میر شوکت پونچھی
کہا جاتا ہے، کچھ چہرے صرف تصویروں میں زندہ نہیں رہتے،بلکہ وقت کے کتبے پر ایسے کندہ ہو جاتے ہیں جیسے کسی پرانی مسجد کے دروازے پر کاتب نے آیات نہیں، سچائی کے نوحے لکھے ہوں۔ستیہ پال ملک بھی ایسا ہی ایک چہرہ تھا —نہ مکمل بزرگ، نہ پورا مسخرہ،نہ درویشِ کامل، نہ درباریِ مطلق۔مگر ان سب کے بیچ، جیسے آئین کی کتاب کا وہ صفحہ،
جسے حکومتوں نے دبایا بھی، مگر تاریخ نے پلٹا بھی۔2018 کی خزاں جب کشمیر کی وادیوں پر اُتری،تو اس کے ساتھ ایک اور موسم آیا — گورنر راج کا۔
ستیہ پال ملک، جو مرکز کی جانب سے کشمیر بھیجے گئے تھے،کبھی کسی ریلویے کے وزیر تھے، کبھی کسانوں کے مفکر،اور اب راج بھون کے ننگے فرش پر آئین کی چادر تان کر بیٹھ گئے۔پھر ایک شام، محبوبہ مفتی اور سجاد لون کی جماعتوں نے اسمبلی میں حکومت سازی کا دعویٰ فیکس پر بھیجا —۔لیکن وہ فیکس، یا تو آیا نہیں، یا پھر جان بوجھ کر اندھا بہرا بن کر نظر انداز کیا گیا۔یا چشمہ شاہی سے پیاس بجھانے چلا گیا، یا نشاط و شالیمار میں صبح آگاہی حاصل کرنے چلا گیااور پھر، چند گھنٹوں میں اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔تاریخ نے یہ دن قلمبند کیا یوں:
’’جمہوریت ایک فیکس مشین کی مرہونِ منت تھی اور مشین نے روزہ رکھ لیا تھا۔‘‘
ستیہ پال ملک بعد میں کہنے لگے:’’اگر میں نے سجاد لون کو بلایا ہوتا تو بےایمان کہلاتا۔‘‘یہ بات جیسے پانی میں پتھر پھینکنا ہو —،لہریں پھیلتی گئیں اور آئین کے کنارے شرمندہ کھڑے ہو گئے۔
۵ اگست ۲۰۱۹ — تاریخ کا وہ دن جس پر نہ سیاہی چڑھائی جا سکتی ہے، نہ صفائی۔Article 370، جو جموں و کشمیر کی شناخت کا آئینی کفن تھا،اسی دن بغیر جنازے کے دفن کر دیا گیا۔انالِلہِ و انا الہی راجعون۔گورنر ہاؤس میں خامشی تھی — مگر وہ خامشی تاریخی چیخ سے کم نہ تھی۔وادی کو سیکنڈوں میں دو حصوں میں بانٹ دیا گیا:جموں و کشمیر — اور لداخ۔اور ساتھ ہی اُس دن سے کشمیر میں انٹرنیٹ، ٹیلی فون، اخبار، حتیٰ کہ سانس لینے تک پر پہرہ لگ گیا۔
ستیہ پال ملک اُس وقت راج بھون کے مکین تھے،اور اُنہوں نے کہا:
’’میرے وقت میں ایک دہشتگرد بھی نہیں آیا، جیسے گبر کا نام سن کر سات گاوں تک کوی اونچی آواز میں بات بھی نہیں کر سکتا تھا،حالات مکمل قابو میں تھے۔‘‘کاش کوئی اُن سے پوچھتا:’’حالات کب قابو میں ہوتے ہیں؟ جب لوگ گھر میں قید ہوں؟‘‘یا جب خوف اپنا سرکاری جھنڈا لگا لے؟‘‘وقت بدلا —،گورنر صاحب اب گوا میں تھے، پھر میگھالیہ میں —جہاں گورنر کا کام اکثر’’ربن کاٹنا، تقریر پڑھنا اور چائے پینا‘‘ ہوتا ہے۔مگر جب دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کے جتھے نے اپنے حق کی خاطر خیمے گاڑھ دیے،اور حکومت نے کانوں میں روئی ڈال لی —،تو یہی خاموش ستیہ پال ملک اچانک بولنے لگے۔
کبھی کہنے لگے:
’’سرکار میں سنگدلی ہے،کسان مر رہے ہیں، اور وہ صرف اپنے منتر پڑھ رہی ہے۔‘‘کبھی فرمایا:
’’مجھے دو فائلیں روکنے پر ۱۵۰ کروڑ کی پیشکش ہوئی،مگر میں پانچ کُرتے پہن کر آیا تھا، پانچ کُرتے پہن کر جاؤں گا۔‘‘یہ جملے کسی عام گورنر کے نہیں تھے —،یہ تو جیسے تخت کے دروازے پر کھڑے کسی میر تقی میر کی صدا تھی،جو بغاوت تو نہیں کر رہا، مگر غزل میں اعلانِ جنگ لکھ رہا ہے۔حکومت جو اس وقت کرسیوں پر پیر پھیلا کر بیٹھی تھی،ستیہ پال کی باتیںاُس کے لیے ناخن میں دھرا کانٹا بن گئیں۔ایک گورنر، جو کبھی وفاداری کے ورد کرتا تھا،اب سرکار کے’’بھولے ہوئے وعدوں‘‘ کا محاسب بن گیا۔
لیکن ستیہ پال ملک نے جو کہا،وہ صرف کسانوں کی حمایت نہیں تھی —،وہ ایک زمانے کے خلاف ملامت تھی۔
’’میں نے خود دیکھا ہے کہ حکومت کو کسان کی فکر نہیں،وہ صرف اُس وقت بولتی ہے جب دربار کے ستون ہلنے لگیں۔‘‘یہ بیان، جیسے کسی شاعری کے مصرع میں بندوق رکھ دی گئی ہو۔کچھ وقت بعد، وہ Article 370 پر بھی بول پڑے۔لیکن جب بولے، تب تک آسمان میں گھنگھور گھٹائیں برس چکی تھیں،وادی کے بچوں نے انٹرنیٹ کے بغیر سال گزار دیا تھا،اور ہزاروں نے اپنی شناخت سرکاری رجسٹروں میں گم کر دی تھی۔لوگ عادتیں بدل چکے تھےاب جب وہ بولے:
’’جمہوریت پامال ہوئی، ریاستی حیثیت لوٹنی چاہیے۔‘‘تو ایسا لگا جیسے قافلے کے بعد چراغ لے کر دوڑنے والا مسافر —جو جانتا تھا کہ اندھیرا باقی ہے،مگر اُسے روشنی اب سوجھی۔
۵ اگست ۲۰۲۵ — وہی دن، جس دن Article 370 کی برسی تھی —،اسی دن ستیہ پال ملک نے بھی الوداع کہا۔رام منوہر لوہیا اسپتال، دہلی میں، اُن کے پھیپھڑے اور گردے جواب دے چکے تھے۔کتنی ستم ظریفی تھی —کہ جس دن اُن کا گورنری کارنامہ مکمل ہوا تھا،اسی دن اُن کی زندگی کا صفحہ بند ہوا۔نہ سرکار نے زور و شور سے یاد کیا،نہ کوئی ریاستی تعزیت آئی،بس اخباروں میں چند سطریں —اور کسانوں کے ہونٹوں پر ایک دیرینہ تشکر۔ستیہ پال ملک کو اگر تم صرف ایک سیاستدان سمجھو گے،تو غلطی تمہاری ہے،کیونکہ وہ دراصل ایک استعارہ تھے —،جو کبھی اقتدار کے قریب بیٹھا،کبھی کسان کے خیمے میںاور کبھی کشمیر کی وادی میں خاموشی کا سفیر بن گیا۔وہ نہ مکمل درویش تھے،نہ پورے سازشی،بلکہ دربار کے بیچ بیٹھا وہ مکھڑا،جو آئین کے لفظوں کو کبھی خوشبو کی طرح پہنتا،اور کبھی غصے کی طرح اچھالتا۔گورنر کا کُرتا سفید تھا،مگر اُس پر جو الفاظ کے دھبے تھے،وہ نہ صابن سے دھلتے ہیں،
نہ وضاحتوں سے۔وہ صرف ادب کی سیاہی میں محفوظ ہو جاتے ہیں،جہاں وہ نسلوں کو بتاتے ہیں:’’سچ اگر بولنے میں تاخیر کرے،تو افسانہ بن جاتا ہےاور اگر وقت پر بولے،تو تاریخ!‘‘یہ تحریر محض ایک خاکہ نہیں،یہ ایک عہد کی سوانح ہے —،جہاں جمہوریت فیکس مشین کے پلگ سے جڑی تھی،اور آئین، گورنر کے خراٹے میں دب گیا تھا۔مگر جب ایک مکھڑا بولا —تو تاریخ نے سر ہلا دیا:’’یہ سچ کا افسانہ ہے۔‘‘
<[email protected]