ریحانہ شجر
میری پوسٹنگ شہر کے نزدیک پہاڑی کے دامن میں واقع دار العلوم کی مرکزی لائبریری میں ہو گئی۔ ان دنوں ٹرانسپورٹ کے نام پر صرف بڑی بسیں ہی چلتیں تھیں۔ بس سے اتر کر لائبریری تک پہنچنے کےلئے دو کلو میٹر کی مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔ سنا تھا دارالعوام کی لائبریری، تدریسی عمارت سے دور پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔
پہلے دن جس جگہ پر میں بس سے اتری ، وہاں سڑک کی بائیں طرف تا حد نظر کھیت کھلیان تھے۔ کھیتوں کے دہانے پر ایک ٹھاٹھیں مارتی ہوئی ندی بہہ رہی تھی ۔ جو ظاہر ہے، دھان کے کھیتوں کو سیراب کرتی ہوگی۔ لیکن اُس وقت نہر کے ٹھنڈے پانی میں بستی کے بچے ڈبکیاں لگا کر گرمی کی شدت کو کم کر کے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
دائیں جانب ایک بڑا چنار اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ براجمان ۔ اس کے پاس سے گزر کر یوں محسوس ہوتا جیسے دنیا جہاں کے سارے پرندے اسی چنار پر اپنے آشیانے سجائے بیٹھے ہوں ۔ یہاں پرندوں کے چہکنے کا اتنا شور تھا کہ اور کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ شاید اسی لیے اس چنار کے کا نام ژرِ بُؤن (چڑیوں کا چنار) پڑا تھا۔ کچھ دور آگے چل کر ذرعی دارالعوام کا صدر دروازہ تھا۔ اندر جاکر کئی ایکڑ اراضی پر مختلف قسم کے میوہ باغات تھے جہاں کئی خانہ بدوش کنبے جھگیوں میں رہ کر میوہ باغات کی دیکھ ریکھ کر رہے تھے۔ ان کی عورتیں مٹی کے چولہوں میں لکڑیاں جلا کر روٹیاں سیک رہیں تھیں۔ دائرے میں بیٹھے مرد حضرات کے سامنے حقے تھے ان میں سے کئی چلوں میں تمباکو بھر رہے تھے تو کئی حقوں کی نے ہونٹوں میں دبائے لمبے کش لگاتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ان کے میلے کچیلے اور ننگے منگے بچے سبز گھاس کے مخملی فرش پر قلابازیاں مار رہے تھے۔ آگے چل کر دائیں بائیں کئی راستے دکھائی دے رہے تھے۔ مجھے کس طرف جانا تھا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ایسا کوئی بندہ نظر بھی نہیں آرہا تھا جسے لائبریری کا راستہ پوچھا جائے۔ دائیں بائیں تختہ رہنمائی لگے تھے لیکن کوئی سائن بورڈ ایسا نہیں تھا جو لائبریری کی طرف اشارہ کرتا ہو۔
یکایک میری نظر ایک لڑکی پر پڑی، دبلی پتلی سی ایک دم چھڑی کے موافق ۔ الجھے ہوئے خشک بال پرندوں کا گھونسلہ لگ رہے تھے بے ترتیب لباس، کاجل سے بھری موٹی موٹی آنکھیں۔ گالوں کے نام پر چہرے پر خالی جلد ہی باقی تھی۔ ان خوبصورت سبزہ زاروں کی آغوش میں صرف اس کا وجود بھری جوانی میں خزاں کی تصویر بنا پھر رہا تھا۔ ہاتھوں میں بڑی سی رجسٹر لئے چل رہی تھی۔ میں نے نزدیک جاکے سلام کیا۔ اس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے وہ دنیا سے بیزار تھی ۔ سلام کا جواب اپنے چھوٹے سے سر کو ہلا کر دیا ۔ میں پوچھا، “مرکزی لائبریری کس طرف ہے”۔اس نے مخالف سمت منہ موڑ کر کہا، “میرے ساتھ چلو”۔ اس کا رویہ کچھ عجیب لگا مگر مجبوری تھی اس لئے اس کے پیچھے ہو لی۔میں نے کئی باتیں کیں، پر کیا مجال وہ اپنے ہونٹوں کو ذرا سی بھی حرکت دے۔ اس کی خاموشی دیکھ کر میں نے بھی اپنی توانائی ضائع کرنے سے گریز کیا اور خاموشی سے آگے چلی۔
تیز قدم اٹھا کر پتلی لڑکی اور میں پہاڑی کے دامن پر پہنچ گئیں، جہاں اردگرد منصوبہ بند طرز پر سبزیوں کے ہرے بھرے کھیت تھے۔جن کے دہانے پر سبزیوں کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئی تھیں اور پہاڑی کی دونوں جانب مختلف پھلوں کے درخت اپنی ٹہنیوں پر سیب، ناشپاتی، بادام اور اخروٹ سجائے کھڑے، ہر آنے جانے والے کا والہانہ استقبال کررہے تھے۔
پہاڑی کی چوٹی پر واقع لائبریری کے دروازے پر پہنچ کر وہ نہ جانے کدھر گئی۔ میں لائبریری کے اندر داخل ہوئی۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا ایک خوبصورت گیسٹ ہاؤس ہے جس کی دیواریں کانچ کی بنی ہیں اور شائد کسی مجبوری کی وجہ سے اس خوبصورت عمارت کو لائبریری میں تبدیل کیا گیا تھا۔ پہاڑی پر چڑھتے ہوئے میرے پیر دُکھ چکے تھے۔جلدی سے میں جاکر کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔ ابھی تک میں نے دم بھی نہیں سنبھالا تھاکہ کوئی لڑکی بڑبڑاتے ہوئے ہال میں کچھ اس طرح داخل ہوئی جیسے اس کو کسی نے پیچھے سے دھکیل دیا ہو۔ غور سے دیکھا ، ہاں ! یہ تو وہی پتلی لڑکی تھی جس کے ساتھ میں یہاں تک پہنچ گئی تھی۔
آتے ہی پتہ نہیں وہ کیوں لائبریری کے فرنیچر کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔آس پاس کے ماحول سے بے خبر ایک دو تین چار کرکے فرنیچر گنتی رہی۔ شاید اس نے مجھے اگنور کیا یا پھر وہ اپنے آپ میں مگن تھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔پر یہاں پر اس کی حالت دیکھ کر مجھے یقین ہو چلا کہ یہ لڑکی کسی پریشانی کی وجہ سے حواس باختہ ہو گئی ہے۔
دوسرے دن سے میں نے اپنا منصب سنبھالا اور بیٹھی کام کر رہی تھی۔ وہ آگئی اور سامنے لگے ایک ٹیبل پر اپنا بیگ رکھ کر کاغذات الٹ پلٹ کرکے کرسی پر بیٹھ گئی ۔ نظریں اوپر اٹھا کر اس نے میری جانب دیکھا۔ہیلو ہائے یا تعارف کئے بغیر پوچھنے لگی ’آپ ہی نئی لڑکی ہو‘۔ میں نے سر ہلا کر ’ہاں‘ کہا۔ اس وقت پتہ چلا کہ مجھے اسی لڑکی کے ساتھ بیٹھنا ہے جو ابھی تک میری سمجھ سے باہر تھی۔
اس کے بعد وہ روز ہی ہاتھ میں کاغذ کا بہی کھاتہ لے کے اپنی پتلی پتلی اور گھسی ہوئی انگلیوں سے کہیں ٹک تو کہیں کراس کے نشان ڈالتی، کبھی ماتھا پیٹ کر پسینے پونچھ لیتی۔ ایک دو تین چار پانچ چھ سات آٹھ نو دس، گیارہ ، بارہ، پندرہ ، انیس بیس گنتی رہتی۔ پھر روہانسی صورت بنا کے ایک دم سے چلا کر آفس بوائے شمیم کو بلا کر کہتی، ارے شمیم اب کیا ہوگا، تیرہ، چودہ نمبر والے ٹیبل، سولہ سترہ اور اٹھارہ نمبر والی کرسیاں غائب ہیں۔
شمیم آکے ٹیبل اور کرسیوں کی نشاندہی کرکے کہتا، بملا میڈم یہ جو سامنے ہیں اور واپس چلا جاتا ۔اس طرح مجھے پتہ چلا اس کا نام بملا ہے۔
….. “آڈٹ رپورٹ تیار کر رہی ہوں کوئی بھی غلطی اپنی طرف سے نہیں ہونی چاہیے”. ….. اپنے ساتھ بڑبڑاتے ہوئے کہتی۔
بملا اپنے کام میں ماہر تھی۔ واقعی جب آڈٹ ٹیم جائزہ لینے آگئی، اُن کے سامنے ہر ایک آئٹم کی فہرست، مکمل ریکارڈ، اگلے آنے والے تین سالوں کی ضروریات اور تجاویز سامنے رکھ کر اُنہیں متاثر کردیا۔ کیونکہ جہاں آڈِٹ ہفتوں اور مہینوں میں بھی مکمل نہیں ہوتا، وہاں بملا نے صرف چند گھنٹوں میں ٹیم کو کچھ کھلائے پلائے بغیر مطمئن کرکے واپس بھیج دیا۔
وہ کافی وقت فرنیچر کی گنتی کرنے میں گزار دیتی۔ اس کے بعد ہاتھ میں چائے کی پیالی لے کے وہ اپنی کرسی پر بیٹھ جاتی۔چائے پیتے ہوئے وہ بسکٹ اور روٹی کے نکے نکے ٹکڑے بائیں جانب کھڑکی پر بیٹھے پرندوں کے لئے رکھ دیتی۔ کوا اس کو بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ کوئے کو ہمیشہ دھتکارتی رہتی۔لیکن ہزار بار دھتکارنے کے بعد بھی کوا اس کھڑکی پر آہی جاتا اور جب تک بملا اس کو روٹی نہ ڈال دیتی وہ اسی کھڑکی پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرتا رہتا۔ بملا دن میں کسی بھی وقت اچانک پتلی سی ناک اوپر اٹھا کر خود کلامی کرتے ہوئے کہتی ، ’مجھے بھوک لگ گئی‘۔اور اپنا بیگ اٹھا کے اس میں سے مٹھی بھر سوکھے پھل نکال کر اک دم سے منہ میں ٹھونس کے تُرک ترک کرکے کھا جاتی۔ سامنے بیٹھے کسی بھی بندے کے ساتھ ایک دانہ بھی نہیں بانٹتی۔میں سوچنے لگتی یہ بیگ ہے یا پنساری کی دکان ہے۔ اس میں آئینہ بھی ہے اور میک اپ بھی۔اس کو جس چیز کی ضرورت پڑتی وہ اس بیگ میں ہاتھ ڈال کے وہی مخصوص چیز پکڑ کے نکال لیتی جس کی اس کو ضرورت ہوتی ۔
ہفتے میں کم از کم ایک بار آفس بوائے شمیم ہڑ بڑی میں آکے اس کو بلاتا اور بملا جلدی سے اپنے بیگ سے آئینہ اور کنگھا نکال کر بال سنوارتی ، لپ اسٹک نکال کر ہونٹوں پر لگاتی اور بعد میں وہ بھی شمیم کے ساتھ باہر کہیں جاتی اور کچھ دیر بعد واپس آجاتی۔
اس کی ناک پر یوں ہی ہمیشہ غصہ رہتا تھا۔ اکثر کسی نہ کسی سے الجھ جاتی۔ اس لئے مجھے بملا کے ساتھ گھل مل جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ البتہ میں ہمیشہ اس کی طرف مسکرا کر دیکھا کرتی تھی۔ جانے مجھے کیوں وہ اچھی لگتی تھی۔ شاید اس کی سادگی اور معصومیت کی وجہ سے۔ البتہ میں یہ نہیں سمجھ پاتی تھی آخر بملا آفس بوائے کے ساتھ کدھر جاتی ہے۔
جب بھی ہیڈ آف ڈویژن باہر ہوتے وہ اس کے کمرے میں جاکر جلدی فون کے اردگرد گھومتی رہتی دائیں بائیں دیکھ کر نمبر ڈائل کرتی پھر باتیں کرتی رہتی۔کئی بار میں نے اس کی فون پر ہوتی گفتگو سننے کی کوشش کی۔ لیکن وہ تو ہونٹ دبا کے یوں بات کرتی اگلے بندے کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں لگنے دیتی وہ کیا باتیں کر رہی تھی۔لیکن اس دن میں نے کوشش کرکے فون پر اس کی گفتگو سن لی۔
وہ کہہ رہی تھی، “راجو غور سے سن، کھانا اچھے سے کھا لینا۔ گوشت کا ایک حصہ بھیا کے لیے بھی رکھنا”،
ارے نہیں ، نہیں! تمہارے جوتے پالش کرکے میں نے الماری کے پیچھے رکھے ہیں۔ بھیا کی شرٹ نہیں پہننا۔تمہاری کپڑے ائرن کئے ہوئے ہیں وہی پہن لینا۔بھیا کو کل کسی کام سے دلی جانا ہے ۔ میں نے اس کا سامان ، کپڑے وغیرہ الگ رکھے ہیں اسلئے اس کی کسی چیز کے ساتھ چھیڑنا مت۔ پلیز۔ ہاں ایک اور بات، اما جی کے شراد کےلئے ضروری سامان لا کے رکھنا”، بھولنا مت”،
فون پر اس کی باتیں سن کر میں مایوس ہوگئی۔یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بات کررہی تھی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ بن ماں کی بیٹی ہے۔گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود اس کو وقت اور حالات نے تین بڑے لوگوں کی اماں بنا دیا تھا۔
اس دن سے مجھے اس کے ساتھ زیادہ ہمدردی ہوگئی۔ لیکن یہ ایک اٹل حقیقت تھی کہ وہ کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتی تھیں۔
ایک دن مجبوری آن پڑی، میں نے بملا سے پوچھا ، بملا جی! آپ کہاں گئی تھیْ؟
…میرا یہ جملہ کہنے کی دیر تھی کہ وہ غصے سے بے قابو ہوگئی۔
کہنے لگی، “تم کون ہوتی پوچھنے والی، میں کہاں گئی تھی۔خود کو طرم خان سمجھنے لگی ہو۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوگئے آئیے ہوئے تم نے لوگوں کو جج کرنا شروع کردیا۔ میں اس پورے دفتر میں صرف تم سے بات کرتی ہوں لیکن تم نے بھی باقی لڑکیوں کی طرح …. !”، بات ادھوری چھوڑ کر وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
میں اپنے آپ کو کوسنے لگی ، یہ کونسی شامت کی گھڑی تھی جب میں اس سے پوچھ بیٹھی، “آپ کہاں گئی تھیں” میں نے جلدی بھانپ لیا کہ لائبریری کے ریڈنگ روم سے لوگ بملا کی آواز سن کر باہر آرہے ہیں۔ آفس میں تماشا نہ ہو،
میں نے بملا سے معافی مانگ لی۔ وہ سر نیچے کرکے کرسی پر بیٹھ گئی ۔
…. بملا ! ، میں نے تھوڑی دیر بعد ہلکی سی آواز میں اسے بلایا…..
….اس نے اپنے روکھے انداز میں جواب دیا ” کیا بات ہے۔”…..
میں نے کہا، بملا جی آپ کو سر نے ابھی تک تین بار بلایا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ میں ہی آپ کا کام کروں مگر وہ آپ ہی کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ میں نے سر کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بملا جی کو بینک والوں نے بلایا تھا۔ میں نے اسی لئے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کہاں گئی تھیں۔یہ پوچھ کر اگر میں نے غلط کیا تو میں ایک بار پھر سے معافی چاہتی ہوں۔
……وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی۔وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی، اس سے پہلے وہ کچھ کہتی اس کو پھر سے سر نے بلایا۔
…..چند مہینوں بعد میں ایک ٹرینگ کورس اٹینڈ کرنے کےلئے ریاست سے باہر گئی۔
اس کے بعد میں آج سے باقاعدہ ڈیوٹی اٹینڈ کرنے آئی ۔ لائبریری کے باہر سے ہی میں بملا کو غور سے دیکھنے لگی ۔میں نے بملا میں جیسے تبدیلی پائی۔کچھ دیر تک مجھے لگا کہ شاید میں نے اس کو مہینوں بعد دیکھا ۔ لیکن نہیں ایسا نہیں تھا ، واقعی وہ بدلی بدلی سی دکھائی دیتی تھی ۔اس نے ہلکے گلابی رنگ کا خوبصورت مناسب لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کے بالوں کی تراش خراش، ناخن، ہونٹوں پر میچنگ لپ اسٹک، بھنویں چہرے کی دلکشی دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ضرور پارلر سے خود کو سنوار کے آئی ہے۔ جمعہ کا دن تھا اور باقی لوگ نماز ادا کرنے گئے تھے۔ آفس میں کسی کو نہ پاکر وہ آج بھی فون پر باتیں کر رہی تھی۔
بس بابو جی بہت ہوگیا، بتیس تک تعداد پہنچ گئی، اور کتنے لوگوں کے سامنے مجھے اپنی نمائش کرنی ہوگی۔کسی کو میری چال پسند نہیں ، کسی کو میرے بال پسند نہیں۔ ایک ایشور کے سوا میری تکلیف کا اندازہ کسی کو بھی نہیں۔
۔۔۔جب سے اماں جی نے سپنے میں آکے میرے بال سنوار کر کہا،” بملا تمہاری وجہ سے میری آتما بے چین ہے۔ کیونکہ تم ہمیشہ پریشان حال رہتی ہو اور مجھے یاد کرکے روتی رہتی ہو۔تم سب کا خیال رکھتی ہو اپنا کیوں نہیں،” خوش رہا کرو، تمہارے رونے کی وجہ سے مجھے یہاں کئی اذیتوں کو جھیلنا پڑتا ہے”۔
۔۔۔”میں نے کبھی سوچا ہی نہیں اماں جی کی آتما میرے رونے اور اداس رہنے سے بےچین رہتی ہے۔
۔۔۔پاپا جی تب سے میں خوش رہنے کی کوشش کرتی ہوں، . ۔۔۔
….”مجھے بس شانتی چاہیے میں آج واپسی پر ہنومان مندر جاری رہی ہوں۔ آنے میں دیر ہوگی۔نہیں پاپا جی اس کی ضرورت نہیں ہے۔جب آپ کو وہ پسند نہیں تو مجھے بھی نہیں”۔
یہ کہتے ہوئے کُرکُرا سرمہ ٹپ ٹپ کرکےاس کی آنکھوں سے گالوں پر گر گیا ۔
میں دبے قدموں چلتے ہوئے اپنی جگہ بیٹھ گئی۔ جب وہ فون کرکے واپس آئی۔مجھے دیکھ وہ بہت خوش ہوکر پوچھنے لگی تم کب آئی۔ تمہارا ٹریننگ پروگرام کیسا رہا؟
خلاف توقع دوڈ کر میرے پاس آکے مجھے گلے لگایا ۔آج وہ زندگی سے بھرپور لگ تھی۔ میں نے کہا، برا مت ماننا، آج تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ دے کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔
چائے پیتے ہوئے آج اس نے سارے پرندوں کو بھگا دیا لیکن کوا اپنی جگہ پر کائیں کائیں کرتا رہا وہ نہیں بھاگا۔ بملا خاموشی سے سامنے کوے کو بھگا کر نکال رہی تھی اور اسی عالم میں کھڑکی بے دردی سے بند کرنے لگی۔میں نے جلدی پاس جاکر اسے روک کر کہا ، ’ بملا! کوے کو مت جانے دو‘۔
اس کے کہا چھوڑ دو شبنم اس کو جانا پڑے گا پاپا جی کو دیپک پسند نہیں ہے کیونکہ وہ کوا جیسا کالا ہے۔بملا کے منہ سے بے تحاشا یہ الفاظ نکل گئے اس کے دل سے دبی ہوئی خاموشی کا سیلاب آج ساری بندشیں توڑ کر پھوٹ پڑا۔میں حیران و پریشان اس کے چہرے کو تکتی رہی۔
اسی اثنا میں شمیم نے دستک دے کر دروازے کی طرف اشارہ کیا وہاں بملا کے پاپا اور ایک کالی رنگت کا جوان اس کی طرف مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔
���
وزیر باغ، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9419553094