Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

’’ایک قبر اور دو بچے‘‘ افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: November 5, 2023 1:00 am
Mir Ajaz
Share
13 Min Read
SHARE

بابا مرتضیٰ

 

۔۔۔۔افو خدایا۔۔۔ بچوں کی لاشیں ہیں۔۔۔ پہچاننا مشکل ہے۔۔۔افو۔۔۔ خدایا!
ارے۔۔۔۔۔ ارے۔۔۔ ایک بچے کی ایک ٹانگ اور ایک بازو بھی نہیں ہے اس کے معصوم سے جسم کے ساتھ۔۔۔۔ لگتا ہے کسی رہائشی عمارت پر بھاری بھر کم بم گرنے سے باہر گریں ہونگیں۔۔۔ خدایا! رحم فرما ہمارے حالات پر۔
ایک رضا کار نوجوان جنگی علاقے میں خدمت کے دوران خود سے ہی باتیں کرتا ہوا مزید کہتا ہے. دونوں مگر بچے ہیں اسلئے ان کی پہچان یعنی ان کا مذہب جاننا بھی دشوار سا ہے۔ خیر چھوڑو۔ بچوں کا کیا مذہب اور باقی چیزوں سے لینا دینا۔بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ معصوم یعنی گناہوں سے پاک و صاف خواہ کسی بھی دین یا مذہب سے ان کا تعلق ہو۔۔۔ بچے تو ایک جیسے اور ایک سمان ہوتے ہیں۔۔۔۔ چاہئے تخت پر بیٹھے وقت کے بادشاہ کے ہوں۔ یا جھونپڑی میں رہنے والے ایک سفید پوش مزدور کے۔ چاہئے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کے ہو یا یہود و نساران کے۔ بچے تن و من کے سچے اور معصوم ہوتے ہیں۔
اتنے میں رضا کار پھر بچوں کی ان بکھری پڑی لاشوں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ ان معصوموں نے کیا بگھاڑا تھا کسی کا۔ کہ ان کلیوں کو کھلنے سے پہلی ہی کسی وحشی درندے نے مسل کر رکھ دیا اور انکو اتنی بے دردی سے ان کے اعضاء کو انکے کچے جسم سے بڑی بے رحمی سے بم سے الگ تھلگ کرکے رکھ دیا۔ اور پتہ نہیں اس وقت بے چارے! یہ دو معصوم بچے عمارت کے کس منزل میں کیا کر رہے ہونگے تب۔ جب ایک وحشی انسان! نے اس عمارت پر بم گرا کر انکے جسم کے اعضاء ہوا میں تنکوں کی طرح اُڑا زمین پر پٹخ دئیے ہونگے۔ وائے! وائے! ۔۔۔ان معصوموں نے کیا بگھاڑا تھا کسی کا۔
باؤکھ اور جذباتی ہوکر رضا کار کی آنکھوں سے مانو آنسوں کا سیلاب سا بہنے لگا۔ ایک حیوان صفت انسان کے ایسے گرونے اور نیچ کام اور حرکت کو دیکھکر سمجھو پوری طرح ٹوٹ چکا تھااور خود کو انسان ہونے پر شرم محسوس کر رہا تھا۔ اتنے میں اسکو پھر اپنا مقصد یاد آیا۔ کہ وہ اصل میں کس مقصد کے لئے متاثرہ بستی میں آیا ہوا ہے۔ اور وہ پھر اپنی پوری تر توجہ اپنے اصل کام کی طرف مبذول کرانا چاہتا تھا۔ پہلے ادھر ادھر دوڑھ کر چاہا کہ شاید کہیں بچے کی وہ ٹانگ اور بازو بھی مل جائیں جو اسکے جسم سے موجود نہ تھے۔ کافی تلاش کرنے کے باوجود بھی جب اسکو وہاں کچھ بھی نظر نہ آیا تو فوراً ٹوٹے قدموں سے پھر بچوں کی بکھری پڑی لاشوں کے پاس آ پہنچا۔ اب وہ یہ ارادہ کر چکا تھا کہ دونوں بچوں کو نہلا دھلا کر یعنی غسل دیکر ایک قبر میں دفنا دیا جائے۔ اسکے لئے پہلے ایک قبر کھودنے کے لئے جگہ کا انتخاب کرنے لگا۔ نزدیک میں ایک چھاؤں دار پیڑ دیکھ کر من بنا لیا کہ یہی جگہ ان معصوموں کی آرام گاہ کے لئے موزون رہے گئ۔ وہ قبر کھود کر واپس بچوں کی لاشوں کے پاس آپہنچا۔ اب غسل دینے کے لئے پانی کی کھوج میں نکلتا ہے مگر پانی کا نام و نشان دور دور تک نظر نہ آیا۔ نراش اور ناامید ہوکر واپس لوٹ آیا تو یاد آیا کہ تھیلی میں ایک بوتل پینے کا پانی رکھی ہوئی ہے۔ اسی سے کام چلایا جائے۔۔۔ بوتل نکال کر اور پانی دیکھ کر طے یہ کرتا ہے کہ دونوں بچوں کے دھول میں لت پت پڑے گلاب جیسے چہروں کو صاف کرکے انکو آرام گاہ یعنی قبر میں دفن کردوں اور ٹھیک یکے بعد دیگرے بچوں کے چہرے کو صاف کرکے بوتل میں بچے کھچے پانی کے قطرے انکے گلابی ہونٹ کھول کر باری باری انکو پلانے کی کوششیں کرتا گیا۔۔۔آنسوں اب بھی مسلسل اسکی آنکھوں سے بارشوں کی طرح گرتے رہے۔
اب پہلے اس بچے کو آرام سے اٹھا کر، چھاتی سے لگا کر قبر کی اور لے کر چلا جسکی ٹانگ اور بازو کہیں نظر نہیں آ رہے تھے اور اسکو قبر میں اتار کر دوڑا چلا دوسرے بچے کی لاش لینے آیا۔ اسکو بھی ٹھیک اسی طرح اٹھاکر چھاتی سے لگا کر قبر تک پہنچایا اور پر نم آنکھوں سے قبر میں اتار کر ۔۔۔زارو قطار رونے لگا اور پورے انسانوں اور انسانیت کا جنازہ پڑھنے لگا ہے۔۔۔وہ چلاتا رہا کہ انسان انا، غرور، خود غرضی، لالچ، حرص اور اپنا دبدبہ بنائے رکھنےکی ضد میں پوری انسانیت کا قتل کرنے سے بھی باز نہیں آتا ہے۔آجکا انسان کتابوں سے علم نہیں بلکہ تباہی کے سامان بنانا سیکھنا چاہتا ہے اور بارود کی دوڑ میں سرفہرست رہ کر دوسرے انسانوں پر سبقت لیکر اپنی حیوانیت مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔اور ہائے ! انسانی حقوق کے علمبردار ایک بڑے سے سرکس کی عمارت میں ایک۔۔۔ بن دانتوں۔۔۔ اور بن آنکھوں۔۔۔ کے شیر کی طرح اپنے زمینی آقاؤں نے صرف ڈرانے کے لئے رکھے ہوے ہیں۔ وہ سچ جان کر بھی بے چارے کر بھی کیا سکتے ہیں۔۔۔ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں تو کیا؟۔۔۔ بے چارے! اصل میں باقی لوگوں کی طرح نوکری ہی تو کرتے ہیں۔ انکو اپنے ہی بچوں کا ہنسنا کھیلنا اچھا لگتا ہے۔ انکو تو اپنے ہی بچوں کے مستقبل کی فکر ستا رہی ہوتی ہیں۔
خیر ایک دن سب کو اپنے کئے کا حساب اپنے حقیقی معبود کے سامنے دینا ہوگا اور دنیا میں بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹنی ہوگی۔اسی بیچ وہ رضا کار نوجوان قبر کو پوری طرح بند کر کے ان دو معصوم بچوں کی خاطر ہاتھ اٹھا کر زارو قطار رو رو کر رب سے انکے حق میں اچھا فیصلہ کرنے کی دعا کرتا ہے اور پر نم آنکھوں سے وہاں سے نکل کر قبر کی طرف مڑ مڑ کے دیکھ کر اور لوگوں کی خدمت میں نکل جاتا ہے۔
اب ایک ہی قبر میں دو معصوم بچے آرام کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ بہت سارا وقفہ گزرنے کے بعد ایک بچہ اچانک سے جیسے نیند سے بیدار ہوتا ہے اور قبر میں ایک سفید پوشاک پہنے ہوئے ۓ کسی نئی مخلوق کو دیکھتا ہے جو اس وقت دوسرے بچے، جسکی ٹانگ اور بازو نہ تھے، کو بڑے پیار سے جیسے نیند سے جگا رہا تھا اور اچھی طرح اس بچے کو جگا کر وہاں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ اب پہلے بیدار ہوا بچہ جان گیا کہ مجھے بھی اسی خوبصورت شخص نے نیند سے بیدار کیا ہوگا۔ دونوں بچے ۔۔۔ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگ جاتے ہیں اور پہلے بیدار ہوا بچہ۔۔۔ شیرین لہجے میں۔۔۔ دوسرے بچے کو اپنا نام ‘مائیکل ‘ بتاکر اسکی طرف اپنا ہاتھ ملانے کے لئے پیش کرتا ہے اور دوسرا بچہ۔۔۔ ‘اسلام وعلیکم کہکر اپنا نام ‘بلال بتا کر ہاتھ ملا لیتا ہے۔
اسطرح وہ ایک دوسرے کے نام جان جاتے ہیں لیکن وہ دونوں بچے ابھی بھی یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ انکو آخر کس غلطی اور گناہ کی خاطر کھلنے سے پہلے ہی در گور کر دیا گیا۔ مائیکل اسکول کی وردی کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بلال سے کہتا ہے کہ۔۔۔ “میری ماں نے مجھے اسکول جاتے وقت دو چاکلیٹ دیئے تھے جو ابھی بھی میرے جیب میں ہی ہیں”۔ یہ لو۔۔۔ میرے چھوٹے بھائی اور میرے دوست۔۔۔ آپ ایک کھاؤ۔ بلال اپنا ہاتھ بڑھا کر چاکلیٹ ہاتھ میں لیتا ہے اور اسکا ریپر اتار کر کھانا چاہتا تھا تب جاکر اسکو پتہ چلتا ہیں کہ اسکا ایک بازو ہی نہیں اور اسکو۔۔۔ وہ سارا ماجرا یاد آتا ہے۔۔۔ کہ کیسے اسکو اپنے ابو جان نے گھر کی دوسرے منزل میں ایک پلنگ کے نیچے جنگ میں جان بچانے کے لئے چھپائے رکھا تھا۔۔۔ مگر افسوس! یہاں گلاب جیسے بلال کا بے سہارا اور بے بس باپ اپنے لخت جگر کو بچانے میں ناکام رہا۔۔۔ اور وہاں بے چارے!۔۔۔۔ پھول جیسے مائیکل کی ممتا میں اندھی ماں جنگ میں پوری طرح اپنے جگر کے ٹکڑے کو بچانے سے ہار جاتی ہے ۔
اسی اثنا میں مائیکل کی نظر بھی بلال کے کٹے ہوئے بازو کی طرف پڑتی ہے۔ وہ کچھ کہے بنا ہی بلال کے ہاتھ سے دیا ہوا چاکلیٹ بڑے پیار سے واپس لیتا ہے اور اسکا ریپر اتار کر بلال کو اپنے قریب لاکر اسکو کھلاتا ہے اور اسکو کہتا ہے کہ۔۔۔ “میرے پیارے بھائی جان۔ آپ فکر نہ کرو میں آپ کی پوری زمہ داری سے دیکھ بھال کروں گا۔ تبھی بلال چاکلیٹ کھا کر مائیکل کے ماتھے کو چوم کر مانو اسکا شکریہ ادا کرتا ہو۔ اور کھڑے ہونے کی کوشش میں لگ جاتا ہے مگر وہ یہ کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ پھر اسکو پتہ چلتا ہے کہ بم پھٹنے کی وجہ سے وہ ایک ٹانگ سے بھی محروم ہوا ہے۔ اسلئے کھڑا نہیں ہو پا رہا ہے۔ مائیکل بلال کی حالت دیکھکر اور اسکو ٹانگ سے محروم کو دیکھ کر بہت ہی افسردہ اور دلگیر ہوتا ہے اور بلال سے اپنی افسردگی چھپا کر کہتا ہے کہ “آپ فکر نہ کرو میرے بھائی جان میں آپ کو ان اعضاء کی کمی کو محسوس نہیں ہونے دونگا۔ میں آپکی۔۔۔ ٹانگ اور آپکے۔۔۔ بازو بن کر اپنے پیارے بھائی جان کی طرح دیکھ ریکھ کروں گا”۔۔۔۔بلال یہ سن کر اپنی طوطیلی زبان سے مائیکل کا شکریہ ادا کرکے اسکو واپس یہ کہتا ہے کہ “ایک چیز تو اچھی ہوئی کہ مجھے جنگ میں ایک بم سے مارا گیا اور یہاں اس سکون والی جگہ میں آپ جیسے ایک پیارے بھائی کے ہمراہ چھو ڑ دیا گیا۔ ویسے بھی۔۔۔ اب یہ دنیا۔۔۔ انسانوں کے رہنے کے لئے اچھی جگہ نہ رہی۔۔۔ جیسے ہم دونوں کو پتہ ہی نہیں کہ ہمیں کیوں مارا گیا۔ویسے ہی مارنے والے کو یہ بالکل بھی پتہ نہیں ہوگا۔۔۔ کہ میں کیوں لوگوں کو مار رہا ہوں۔۔۔۔”
مائیکل اور بلال۔۔۔ کی قبر میں کی گئ یہ گفتگو انسانوں اور انسانیت کے علمبرداروں کے لئے بہت سارے سوالات لا کھڑا کرتی ہے اور پورے عالم انسانیت کے لئے یہ ایک حساس اور انتہائی پیچیدہ مسئلے کی طرف اشارہ کردیتی ہے۔۔۔ اتنے میں وہ سفید پوشاک میں ملبوس وہ مخلوق پوری چمک کے ساتھ پھر نمودار ہوتا ہے اور دونوں بچوں پر اپنے ساتھ لایا ہوا سفید چمکتا ہوا کپڑا ان پر ڈال کر انکو ہمیشہ کے لئے ایک اچھی خواب گاہ میں سلا کر وہاں سے غائب ہو جاتا ہے. ۔
���
رے کاپرن شوپیان، کشمیر
موبائل نمبر؛7889379873

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
اسرائیلی بربریت جاری حملوں میں مزید 120 فلسطینی جاں بحق
بین الاقوامی
اقوامِ متحدہ کی مسئلہ فلسطین پر کانفرنس امریکہ کاممالک سے شرکت نہ کرنے پر زور
بین الاقوامی
لاس اینجلس میں احتجاج کرنے والے400 افراد گرفتار
بین الاقوامی
اسرائیل ایران پر حملے کیلئے پوری طرح تیار
بین الاقوامی

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?