دو اکتوبر کا دن تھا ۔عالمی سطح کی شہرت رکھنے والے چند معتبر صحافیوں میں سے ایک جمال خاشقجی استنبول میں سعودی عرب کے سفارتخانے کے اندر گئے ۔ سفارت خانے کے باہر انہوں نے اپنی منگیتر کو انتظار کرنے کیلئے کہا ۔سفارتخانے کے گیٹ پر نظریں جمائے وہ کافی دیر تک انتظار کرتی رہی پھر اسے اپنے ہونے والے شوہر کی وہ بات یاد آئی جو اس نے سفارت خانے کے اندر جاتے ہوئے اس سے کہی تھی ۔اس نے کہا تھا کہ اگر میں دیر تک نہیں لوٹا تو ترکی کے صدر اردگان کے ایک معاون کو فون کرنا ۔ اس نے فوراً فون کیا ۔شام بھی ہوگئی اور رات کا ااندھیرا بھی چھاگیا مگر جما ل نہیں لوٹا ۔دوسرے روز جمال کی گمشدگی کی خبر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی ۔امریکی صدر ٹرمپ نے جمال کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا لیکن ترکی کے صدر رجب اردگان نے یہ کہہ کر دنیا کو حیرتوں میں ڈال دیا کہ اسے قتل کردیا گیا ہے ۔سعودی عرب نے فوری طور صدر اردگان کے اس دعویٰ کی تردید کردی کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی سفارت خانے کے اندر قتل کردیا گیا ہے بلکہ یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ سفارت خانے میں جانے کے بعد وہاں سے نکل بھی گئے لیکن ترکی کے صدر نے کئی ثبوت و شواہد پیش کرنے کا دعوی کیا ۔اس کے بعد ترک صدر نے سفارتی اور سیاسی دانشمندی کا اعلیٰ ثبوت پیش کرتے ہوئے ایک ایک کرکے وقت اور حالات کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے چند ثبوت پیش کرنے شروع کردئیے ۔اس دوران قتل کے رونگھٹے کھڑے کردینے والی جو باتیں منظر عام پر آئیں انہوں نے پوری دنیا میں ایک طوفان بپا کردیا اور سعودی عرب پر ایسا دباو پڑا کہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ قبول کرلے کہ سعودی سفارت خانے میں ہی جمال خاشقجی کا قتل ہوا ہے لیکن اس نے اس بات سے سراسر انکار کردیا کہ اس میں سعودی عرب کے موجودہ حکمراں ٹولے کا کوئی ہاتھ ہے ۔سعودی حکمرانوں کے سب سے بااعتبار دوست امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی حکومت کے اس موقف کو قابل اعتبار بتایا کہ یہ قتل سفارت خانے میں بحث و تکرار کے بعد ہوا جس میں نہ سعودی سفارت خانے کے حکام اوراہلکاروں کا کوئی ہاتھ تھا نہ اس میں سعودی حکمرانوں کی کوئی سازش تھی بلکہ یہ کچھ بدمعاشوں کی کارستانی ہوسکتی ہے جنہوں نے سفارت خانے کا استعمال کیا لیکن اس کے بعد سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ ڈونالڈ ٹرمپ پر بھی اندرونی اور بیرونی دباو بڑھتا چلا گیا ۔سعودی شاہی نظام میں اتھل پتھل مچ گئی ہے ۔ سعودی اختیار و اقتدار پر حال ہی میں سعودی شاہزادوں اور اپنے مخالفوں کو زیر کرکے پورا کنٹرول حاصل کرنے والے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے معتمد خاص گورنر مکہ پرنس خالد الفیصل کو ترکی روانہ کیا تاکہ صورتحال کو سنبھال سکیں ۔خالد الفیصل ترکی کے صدر کے دوست سمجھے جاتے ہیں لیکن جب ترک صدر نے انہیں آڈیو ریکارڈنگ سنادی تو وہ سکتے میں آگئے اور واپسی پر انہوں نے محمد بن سلمان سے کہا کہ معاملہ کس قدر سنگین ہے ۔اب دنیا کو اس بات پر مکمل یقین ہوچکا ہے کہ جمال خاشقجی کو سفارت خانے کے اندر زندہ یا مردہ ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ہے ۔ جب ان کی انگلی کاٹی گئی وہ زندہ تھے اور ان کی چیخیں ریکارڈ ہوچکی ہیں ۔اور اب یہ انکشاف بھی ہوچکا ہے کہ اس صحافی کی لاش استنبول میں سعودی قونصل جنرل کے گھر سے برآمد ہوچکی ہے جس کا چہرہ مسخ کیا گیا ہے اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں ۔اس طرح یہ جدید دنیا کا پہلا ایسا واقعہ بن گیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔جمال ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت مخالفوں میں شمار ہوتے تھے اور وہ نظام میں تبدیلی کے خواہاں بھی تھے ۔ وہ سعودی حکمرانوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے جس کی بناء پر انہیں کئی میڈیا اداروں سے نکال باہر بھی کیا گیا ۔ اب وہ امریکہ میں تھے اور واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھا کرتے تھے ۔اس اخبار نے تازہ اشاعت میں ان کا کالم خالی رکھا تھا جس پر ایک جملہ لکھا تھا کہ ’’ آواز خاموش ہے‘‘ ترکی میں ایک عورت سے ان کی دوستی تھی جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتے تھے اور شادی کرکے ترکی میں ہی مستقل سکونت اختیار کرنے کی ٹھان چکے تھے جہاں سے وہ ایک ٹی وی چینل لانچ کرنے کی تیاری بھی کررہے تھے ۔شادی کے کاغذات لیکر وہ سعودی سفارت خانے گئے تھے لیکن وہاں سے باہر نہیں نکل پائے ۔ جمال کے سفارت خانے میں جانے سے پہلے جو لوگ سفارت خانے کے اندر گئے تھے ان میں ولی عہد کا ایک قریبی بھی شامل تھا اس لئے ولی عہد بری طرح سے پھنس چکے ہیںاور ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی انہیں بچانے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔ سعودی عرب کوجمال خاشقجی کے قتل کے بعد جو سب سے بڑا جھٹکا لگا وہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس کی بْری طرح ناکامی ہے اس کانفرنس میں بہت سے ملکوں نے شامل ہونے سے معذرت ظاہر کی ۔ دنیا کے بڑے سرمایہ کار اب سعودی عرب اور خصوصا محمد بن سلمان کے ساتھ معاملات سے گھبرا رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں محمد بن سلمان ایک راک اسٹار تھے جن کے ساتھ دنیا کا ہر سرمایہ کار ایک تصویر لینے کو بے چین تھا۔ لیکن اس بار بہت سی کمپنیاں بائیکاٹ کرچکی ہیں اور جو شریک ہو رہی ہیں انہیں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ محمد بن سلمان کے ساتھ کسی کی تصویر شائع نہ ہونے پائے ورنہ ان کے لیے یورپ میں مشکلات ہوں گی۔اس بحران سے نکلنے کیلئے سعودی شاہی خانوادہ محمد بن سلمان کے متبادل پر بھی سوچ رہا ہے ۔سعودی عرب کے شاہ سلمان جواقتدا ر سے الگ ہوکر ولی عہد کو تمام اختیار دے چکے تھیمجبور ہوچکے ہیں کہ وہ ولی عہد کو اس بحران سے بچانے کیلئے پھر حکومت کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں ۔اس سے پہلے محمد بن سلمان کی صورت میں مغرب کو ایک ایسا لیڈر نظر آیا جو قدامت پسند ریاست کی پالیسیوں کو یکسر بدل کر مشرق وسطیٰ میں ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ تو جیسے محمد بن سلمان کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرر ہے تھے ۔سعودی عرب کی سیاسی ، اقتصادی ، تہذیبی اور نظریاتی قدروں کو جس انداز سے وہ الٹ پلٹ کررہے تھے اس سے جزیرۃ العرب ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا بھی حیرت اور تشویش میں مبتلا تھی ۔ولی عہدمحمد بن سلمان ایران کو اسرائیل سے بڑا دشمن قرار دے چکے تھے ۔یمن میں جنگ کا آغاز، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خواتین کارکنوں کی گرفتاری ۔ سعودی شاہزاروں کی برطرفیاں اورنظربندیاں ۔اپنے ہر مخالف کو نیست و نابود کرنا سرکش شہزادے کا پسندیدہ کھیل تھا لیکن ایک صحافی کے قتل نے اس کا مستقبل ہی برباد کرکے رکھ دیا ۔اس نئی صورتحال میں کئی بڑی عالمی اور علاقائی تبدیلیوں کے امکانات موجود ہیں ۔اس کا پہلا فایدہ ایران کو پہونچا جسے امریکہ سارے فسادوں اورمسائل کی جڑ قرار دے چکا تھا ۔اس سے توجہ ہٹ کر سعودی عرب پر مرکوز ہوگئی ہے لیکن اس معاملے کا ایک اور پہلوبھی ہے جو زیادہ تشویشناک ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کو اس نئی صورتحال میں اپنے احداف پورے کرنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آچکا ہے ۔سعودی عرب کے ساتھ 110ارب ڈالر کے دفاعی سودے جس سے امریکہ میں پانچ لاکھ ملازمتیں فراہم ہوں گی پر ابھی دستخط نہیں ہوئے ہیں ۔امریکہ کو اس سودے کی بہت سخت ضرورت ہے ۔ترکی کے ساتھ اس کے اختلافات گہرے ہوچکے ہیں اور اس کے لئے اسے سعود ی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے ۔ ایران کو روکنے کیلئے بھی سعودی عرب ہی اس کا اہم مہرہ ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسرائیل کی توسیع پسندی میں حائل رکاوٹوں کیلئے بھی سعودی عرب ہی اس کا سہارا ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ کا داماد ولی عہد محمد بن سلمان کا جگری دوست ہے جو مشرق وسطیٰ کے ایک حل پر کام کررہا ہے جس میں اسے سعودی عرب کی مکمل تائید حاصل ہے ۔ چنانچہ امریکی صدر جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب پر دباو ڈال کر ان تمام احداف کو آسانی سے پورا کرنے کی ٹھان چکا ہے ۔سی آئی اے کے ساتھ وابستہ رہنے والے مشرق وسطیٰ کے ماہر بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ محمد بن سلمان کے ساتھ قطع تعلق ہرگز نہیں کرے گی۔ امریکا شاہی خاندان میں پائی جانے والی بے چینی سے آگاہ ہے۔ امریکی صدر کو محمد بن سلمان کے بارے میں شکوک ہوسکتے ہیں اور وہ اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ سعودی عرب پر جتنا زیادہ دباو پڑے گا اتنا ہی اسے امریکی مدد کی ضرورت ہوگی اور سعودی عرب کو امریکی مدد کی جتنی زیادہ ضرورت ہوگی اتنا ہی امریکہ کو اپنے احداف پورے کرنے میں آسانی ہوگی ۔ بہر حال جو بھی ہوگا سعودی عرب کے شاہی خاندان کو اپنی زبردست قوت اوردبدبے کے باجود مخالفتوں اور مشکلوں سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ عرب عوام کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بھی مخالف لہر پیدا ہوسکتی ہے ۔ کچھ تجزبہ نگار تو یہاں تک بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اب سعودی عرب کو بھی عراق بنانے کے درپے ہوچکا ہے ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)