امتیاز خان
پونچھ کی سرسبز وادیوں اور بلند پہاڑی سلسلوں کے درمیان آباد یہ خطہ اپنی علمی، فکری اور روحانی روایات کے سبب ہمیشہ ممتاز رہا ہے۔ اس سرزمین پر ایسے کئی مذہبی و تعلیمی مراکز قائم ہوئے جنہوں نے دور دراز علاقوں تک علم کی روشنی پہنچائی، مگر چند ادارے اپنی بنیاد، مزاج، خدمات اور معاشرتی اثر کے اعتبار سے ہمیشہ نمایاں رہے۔ انہی اداروںمیں جامعہ ضیاء العلوم کا شمار کیاجارہا ہے ،جوگزشتہ50برسوں سے علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ایک ایسا ادارہ جسے شہرت، سرمایہ یا طاقت نے نہیں بلکہ خلوص، سچی نیت، خدمت کے جذبہ اور اپنی برادری کے ساتھ بے لوث محبت نے پروان چڑھایا۔ 1974میں ہسپتال روڈ پونچھ کی ایک سادہ سی ٹن شیڈ مسجد میں ایک معمولی سے مکتب کی حیثیت سے شروع ہونے والا یہ مرکز آج اپنی گولڈن جوبلی مناتے ہوئے نہ صرف ایک منظم تعلیمی ادارے میں تبدیل ہو چکا ہے بلکہ پورے خطے کی فکری اور سماجی تشکیل کا اہم ستون بھی بن گیا ہے۔
یہ سفر اس سچائی کی مضبوط دلیل ہے کہ اگر دل میں اخلاص ہو، ارادے بلند ہوں اور مقصد صرف اللہ کی رضا اور اپنے لوگوں کی خدمت ہو، تو معمولی سی شروعات بھی معاشرے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جامعہ ضیاء العلوم کی بنیاد اور اس کی تمام تر تعمیر و ترقی کے پیچھے جس مخلص اور دردِ دل رکھنے والی شخصیت کی محنت کارفرما ہے ،وہ مولانا غلام قادر ہیںجنہوںنے اپنی زندگی کا ہر لمحہ علم، خدمت اور سماجی اصلاح کیلئے وقف کر دیا۔دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور نہایت باصلاحیت عالم دین مولانا غلام قادر نے 1960کی دہائی کے آخر میں راجستھان کے مختلف تعلیمی اداروں میں پانچ سال تک درس و تدریس میں محو رہے، مگر دل کے کسی گوشے میں ہمیشہ اپنے وطن، اپنی مٹی اور اپنے لوگوں کیلئے کچھ کرنے کی تڑپ موجود رہی۔ اسی جذبے نے انہیں واپس پونچھ لوٹنے پر آمادہ کیا، جہاں انہوں نے اس ادارے کی بنیاد رکھی جس نے نہ صرف آنے والی نسلوں کی فکری و سماجی تعمیر کی بنیاد ڈالی بلکہ علم کی تشنگی رکھنے والے لاتعدادافراد کی آماجگاہ ثابت ہوا۔
ادارے کے ابتدائی حالات بے حد سخت تھے۔ مالی وسائل کی کمی، جگہ کی تنگی، بعض افراد کی بے جا تنقید اور طرح طرح کی رکاوٹیں راستے میں آتی رہیں، مگر مولانا غلام قادر ان سب سے بے نیاز ہو کر اپنے مشن میں مصروف رہے۔ ان کا یقین تھا کہ یہ پاکیزہ کام اللہ کی مدد سے ہی آگے بڑھتا ہے اور یہی یقین ان کے حوصلے کی اصل طاقت تھا۔ جلد ہی ان کی سادگی، اصول پسندی، حق گوئی اور محنت نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ ان کی قابلیت اور علمی مقام کے اعتراف میں وقتاً فوقتاً ملک کے بڑے اداروں نے انہیں ذمہ داریاں سونپیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، سٹیٹ وقف بورڈ اور جمعیت علمائے ہند جیسے نمائندہ پلیٹ فارمز پر ان کی خدمات نے نہ صرف جامعہ بلکہ پورے خطے کی شناخت کو بلند کیا۔
وقت گزرتا گیا، مشکلات کا دور ہٹتا گیا اور ایک چھوٹا سا مکتب آہستہ آہستہ ایک مضبوط تعلیمی ادارہ بن گیا۔ آج جامعہ ضیا العلوم میں 500 سے زائد طلبہ نہ صرف دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں بلکہ انہیں قیام و طعام اور تربیت کی بہترین سہولیات بھی میسر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جامع الطیبات طالبات کی تعلیم و تربیت کا بڑا مرکز بن چکا ہے جہاں500 سے زیادہ بچیاں حفظ، ناظرہ اور درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ جامعہ کی خواتین کیلئے خصوصی انتظامات نے بہت سے ایسے گھروں تک علم کی روشنی پہنچائی ہے جہاں لڑکیوں کیلئے معیاری دینی تعلیم کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔
تعلیم کی ہمہ جہت ترقی اور بدلتے ہوئے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے جامعہ ضیاالعلوم نے عصری تعلیم کے میدان میں بھی اپنی خدمات کو وسعت دی۔سکول ایجوکیشن کے شعبے میں آج تقریبا 2000 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جہاں جدید نصاب کے ساتھ دینی بنیادوں اور اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس طرح یہ ادارہ وہ متوازن نظام فراہم کر رہا ہے جو عصر حاضر کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تنظیم المدارس کے تحت50سے زائد مکاتب پورے ضلع کے دور دراز علاقوں تک بنیادی مذہبی تعلیم پہنچا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں جامعہ نے نہ صرف درسگاہیں قائم کیں بلکہ 32مساجد کی تعمیر میں بھی نمایاں کردار ادا کیا، جو اس کے وسیع تر سماجی اثر کی علامت ہے۔
گزشتہ بیس برسوں میں جامعہ کا شعبہ نشریات بھی غیر معمولی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ماہنامہ ’فکر و نظر‘نے علمی، فکری، اصلاحی اور تحقیقی مضامین کے ذریعے پورے خطے کے ذہنی ماحول پر مثبت اثرات چھوڑے ہیں۔ یہ رسالہ بہت سے نئے لکھنے والوں کے لیے تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ مستند اہل علم کے مقالات قاری کی فکری وسعت میں اضافہ کرتے ہیں۔
جامعہ ضیاء العلوم صرف تعلیم تک محدود نہیں رہا، بلکہ سماجی خدمت میں بھی اس ادارے کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ قدرتی آفات کے دوران متاثرہ خاندانوں کی امداد، کورونا وبا کے دِنوں میں قرنطینہ مراکز کا قیام، سرحدی کشیدگی کے وقت سینکڑوں بے گھر خاندانوں کیلئے پناہ اور خوراک کا انتظام۔یہ سب اس ادارے کی انسان دوستی اور عوامی خدمت کی روشن مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا گیا اور وہ ہر مشکل گھڑی میں اسے اپنا سہارا سمجھنے لگے۔
جامعہ کے فارغین اس کی کامیابی کا سب سے روشن نشان ہیں۔ اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے لاتعداد طلبہ نے نہ صرف تدریس، خطابت، دعوت، امامت اور سماجی قیادت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئے بلکہ کچھ نے عصری میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ JKASاور UPSCجیسے امتحانات میں کامیاب ہونے والے طلبہ نے ثابت کر دیا کہ جامعہ کی فکری بنیادیں اور تربیتی ماحول انہیں زندگی کے ہر شعبے میں باوقار مقام دلا سکتا ہے۔
جامعہ کی ترقی کا یہ سفر جہاں بانی کے جذبے سے منسوب ہے، وہیں موجودہ دور میں اس مشن کو نئی سمت اور نئی توانائی دینے میں موجودہ چیئرمین مولانا سعید احمد حبیب کی خدمات بھی انتہائی قابل تحسین ہیں۔ اپنی خاندانی روایت، دینی بصیرت اور عملی وژن کے ساتھ مولانا سعیدنے ادارے کو انتظامی مضبوطی، تعمیراتی وسعت، جدید تقاضوں کے مطابق منصوبہ بندی اور شفاف مالی نظم کی نئی بنیادیں فراہم کیں۔ ان کی کوششوں سے جامعہ کے مختلف شعبوں میں توسیع ہوئی، تعلیمی معیار بہتر ہوا اور نئے منصوبے شروع ہوئے۔ وہ نہ صرف اپنے والدِبزرگوار کی میراث کے امین ہیں بلکہ ایک ایسے قائد ہیں جو مستقبل کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ادارے کو نئے اہداف کی طرف لے جا رہے ہیں۔ آج جامعہ ضیاء العلوم جس استحکام، وقار اور تنظیمی مضبوطی کا حامل ہے، اس میں ان کی محنت، بصیرت اور عملی دور اندیشی کا بڑا حصہ ہے۔
آخر میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ جامعہ ضیاء العلوم کا سفر صرف ایک ادارے کی ترقی کی کہانی نہیں، بلکہ یقین، عزم، اخلاص، قربانی اور خدمت کے اس روشن باب کا نام ہے جس نے پورے سماج کو بدل کر رکھ دیا۔ اس ادارے نے صرف طلبہ نہیںبنائے، بلکہ انسان تراشے؛ صرف مدارس نہیں بسائے بلکہ اقدار کی نئی بنیادیں کھڑی کیں اور صرف تعلیم نہیں دی بلکہ نسلوں کی فکری سمت متعین کی۔ جامعہ کے 50 سالہ سفر نے ثابت کر دیا ہے کہ جب ارادے نیک ہوں اور قیادت مخلص ہو، تو ایک معمولی سی شروعات بھی آنے والے کئی عشرے روشن کر سکتی ہے۔ یہی خواب، یہی جذبہ اور یہی مسلسل جدوجہد آج بھی اس ادارے کے ہر گوشے میں زندہ ہے اور آنے والے وقت میں بھی نسلوں کو روشنی دینے کا ذریعہ بنتی رہے گی۔