمے دھیمے قدموں سے میرے اتنے قریب آگیا کہ پیچھے ہٹتے ہٹتے میری پیٹھ دروازے سے لگ گئی۔ میں نے ڈر تے ہوے اس سے کہا یہ کیا بد تمیزی ہے؟ تمہیں مجھ سے کیا چاہیئے؟ میں نے واپس سیڑھیوں کی طرف بھاگنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن بھاگ نہ سکی۔ اسکی آنکھوں میں خون اتر چکا تھا۔ اسکے چہرے پہ عجیب مسکراہٹ تھی وہ انسان سے درندہ بن چکا تھا۔ درندہ ہو کر بولنے لگا آنٹی مجھے نا ان سیاہ بادلوں اور تیز بارشوں سے سخت نفرت ہے کیوں کہ بہت پہلے ان بادلوں نے میری خوشیاں تب چھین لیں، جب میرے باپ نے غریبی اور قرضے سے تنگ آکر خودکشی کر لی۔ اسکے قتل کے الزام میں میری بے گناہ ماں جیل چلی گئی۔ اسے چھڑانے کے لئے مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ اسلئے آپ اپنی تمام قیمتی جیولری اور گھر میں موجود سارا پیسہ میرے حوالے کردیں۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا، بیٹا مجھے چھوڑ دو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ جگنو میرے اوپر چھری سے پہلا وار کرنے ہی والا تھا ایک عجیب اتفاق ہوا۔ ڈور بیل بجی، ساتھ ساتھ زور زور سے دروازا کھٹکھٹانے کی آواز بھی آتی رہی۔ شاید باہر کوئی دروازے پر موجود ہے۔ جگنو کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا، اسکے ہاتھ سے چھری گرگئ تو ہڑبڑا ہٹ میں اس نے جیب سے چابی نکالی دروازے کا ہینڈل گھمایا تو پوری قوت کے ساتھ ندیم اندر داخل ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بارش کے شور کے باوجود اس نے کچھ نہ کچھ باتیں سن لی ہونگی۔ اس نے بارعب لہجے میں جگنو سے کہا حرام زادے میں تجھے ابھی پولیس کے حوالے کرتا ہوں۔ تمہاری چھان بین تو وہی کرینگے۔ باقی رہی میری ماں کی بات تو اب میں کبھی اپنی ماں کو نوکروں کے سہارے نہیں چھوڑوں گا۔ بھاڑ میں جائے دنیا ساری، مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ اس کے بعد اس نے میرے تھرتھراتے ہوئے وجود کو اپنے مضبوط وجود سے لگایا۔
���
پہلگام ، کشمیر،موبائل نمبر؛9419038028