! ایک تھپڑ اور کئی اموات؟ | انصاف کے ترازو میں صرف انصاف تولاجائے

Towseef
9 Min Read

فہم و فراست

ایم شفیع میر

کہتے ہیں درد بانٹنے سے کم ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھار کچھ زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی ایک انسان کو نہیں بلکہ پوری قوم کے ضمیر کو زخمی کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ حالیہ دنوں میں صدر ہسپتال سرینگر میں پیش آیا، جس نے پوری کشمیری عوام کے ضمیر کو جھنجوڑنے کا کام کیاـ۔

ایک ایسا واقعہ جو صرف ایک تھپڑ سے شروع ہوا، لیکن اُس کے بعد کئی زندگیاں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں۔ کچھ آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں، کچھ دل ہمیشہ کے لیے مجروح ہوگئے اور کچھ سوالات ہمیشہ کے لیے زندہ رہ گئے۔

یہ سب کچھ اُس لمحے شروع ہوا، جب ایک بے بس تیمادار نے اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے ہوئے، سسکیاں لیتے ہوئے، علاج کی آس میں مریض کو مرتے دیکھا۔ اُس کی فریاد، اُس کی چیخیں، اُس کی منتیں کسی ڈاکٹر کے دل پر اثر نہ کر سکیں، کوئی بھی طبیب اُس مریض کی حالت پر اپنی مسیحائی کوجھنجھوڑ نہ سکا ۔ تیمادار نے جب دیکھا کہ اُس کا پیارا زندگی کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے اور ڈاکٹرز اپنی دنیا میں مگن ہیں، تو غصے، بے بسی اور دکھ کے ملے جلے طوفان نے اُسے تھپڑ مارنے پر مجبور کر دیا۔

جی ہاں! اُس نے ایک تھپڑ مارا۔ ایک تھپڑ جو شاید اُس کی طرف سے احتجاج تھا، پکار تھی یا ایک صدمے کا ردعمل۔مگر اُس ایک تھپڑ کے جواب میں کیا ہوا؟ ہسپتال کے در و دیوار گویا خاموش تماشائی بن گئے۔ مسیحائی جیسے دنیا سے کوچ کر گئی، طبیب مریضوں کیلئے رقیب بن گئے ـ ،ڈاکٹروں نے انسانی اور اخلاقی فرض کو نظر انداز کر کے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ہسپتال میں سناٹا چھا گیا، لیکن اس سناٹے میں موت کا شور گونجنے لگا۔ ایمرجنسی بند، او پی ڈی بند، مریض دوا کے محتاج بنے رہے اور ڈاکٹرز کام چھوڑ ہرتال پر جا کر انتقام لینے پر بضد رہے ـ۔ہسپتال کی صورتحال اب ایسی دردناک ہوچکی تھی کہ گویا اب طبیب ہی مریضوں کیلئے موت کا فرشتہ بن کر سامنے کھڑے تھے ـ ۔طبیوں کی اِس انا پرستی کے باعث ایک باپ اپنے بیمار بچے کو گود میں لیے کہاں کہاں نہ بھٹکتا رہا، لیکن ڈاکٹروں نے مسیحائی کا لباس اُتار پھینک کر ہر مریض سے تھپڑ کا انتقام لینے کی قسم کھا رکھی تھی ۔ـ

ہائے افسوس! نہ کسی نے بچہ دیکھا، نہ اُس کی حالت پوچھی اور پھر وہ ننھی سی جان بھی موت کی آغوش میں چلی گئی، اُس ایک تھپڑ کا انتقام اُس معصوم سے لے لیا گیا جس کا کوئی قصور نہیں تھا۔

یاد رہے یہ واقعہ صرف ایک ہسپتال یا ایک شہر کا نہیں، بلکہ ہمارے پورے نظامِ صحت، ہماری اجتماعی بے حسی اور انسانیت کی زوال پذیری کا عکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف تیمادار کا قصور تھا؟ کیا ایک تھپڑ کسی کی جان لینے کے مترادف ہو سکتا ہے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہڑتال کے دوران ڈاکٹروں کی غیر موجودگی کئی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی؟کیا وہ ڈاکٹر جو ایمرجنسی جیسے حساس شعبے میں اپنی ذمہ داری سے منہ موڑتے ہیں، صرف اس لیے کہ اُن کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے، اُنہیں کسی انسانی قانون یا اخلاقی ضابطے کا پابند نہیں ہونا چاہیے؟ اگر ایک تھپڑ پر قانون حرکت میں آتا ہے تو اُن کئی اموات پر کیوں نہیں، جن کا براہِ راست سبب وہ ہڑتال بنی؟ کیا ایک تھپڑ انسانی جانوں کے موازنے میں زیادہ اہم ہے؟

یہ سچ ہےکہ طبی عملے پر ہاتھ اُٹھانا قابل مذمت ہے۔ ڈاکٹرز ہمارے مسیحا ہیں اور اُن کی عزت ہم سب پر فرض ہے۔ لیکن مسیحا وہی ہوتا ہے جو ہر حال میں اپنی خدمت کو عبادت سمجھے، جو غصے میں آ کر موت کی دہلیز پر کھڑے مریض کو نظر انداز نہ کرے، جو قسم کھا چکا ہو کہ ہر جان قیمتی ہے، ہر زندگی اُس کی ترجیح ہے۔

مگر افسوس کہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ایک تھپڑ پر تو سارا نظام چیخ پڑتا ہے، مگر مریضوں کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں۔ جہاں صحافی حقیقت دکھانے جائیں تو اُن پر غصہ اتارا جاتا ہے۔ جہاں درد کو خبر بنانے کی بجائے شرمندگی سے چھپایا جاتا ہے۔

یہ واقعہ صرف ایک احتجاج نہیں، یہ ہم سب کے ضمیر کا امتحان ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایک تھپڑ کے بدلے کئی جانیں جانا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ صرف ایک تھپڑ نہیں تھا، یہ نظام کی خامی کا ایک زوردار طمانچہ تھا، یہ ہماری لیڈرشپ کے منہ پر بھی ایک زناٹے دار طمانچہ تھا جنہیں ابھی بھی یہ احساس نہیں ہو رہا ہے کہ ہم کن کن طریقوں اور حربوں سے ستائے جا رہے ہیں ـ۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے، تو آنے والے وقت میں شاید تھپڑ کم اور لاشیں زیادہ نظر آئیں۔

آئیے سوچیں، محسوس کریں اور کچھ ایسا کریں کہ کل کوئی اور باپ اپنے بچے کو گود میں لیے تڑپتا ہوا نہ دکھائی دے۔ انصاف صرف سزا دینے کا نام نہیں، بلکہ انصاف وہ ہے جو ہر درد کو سن سکے، ہر جان کو بچا سکے اور ہر ہاتھ کو تھپڑ مارنے سے پہلے روک سکے۔ڈاکٹروں کو اپنے رویے میں نرمی لانی ہوگی، مسیحائی کو داغدار ہونے سے بچانے کے جتن کرنے ہونگے۔ ـ

جہاں تک معاملے سے متعلق تحقیقات کا مسئلہ ہے تو یقیناً یہ بات ناانصافی کی علامت ہے کہ حکومت یا متعلقہ ادارے کسی واقعے کے صرف ایک پہلو کو دیکھ کر فیصلہ کریں اور دوسری اہم کڑی کو نظر انداز کر دیں۔ تھپڑ مارنا بظاہر ایک غلط عمل ہے، لیکن اگر اس کے پیچھے موجود محرکات کو سمجھے بغیر صرف تھپڑمارنے والے کے خلاف کارروائی کی جائے تو یہ انصاف نہیں بلکہ یکطرفہ جبر ہوگا۔ ہر ردعمل کی ایک وجہ ہوتی ہے اور اگر وہ وجہ ایک غیر ذمہ دار، غیر حساس اور لاپرواہ طبی عملہ ہو، جس نے کسی مریض یا لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کے درد کو مزید بڑھایا ہو، تو اسے بھی برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ وہ عملہ جو انسانی جانوں سے جڑے حساس معاملات میں بھی اپنی فرض شناسی سے غافل رہے، اُسے سزا دینا صرف انصاف کا تقاضا ہی نہیں بلکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ معاشرے میں اگر ہم انصاف کو صرف طاقتور کے ہاتھ میں دے دیں اور محروم و مجبور کے جذبات، تکلیف اور ردعمل کو جرم کے ترازو میں تولیں، تو پھر عدل و مساوات صرف کتابوں کی باتیں بن کر رہ جائیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ انصاف مکمل ہو، ہر پہلو کو سنا جائے اور ہر غلطی کا حساب ہو ،تاکہ نہ صرف عدل قائم ہو بلکہ دلوں کے زخم بھی کچھ حد تک بھر سکیں۔

رابطہ۔9797110175
[email protected]

Share This Article