ایک دفعہ حضرت جلال الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ سے ملنے آئے۔ آپ کو معلوم نہ تھا کہ یہ بزرگ ہستی کون ہیں ،آپ احتراما کھڑے ہوگئے۔ حضرت شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے نہایت مشفقانہ لہجے میں فرمایا :’’بیٹھ جائو فرزند! اور اپنا کام جاری رکھو‘‘حضرت بابا فرید رحمتہ االلہ علیہ حضرت شیخ رحمتہ اللہ علیہ کے حکم سے مسجد کے فرش پر بیٹھ گئے مگر کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ آپ کچھ عجیب سے اضطراب میں مبتلا تھے۔ نتیجتاً دوبارہ کھڑے ہوگئے۔ حضرت شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کا سبب پوچھا تو عرض کرنے لگے ’’آپ کی موجودگی میں بیٹھتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے‘‘حضرت شیخ جلال الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کا جواب سن کر بہت مسرور ہوئے اور پھر آپ نے ایک انار نکال کر نوجوان طالب علم کودیا اور فرمایا :’’بچے اسے رکھ لو‘ درویش کے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ اور نہیں ہے‘‘حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ اس دن روزے سے تھے۔ اس لئے انارتوڑ کر اس کے سارے دانے حاضرین مسجد میں تقسیم کردئے۔’’فرزند! تم نے اپنے لئے کچھ نہیں رکھا؟‘‘حضرت شیخ جلال الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ نے بابا فرید رحمتہ ا للہ علیہ سے دریافت کیا۔’’بس! مجھے یہ کافی ہے‘‘ حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ نے انار کے اس دانے کواٹھاتے ہوئے کہا جو تقسیم کے دوران مسجد کے فرش پر گرپڑا تھا۔حضرت شیخ جلال الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ نے بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کا جواب سنا‘ عجیب نظروںسے آپ کی طرف دیکھا اور پھر مسجدسے تشریف لے گئے۔جب بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے پیرومرشد کے پاس دہلی پہنچے اور ایک دن گفتگو کے دوران آپ کو اپنے لڑکپن کا وہ واقعہ یاد آیا تو حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کو تمام روداد سنانے کے بعد عرض کرنے لگے۔’’پتا نہیں وہ کون درویش تھے؟ پھر بھی میں نے انار کے اسی دانے سے روزہ افطار کیا تھا‘‘حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے پورا واقعہ سننے کے بعد فرمایا: ’’بابا! وہ بزرگ حضرت شیخ جلال الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ تھے۔ تم بہت خوش نصیب ہو فرید! حضرت شیخ تمہیں انار دینے ہی کے لئے مسجد تشریف لائے تھے‘‘’’مگر میں نے تو سارا انار حاضرین مسجد میں تقسیم کردیا تھا۔‘‘ حضرت قطب رحمتہ اللہ علیہ کے انکشاف کے بعد بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کو اس بات پر افسوس ہونے لگا تھا کہ آپ نے پورا انار خود کیوں نہیں کھایا۔
’’مولانا فرید! اُداس نہ ہو۔ تمہاری یہی ادا تو شیخ کو پسند آئی تھی۔ وہ تمہارے دل کی کشادگی دیکھنا چاہتے تھے، تم نے حاضرین مسجد میں انار تقسیم کرکے شیخ کو خوش کردیا۔ پھر جب تم نے زمین گرا ہوا دانہ اٹھایا اور حضرت جلال الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ پر ظاہر کیا کہ تمہارے لئے یہی دانہ کافی ہے تو شیخ تمہارے انکسار اور قناعت سے راضی ہوگئے۔ یہ دل کی باتیں ہیں شیخ نے تمہیں سب کچھ دے دیا‘ اسی ایک دانے میں تمہارے لئے تمام نعمتیں موجود تھیں‘ باقی سارے دانے خالی تھے‘‘۔