ایس معشوق احمد
صاحبو فون پر آپ بھی روز دوستوں سے باتیں کرتے ہوں گے میں بھی اس معاملے میں آپ کا ہمنوا ہوں اور دوستوں کے ساتھ وقت بے وقت باتوں میں مصروف رہتا ہوں لیکن کبھی کبھار اگر کوئی ضروری کام کرنا مقصود ہو اور اس وقت کوئی دوست کال کرے تو آپ کے ماتھے پر شکن ضرور آتی ہوگی۔ میں بھی فرشتہ نہیں ہوں اور کبھی کبھار میرا بھی خون تیز تیز گردش کرنے لگتا ہے ، آنکھیں لال ہوتی ہیں اور چہرہ سرخ لیکن اس کے باوجود زبان پر مٹھاس برقرار رہتی ہے۔اس صورتحال میں سوائے صبر کے نہ آپ کچھ کر سکتے ہیں نہ میں کہ ہم سارے ہی ایک جون میں دس بیس آدمی رکھتے ہیں۔ابھی کل کا واقعہ ہے کہ ایک دوست نے کال کی۔ اس کے انداز گفتگو سے لگ رہا تھا کہ اس نے بھی چاند پر کچھ نہ کچھ نہ صرف خریدا ہے بلکہ پچھلے ایک ماہ سے وہاں رہ بھی رہا ہے۔ سلام دعا کے بعد اس نے پہلا سوال داغا کہ کیا حال ہے۔ہمارے پاس بھی رٹا رٹایا جواب حاضر تھا ۔ہم نے رب کا شکر بجالایا اور نرمی سے ٹھیک ہے کا ورد کیا۔حقیقت میں آپ کو بتاتا ہوں مگر ان سے نہ کہنا ورنہ راز کھل سکتا ہے اور گڑبڑ ہوسکتی ہے۔سردیوں میں حال برا ، چال ٹیڑھی اور مال نایاب ہو تو بندے کا کیسا حال ہوسکتا ہے؟ آپ سارے دانا ہیں اور اس بھید کو خوب جانتے ہیں۔اب کون نادان اپنا حال ظاہر کرتا اور رسوا ہوتا۔مرزا کہتے ہیں کہ اپنا حال خوش حال ، حسینہ کی چال اور بال ، دوسروں کے جیب کا مال اور ٹماٹر لال ہر فرد ہی دیکھنا چاہتا ہے اس لئے ہر فرد پہلے حال پوچھتا ہے تاکہ اگلی چال چل سکے۔مرزا کی باتوں پر دھیان نہ دیجیے اور حضور کا اگلا سوال سن لیجیے کہ کہ سردی کتنی ہے۔؟ اب آپ بتائیں اس منفی سوال کا جواب میں کیا دیتا جب پارہ منفی چل رہا ہو۔میں نے غصے کو قابو کیا اور اپنی زبان کو بداخلاقی سے بچانے میں بمشکل کامیاب ہوا۔غصہ رفع ہوا اور ہوش بحال تو جوابا ً ان سے کہا کہ صاحب زیادہ سردی نہیں ہے۔اگر اس سے بھی زیادہ ٹھٹھرن ہو تو بھی ان کا کیا بگاڑ لے گی جو ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوں، اپنے خون کو گرم رکھتے ہوں اور اپنے حوصلوں کو بلند رکھتے ہوں۔یہ جواب اُن کے لئے تھا آپ تو میرے راز دان ہیں آپ حقیقت سن لیجیے۔جب انہوں نے یہ سوال کیا کہ سردی کتنی ہے تو میری کانوں کی لوئیں سرخ ہوئیں اور یخ بستہ ہواؤں میں ایسا لگا جیسے جون جولائی کا موسم ہو۔بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے کہ شدید سردی میں کسی سے پوچھا جائے کہ کتنی سردی ہے۔ کشمیر کا باشندہ کشمیر کے موسم سے واقف نہ ہو تو یا وہ احمق دماغی مریض ہے یا پچھلے بیس سال پیرس ،لندن میں رہ رہا ہے۔میرا بے وقوف دوست کشمیر میں بیٹھ کر یہ سوال کررہا ہے کہ سردی کتنی ہے۔؟ مانند خاک نے اتنے کپڑے پہن رکھے ہیں کہ ہلنا محال ہے ، کانگڑی کو گود میں رکھا ہے ، کمبل کے حصار میں گرم چائے کی چسکیاں لے رہا ہوں اور اس سارے انتظام کے باوجود کانپ رہا ہوں۔مجھ سے وہ فرد جس نے اس سے دوگنا انتظام اپنے لئے کررکھا ہو یہ پوچھے کہ سردی کتنی ہے تو اس احمقانہ سوال کا کیا جواب دینا چاہیے آپ سمجھدار اور فہم و فراست والے لوگ ہی بتا دیجیے۔مرزا کہتے ہیں کہ جوش میں ہوش اور سردی میں گاجر کا حلوہ نوش کرنا چاہیے۔جسم گرم رکھنا چاہیے نہ کہ دماغ ۔ہم نے مرزا کی باتوں پر عمل کیا اور سردی میں مزید کچھ خنکی خود پر طاری کرکے سرد ہوئے۔سرد ہونے سے یہ مطلب ہرگز نہ نکال لیجیے گا کہ مر گئے بلکہ سوال سن کر غصے کی آگ میں جو جل بھن رہے تھے اس کیفیت سے خود کو نجات دلائی۔
ابھی کچھ سنبھلے ہی تھے کہ تیسرا تیر چلایا گیا اور ہمیں مزید زخمی کیا گیا یہ سوال کرکے کہ کیا چل رہا ہے۔؟صاحبو آپ سب ہی واقف ہیں کہ آجکل کیا چل رہا ہے۔سردیاں تو شروع ہی ہوئی ہیں باقی گاڑیاں چل رہی ہیں ، ریل چل رہی ہے ، دوکانیں تو رکی ہوئی ہیں لیکن کاروبار چل رہا ہے اور مرزا کہتے ہیں کہ جہاں رشوت ، سفارش اور سیاست چل رہی ہو وہاں یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ کیا چل رہا ہے۔پھر بھی یار دوست پوچھ رہے ہیں کہ کیا چل رہا ہے تاکہ ہم وہ کہہ لیں جو واقعی چل رہا ہے اور ہمیں بھی کسی ایسی جگہ چلنے کو کہا جائے جہاں پر پھر اپنا کچھ نہیں چلتا۔کچھ چلے نہ چلے اللہ کا شکر ہے کہ ہم پیدل چل رہے ہیں۔ہمارے افلاس کے دن چل رہے ہیں اور ابھی ہم پر لکشمی دیوی اتنی مہربان نہیں ہوئی کہ گاڑی خرید کر سوال کرنے والے کا منہ یہ کہہ کر بند کرلیں کہ صاحب ہماری گاڑی چل رہی ہے۔آپ سے تو کچھ چھپا نہیں ہے آپ بھی جانتے ہیں کہ کیا چل رہا ہے اس لئے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ کیا کیا چل رہا ہے۔اب کی بار نام سمیت سوال ہماری طرف اچھالا گیا کہ معشوق صاحب بیگم ٹھیک ہیں۔؟ صاحبو یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں ہے کہ بیگم ہمیشہ اپنی فرمائشوں سے مردوں کو غمگین کرتی ہیں اور خود بے غم ہی رہتی ہے۔کیا وقت آن پڑا ہے معشوق کے کبھی جانثار عاشق ہوا کرتے تھے اب حالت ہی نہیں پورا منظر نامہ بدل گیا ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ اس وقت سے پناہ مانگو جب معشوق بھی غم اور بیگم پال رہے ہوں۔مزید ایسے احمقانہ سوالات سے بچنے کے لئے ہم نے ایک سانس میں جواب دیا کہ رب کے فضل سے میرے سارے رشتہ دار ، دوست احباب ، ہمسائے یہاں تک کہ سارے دشمن بھی ٹھیک ہیں۔ اس لئے اب کی بار یہ سوال سننے کو ملا کہ ہمارے ہاں کب آرہے ہیں۔ سوچ تو میں بھی ایک سال سے رہا ہوں کہ فلاں کے پاس جاؤں گا لیکن مصروفیت کی بیڑیاں پاؤں میں پڑی ہیں جو زیادہ دور جانے نہیں دیتی۔ویسے دل کی بات بتاتا ہوں دوست جیسے بھی ہوں ان کے پاس جانا چاہیے۔انسان جوان ہی نہیں تندرست ہوجاتا ہے۔فون پر دن بھر بے تکی باتیں کرنے سے بہتر ہے کہ آمنے سامنے ایک گھنٹہ ہی بات کی جائے ۔جو مزہ دوست سے دل سے دل ملانے میں ہے وہ کان لگانے میں کہاں۔ اس سے پہلے ان کا مجھے دعوت دینے کا ارادہ بدل جائے میں کال کٹ کر ان کے پاس جانے کی تیاریوں کو حتمی شکل دیتا ہوں بھلے ہی سردی ہو یا مصروفیت میں جاتا ہوں اور دل کا بوجھ ہلکا کرکے آتا ہوں اور جو سوالات باقی رہ گئے ہیں ان کے جوابات سامنے بیٹھ کر دیتا ہوں تاکہ میں سوال کی کیفیت اور وہ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ سکے۔آپ لوگ یہ مت سمجھ لینا کہ خالی اس نے سوالات کئے اور میں نے الٹے سیدھے جوابات دئیے بلکہ میں نے بھی ایسی احمقانہ اور بے وقوفانہ باتیں کیں کہ ان کا بیان آپ کے سامنے کرنا اس سے بڑی بے وقوفی ہوگی حالانکہ آپ میرے راز دان ہیں لیکن کچھ باتوں کو سینے کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے تاکہ رسوائی نہ ہو۔مرزا کہتے ہیں کہ فون پر بات اوقات سے بڑھ جائے تو اسے مختصر کرنے میں ہی بھلائی ہے۔
���
موبائل نمبر؛8493981240