ہلال بخاری
آج صبح ایک دوست نے مسیج کی، ” تمہارے دوست اسرار کو سی بی آئی نے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا ہے۔”
اس نے مزید پوچھا تھا، ” اس پر آپکی کیا رائے ہے؟”
یہ خبر سن کر پہلے تو بے انتہا دکھ ہوا لیکن پھر ایک عجیب سی کیفیت دل و دماغ پر طاری ہونے لگی۔ یہ دکھ، خوشی، حیرت، تعجب اور افسوس کا ملا جلا ردعمل میرے ذہن کو جھنجھوڑنے لگا۔
دکھ اس بات کا کہ میرا دوست اس مصیبت کا شکار ہوا۔
خوشی اس بات پر کہ انصاف یہی ہے کہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا ملے۔
حیرت اس بات پر کہ جس کو میں اب تک ایک ایماندار اور فرض شناس شخص سمجھتا تھا وہ کیسے اس لعنت میں گرفتار ہوا!
تعجب اس بات پر کہ آیا یہ سب سچ ہی تھا یا میرے دوست کو کسی نے اس جال میں پھنسایا تھا کیونکہ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔
افسوس اس بات کا کہ اب چاہ کر بھی میں اس کی کوئی مدد کرنے سے قاصر تھا۔
میں نے دوست کی مسیج کا جواب اس طرح دیا، ” یہ واقعی دکھ کی بات ہے۔ لالچ انسان کو اسی طرح ایک نہ ایک دن ذلیل اور رسواء کرتی ہے۔ اور شاید اگر میں بھی اسرار کے پوسٹ پر ہوتا تو شاید میرا بھی یہی حال ہوتا۔ ہمارے سماج میں رشوت کی اس لعنت سے وہی محفوظ ہے جسکو یہ زہر میسر نہیں ہوتا۔ باقی سب کسی نہ کسی شکل میں اس کے شکار ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں یہ دنیا انہیں زیرک اور سیانا کہتی ہے اور جو کبھی پھنس جاتے ہیں دنیا انہیں اس قدر رسواء کرتی ہے کہ ان کے حق میں اس سے بہتر مر جانا ہی ہوتا ہے”۔
اس خبر نے میرے ذہن میں اس طرح کی تشویش اور جھنجھلاہٹ پیدا کی کہ میں نہ جانے کیوں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کاش میں نے اس کی جگہ اپنے دوست کی کسی حادثے میں اچانک مرنے کی ہی خبر سنی ہوتی۔
کم سے کم میں دکھ اور خلوص سے جاکر اس کے دیگر عزیز و اقارب کے ساتھ تعزیت میں شریک تو ہوتا۔
���
ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ، بارہمولہ ،کشمیر