آزاد صحافی رعنا ایوب ’’گجرات فائلس ‘‘کی مصنفہ ہیں ۔ موصوفہ’’تہلکہ‘‘ میں ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔ انہوں نے اسی ادارہ سے وابستہ رہتے ہوئے اپنے ’گجرات مشن‘ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ 2010 میں انہی کے اسٹنگ آپریشن کے سبب امت شاہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ’گجرات فائلس‘ کی مصنفہ رعنا ایوب نے جب اپنی کتاب کے انگریزی ایڈیشن کا اجرا جون 2016 میں کیا تھا تو اس کی گونج ایوانِ سیاست میں بھی سنی گئی لیکن اس کتاب کی آواز بڑی خوبصورتی سے دبا دی گئی۔ نیوز چینلز نے ذکر تک نہیں کیا۔ پوری دنیا میں اس وقت میڈیا کا رول بالعموم یہی ہے کہ جو طاقتور اور برسرِ اقتدار ہے، اسی کی اطاعت کی جائے۔ حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی آنکھیں اس طرح موندھ لی جائیں جیسے عالم واقعہ میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ میڈیا کے اس رویے کو انسانیت کے خلاف بے حسی کی بدترین علامت کہا جاسکتا ہے۔ خالق ِکائنات کی مخلوق پر ظلم و ستم کرنا بدترین جرم اور گناہ خیال کیا جاتا ہے لیکن اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ ظالم کی پردہ پوشی کی جائے اور مظلوموں کو حق و انصاف سے محروم کردیا جائے۔
رعنا ایوب کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا ہے جو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے تئیں ایمانداری اور جرأت مندی کے ساتھ عزیمت کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں لیکن رعنا ان عظیم خصوصیات کے ساتھ دو’’ کمزوریوں‘‘ کی بھی حامل ہیں: پہلی کمزوری یہ ہے کہ ان کا شمار صنف ِنازک میں ہوتا ہے تو دوسری کمزوری ان کا مسلمان ہونا ہے۔ ان کمزوریوں کے ساتھ موجودہ میڈیا سے منسلک رہتے ہوئے عزیمت کی خطرناک و دشوار گزار راہ پر چلنا ایسا ہی ہے جیسے بارود بچھے ہوئے سڑک پر سرپٹ بھاگنا۔ ’گجرات فائلس: پس پردہ حقائق کا انکشاف‘ ایک ایسی چشم کشا کتاب ہے جس میں جذباتیت اور ذاتی تاثرات سے گریز کرتے ہوئے تفتیشی صحافت (Investigative Journalism) کی نادر مثال پیش کی گئی ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے انگریزی میں 'Gujarat Files: Anatomy of a Cover Up' کے عنوان سے رعنا نے خود شائع کی۔ اس کے اجراء کے دوران میں دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر کا ایک مخصوص ہال سیاست دانوں، دانشوروں اور قومی میڈیا سے منسلک صحافیوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا لیکن قومی میڈیا میں اس کتاب کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ تاہم’’ دی ہندو ‘‘اور ’’انڈین ایکسپریس ‘‘وغیرہ میں روایتی قسم کے تبصرے بعد میں ضرور شائع ہوئے۔ اس کتاب کے بارے میں اردو میڈیا کا رول بھی مایوس کن تھا۔ اس کا اردو ایڈیشن مضامین ڈاٹ کام کے زیراہتمام حال ہی میں شائع ہوا ہے جس کے مترجم محمد ضیاء اللّٰہ ندوی ہیں۔ اب اس کے اردو ایڈیشن کی اشاعت اور تشہیر کے بعد اردو میڈیا نے بھی محتاط انداز سے اس جانب توجہ مرکوز کیا ہے۔ ’گجرات فائلس‘ کے حوالے سے معروف صحافی احمد جاوید کے دو مضامین روزنامہ ’’انقلاب‘‘ (19 جنوری اور 5 فروری 2017) میں شائع ہوئے۔ اردو کے غالباً وہ پہلے صحافی ہیں جنہوں نے اس کتاب پر اور اس کی مصنفہ رعنا ایوب کی تحقیقاتی صحافت اور ان کے کارنامے پر مخصوص انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ یہاں اس کتاب کے حوالے سے احمد جاوید کے دونوں مضمون سے تین فکر انگیز اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ تکرار سے گریز کیا جاسکے:
’’رعنا ایوب جو میڈیا کا ایک بہت بڑا نام ہے، جس نے ہندوستان میں میڈیا کو بتایا کہ تحقیقاتی صحافت کیا ہوتی ہے؟ صحافتی ایمانداری کس بلا کا نام ہے، بے خوفی و بے باکی کسے کہتے ہیں اور اس کے لیے کتنی ہمت اور کیسے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے؟۔۔۔اس کتاب کو منظرعام پر نہ آنے دینے اور میڈیا کے مکمل بلیک آئوٹ کے باوجود اس کے اجرا کے بعد صرف تین چار ماہ میں 22؍ ہزار کاپیاں ہاتھوں ہاتھ نکل گئیں جب کہ اس کتاب کو نہ تو کسی ناشر نے شائع کرنا منظور کیا تھا اور نہ کسی بک سیلر نے اپنے یہاں رکھنا قبول کیا تھا۔ کتاب کی اس مقبولیت کے بعد ملک کے سب سے بڑے بک ڈسٹری بیوٹر (آئی پی ڈی) نے رعنا سے معاہدہ کیا اور اس کے بعد اس نے آٹھ (۸) ہزار کاپیاں فروخت کیں۔ ممبئی اور احمدآباد کے کتب فروشوں نے جولائی میں مصنفہ سے کہا تھا کہ یہ اس قسم کی کتاب نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے یہاں رکھ سکیں۔‘‘ (15 جنوری 2017)
’’میتھلی تیاگی جو کوئی اور نہیں خود رعنا ایوب ہے، جمہوریت، انصاف، انسانیت، سیکولرازم، فرقہ پرستی، فسطائیت، جبر و استبداد اور ان نوع کے افکار و نظریات کی گہری سمجھ رکھتی ہیں، خوف و دہشت کے اس سائے میں جہاں اصحاب اقتدار سیاست داں اور طاقتور حکام بھی سچ بولنے کی جرأت کرنے سے گھبراتے تھے، اس کا دوسروں سے زیادہ ادراک رکھتی تھی۔ پھر بھی وہ سچ کو سامنے لانے کی دھن میں وہ کر گزرتی ہے جو ہم جیسے لکھاری سوچتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ اصل تازیانہ یہی ہے کہ ہمارے فکشن نگاروں کا ذہن بھی جس مقام پر بانجھ ہوجاتا ہے، رعنا ایوب کا ذہن و ضمیر اسے سچ مچ وہاں تک لے جاتا ہے، یہ بانجھ نہیں ہوتا، اس پر فالج نہیں گرتا۔‘‘ (5 فروری 2017)
’گجرات فائلس‘ کی مصنفہ رعنا ایوب نے 2010 کے دوران میں تقریباً آٹھ مہینے گجرات میں کانپور کے ایک کائستھ خاندان کی بیٹی میتھلی تیاگی کے روپ میں سنسنی خیز ایّام گزارے۔ اس کے اس روپ (under cover) کا رنگ یہ تھا کہ وہ امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ کانزرویٹری کی طالبہ کی حیثیت سے گجرات کے ترقیاتی ماڈل اور پوری دنیا میں بسنے والے غیر مقیم بھارتیوں کے درمیان نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر ایک فلم بنانے کے لیے بھارت لوٹی تھی۔ اس کے ساتھ ایک فرانسیسی کم عمر طالب علم بھی تھا جسے میتھلی نے نام بدل کر مائک لکھا ہے۔ اس نوجوان نے ’گجرات مشن‘ میں میتھلی کا ایک چھوٹے بھائی کی طرح آخری وقت تک ساتھ دیا۔ اس کتاب میں رعنا ایوب نے سنسنی خیز اسٹنگ آپریشن کے ذریعے گجرات فسادات، فرضی انکائونٹرس اور ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل سے متعلق چونکانے والے انکشافات کیے ہیں۔ رعنا نے امریکن فلم ساز میتھلی تیاگی کی حیثیت سے ان آفیسرز اور اعلیٰ پولیس اہل کاروں سے ملاقاتیں کیں جو 2001ء سے 2010ء کے دوران گجرات میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ زیرنظر کتاب میں درج یہ اسٹنگ آپریشنز ریاست اور اس کے اہل کاروں کے انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں ان معاملات کے سنسنی خیز انکشافات بھی ہیں ۔ ریاست کے پس پردہ ’سچ‘ کو ان ہی لوگوں کی زبانی بے نقاب کیا گیا ہے جن پر تفتیشی کمیشن کو بیان دیتے وقت نسیان طاری ہوگیا تھا، تاہم مذکورہ اسٹنگ آپریشن کے دوران میں خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئیں ویڈیوز میں انہوں نے بہت سے راز افشا کردیے۔ اس کتاب کی پشت (بیک کور) پر معروف انگریزی مصنفہ اور سماجی ایکٹیوسٹ محترمہ اروندھتی رائے نے کچھ اس طرح اظہار خیال کیا ہے:
’’اس کتاب میں شامل سینئر آفیسرز اور پولیس اہل کاروں سے کیے گئے مکالمات اس ملک کی عدالتوں میں زیر سماعت متعدد معاملوں کے شواہد کو سیاق و سباق اور تقویت فراہم کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے مجرموں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھیں گے جو اس ملک کے طاقتور ترین افراد میں سے ہیں؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم خود اپنے ساتھ کیا رویہ روا رکھیں گے جنہوں نے ایسے افراد کو اقتدار بخشا؟‘‘
گیارہ ابواب (مع حواشی) پر مشتمل ’گجرات فائلس‘ کا ہر باب نہ صرف چونکانے والا ہے بلکہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں رہنے والے ہر شہری کو ذہنی کرب و تلاطم میں مبتلا کردیتا ہے۔ کتاب کے باب دوم ہی میں رعنا ایوب اپنے اس پُر خطر مشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کام کے طریقہ کار کو اس طرح بیان کرتی ہیں:
’’تقریباً تین مہینے گجرات میں گزارنے کے بعد اور جن حالات میں ان لوگوں سے ملی تھی اور جو معلومات فراہم کرنے کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار کرچکے تھے، اس سے اس بات کا کافی اشارہ مل چکا تھا کہ آگے کا راستہ خاصا مشکل ثابت ہوگا۔ قوت پر قابض افراد سے سچائی اگلوانا جنہوں نے اپنی ذات کے اندر ہی حقیقت کو سر بمہر رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا، اتنا آسان نہیں تھا۔ میرے رفیق کار آشیش کھیتان نے اپنے انکشاف میں بعض خوفناک حقائق کو بے نقاب کیا تھا لیکن میرا کام ان بلوائیوں کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنا نہیں تھا جو ان کو اکساتے ہی اپنی بہادری کے قصے بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ میرا پالا اُن پختہ کار پولیس افسروں سے پڑھنے والا تھا جن میں سے اکثر حساس اداروں میں کامیابی سے اپنی خدمات کی مدتیں پوری کرچکے تھے۔‘‘ (ص: 11)
اس کتاب کی ’تقریظ‘ لکھنے کا فریضہ جسٹس بی این سری کرشنا نے انجام دیا ہے۔ انہوں نے ابتدا ہی میں ’ایشوسیہ اپنشد‘ کے حوالے سے ایک اقتباس اس طرح نقل کیا ہے:
’’حقیقت کا چہرہ طلائی مکھوٹوں میں چھپا دیا گیا ہے، اے پوشان، اٹھو اور سچے دھرم کی خاطر اس کی نقاب کشائی کرو۔‘‘ اس کے بعد سری کرشنا نے مارک ٹوین کا ایک قول بھی نقل کیا ہے: ’’حقیقت افسانہ سے عجیب تر ہوتی ہے، تاہم اس کی وجہ یہ ہے کہ افسانے کو صرف ممکنات کی دنیا تک محدود رہنا پڑتا ہے، حقیقت کو نہیں۔‘‘
اپنی ’تقریظ‘ کے آخر میں جسٹس کرشنا نے لکھا ہے: ’’تفتیشی صحافت میں اس غیر معمولی جرأت کے لیے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو سلام۔ بڑھتی ہوئی بے ایمانی، فریب کاری اور سیاسی ریشہ دوانیوں کے پیش نظر اس کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔‘‘ (11 اپریل 2016)
آج سے تقریباً 63 برس قبل 1953 میں اردو کے معروف ناول نگار ابن صفی کے ’تفتیشی صحافت‘ پر چھ ناول شائع ہوئے تھے۔ ’انور اور رشیدہ‘ کے کرداروں پر مشتمل چار ناول الٰہ آباد کے نکہت پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ اردو ادب میں ’تفتیشی صحافت‘ پر اس زمانے میں ناول لکھے گئے جبکہ الکٹرانک میڈیا اور موبائل فون، ویڈیو اور لیپ ٹاپ کا تصور نہ تھا۔ ان ناولوں میں کرائم رپورٹر انور کے ساتھ رشیدہ کا پُر اسرار کردار منفرد ہی نہیں بلکہ موجودہ الٹراماڈرن سوسائٹی میں اچھوتا ہے۔ رشیدہ ایک نڈر، بے باک اور مہم جو لڑکی ہی نہیں بلکہ پختہ کردار کی حامل ہے۔ انور سے اس کی دوستی کبھی بھی حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔ انور اور رشیدہ کے کارناموں میں ایک بات خصوصی طور سے محسوس ہوتی ہے کہ ہندوستان میں پولیس اور انٹیلی جنس کے ساتھ عوام کا رویہ ’عدم تعاون‘ کا کیوں ہے اور یہاں کرمنالوجی کی تعلیم کے بعد وکلاء کی طرح پرائیویٹ جاسوس (Detectives) کی پریکٹس کا رجحان کیوں نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہاں جھوٹے سچے مخبر (Informers) مشروم کی طرح پھیلے ہوئے ہیں جو انگریزوں کی غلامی کی یادگار ہیں۔
ابن صفی نے اردو ادب میں آج سے چھ دہائی قبل پولیس اورا نٹیلی جنس کے منفی رویے کو پیش کیا تھا جو محب وطن کو بھی بخشنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہمارے ملک کے قانون کے محافظوں کا یہ ایسا نفسیاتی مسئلہ ہے جس پر ابن صفی کے ان ناولوں میں واضح اشارے ملتے ہیں۔ یہاں رعنا ایوب کی تفتیشی صحافت کی مثال ابن صفی کے حوالے سے اس لیے دی گئی ہے کہ ہمارا اردو جرنلزم آج بھی 1857 ء کے خوفناک ماضی کو ’شاندار ماضی‘ قرار دیتا ہے۔ اس کی نظر اردو ادب میں اس عظیم ادیب پر نہیں ہے جس نے ہندوستان کی آزادی کے معاً بعد صحافت کی پُرخار راہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اردو ادب کے سرمائے میں غیر معمولی اضافہ کیا تھا۔ رعنا ایوب میں یہ جرأت اور بے باکی اس لیے آئی کہ ان کا تعلق آج بھی ’اردو صحافت‘ سے نہیں ہے۔ وہ اس نسل کی نمائندہ کردار ہے جس کی نشاندہی ابن صفی نے کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ابھی تک گلوبل عہد کے فتنہ و فساد سے بھی واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس عہد میں جینے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے اردو ایڈیشن کے اجرا ء کے موقع پر رعنا ایوب نے بڑے تیکھے انداز میں مسلم سماج کو مردہ قوم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم دو روپے کا اخبار بھی نہیں خریدتے البتہ گوشت اور بریانی پر خوب خرچ کرتے ہیں۔ ہماری مشترکہ آواز نہیں رہی اور ہم ایک لیڈر کو اُبھرنے نہیں دیتے۔ رعنا ایوب نے کہا کہ ان کی کتاب ایک اسٹوری نہیں بلکہ سچ ہے، ایک selfish attempt ہے، اپنے ضمیر کو جواب دینے کا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی نے اس کتاب کا oppose نہیں کیا لیکن ہمارے نیوز چینلز اتنے اچھے ہیں کہ میری کتاب کا ذکر تک نہیں کیا۔
رعنا ایوب نے ’گجرات مشن‘ کے دوران میں جتنے بھی اسٹنگ آپریشن کیے، ان میں وزیراعظم نریندر مودی کا اسٹنگ آپریشن بھی شامل ہے جس کے بعد ان کی تنظیم ’تہلکہ‘ نے انہیں اس مشن سے واپس بلالیا۔ رعنا کا کہنا ہے کہ جب ان کی مودی سے ملاقات ہوئی تو ان کی میز پر باراک اوبامہ کی دو کتابیں رکھی تھیں۔ مودی نے باراک اوبامہ کی کتاب دکھاتے ہوئے کہا کہ "This is what I want to be"۔ رعنا ایوب کہتی ہیں کہ مودی کی تعریف کی جانی چاہیے اور وہ مبارک باد کے مستحق ہیںکہ انہوں نے جو خواب دیکھا اُسے پورا کردکھایا۔ ہمیں بحیثیت مسلم قوم اپنے ضمیر کے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ایسا کیوں ہونے دیا۔ رعنا کے بقول یہ ایسی کتاب ہے جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہر ہندو اور بالخصوص آرایس ایس کے لوگوں کے لیے ہے۔ اس کتاب میں شامل اِسٹنگ آپریشن کے مکالمے (dialogues) کے چند اقتباسات سے خود رعنا ایوب کی خطرناک پوزیشن اور حاصل ہونے والی خفیہ معلومات کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں ایسا سچ ہے کہ رعنا نے اپنی جس تنظیم ’تہلکہ‘ کے لیے کام کیا تھا، خود اس نے اسے شائع کرنے سے انکار کردیا۔ طوالت سے گریز کرتے ہوئے نمونے کے طور پر دو اقتباسات ملاحظہ ہوں:
سوال (رعنا): تو کیا ریاست آپ کی مدد کر رہی ہے کہ نہیں؟
جواب (جی ایل سنگھل): ’’دیکھو۔ چاہے بی جے پی ہو یا کانگریس، سیاسی پارٹیاں تو بس سیاسی پارٹیاں ہی ہوتی ہیں۔ پہلے وہ اپنا فائدہ دیکھیں گی کہ کن حالات میں انہیں کچھ فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے معاملے میں وہ مدد کر رہے ہیں لیکن وہ یہ بھی دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سے انہیں کیا ملے گا اور کیا نہیں ملے گا۔ اگر یہ اُلٹا پڑجاتا ہے تو اس سے ان کو کیا حاصل ہوگا۔ جو لوگ ہمارے انکائونٹر کی تحقیقات کر رہے ہیں ذرا ان پر ایک نظر ڈالو۔ کرنیل سنگھ جو دلّی میں اسپیشل سیل میں جوائنٹ کمشنر آف پولیس کے عہدہ پر فائز تھے ان کا تبادلہ میزورم کردیا گیا ہے۔ ان کے زمانے میں 44 ؍انکائونٹر ہوئے ۔ اس کے بعد ایک اور افسر ہے جس کا نام ستیش ورما ہے اور حقوقِ انسان کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ڈینگیں ہانکتا ہے لیکن اس نے بھی قریباً دس انکائونٹر کیے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ صاف ستھری شبیہ کا آدمی ہے۔‘‘ (صفحہ 48)
رعنا ایوب کے بقول اس کتاب کو ضبط تحریر میں لانے کے وقت سنگھل گرفتار ہوچکا تھا اور سی بی آئی کے سامنے اپنے رول کا اس نے اعتراف کرلیا تھا۔ رعنا لکھتی ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سنگھل نے سی بی آئی سے یہ بھی کہا ہے کہ نہ تو وہ گواہ بننا چاہتا ہے اور نہ ہی معافی کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمام دیگر مجرموں کی طرح اس کا مقدمہ بھی چلے۔ (صفحہ 42)