مسلمانوں پربرما کی فوجی حکومت اور شدت پسند بودھوں کے دل دہلا دینے والے مظالم اور ان کی نسل کشی کے دوران خون آشام وارداتوں نے ان کی زندگیوں کو مسلسل عذاب سے دوچار کر رکھا ہے،جون 2012ء سے تا حال ہزار وں مسلمانوں کے مقتل کا گواہ بنی، ارکان کی زمین دنیا بھر کے عدل گستروں اور انسانی حقوق کے محافظوں پر طمانچے رسید کر رہی ہے، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے ظالمو! خون مسلم کی ارزانی کا تماشہ دیکھنا ہو تو آکے دیکھ لو۔ مایوسیت کے سائے میں جی رہے برما کے مسلمانوں کو کوئی اخلاقی حمایت، کوئی رسد وا مداد نہیں پہنچی ، حالات ہر دن ابتر ہورہے ہیں، ظالم دہشت گردوں سے نپٹنے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں، ان کی زندگی کا پہیہ کرب وآہ میں جام ہو کر رہ گیا ہے، آئیے آپ کو وہاں کے احوال سناتے ہیں انہی کی زبانی۔ حج کی سعادت حاصل کرنے والے برما کے بعض ائمہ مساجد اور داعیو ںسے منیٰ (مکہ مکرمہ) میں گفتگو کا موقع ملا ، پیش ہے ایک برمی عالم سےگفتگو کاخلاصہ۔ ۔۔روای
س: آپ چونکہ منبر و محراب اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لیے میرا پہلا سوال ہے کہ برما میں مدارس و مساجد کی صورت حال کیا ہے؟
ج: اس وقت پورے ملک میں بشمول ارکان سو سے زائد ایسے مدرسے ہیں جہاں درس نظامی کا نصاب رائج ہے اور فارغ التحصیل طلبہ کو عالم و فاضل کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔راجدھانی رنگون میں دس مدرسے اس طرح کا کورس چلا رہے ہیں،مگر سرکاری یونیورسٹیاں اس کورس کو تسلیم نہیں کرتیں، جہاں تک مساجد کی بات ہے تو اکثر مدرسے مسجد اور اس سے ملحقہ کمروں میں ہی چلائے جارہے ہیں، علاحدہ بلڈنگ بنانے کی اجازت نہیں ہے، خطہ ارکان سمیت پورے دیش میں 2000 سے زائد مساجد ہیں، لیکن صد افسوس ان میں اضافہ کی بجائے لگاتار کمی واقع ہورہی ہے، سرکاری حمایت یافتہ بودھ دہشت گرد ارکان میں 150، اور راجدھانی رنگون میں 11، مسجدیں جبراً وقہراً ڈھا چکے ہیں ، دوسرے شہروں کے اعداد و شمار نا گفتہ بہ ہیں۔
س: کیا حکومت منہدم کی گئی مسجدوں کی از سرنو تعمیر کرتی ہے یا اس کے دو بارہ تعمیر کی اجازت دیتی ہے؟
ج: ہر گز نہیں، سرکاری ظلم کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ جب ہمیں اپنی آباد مسجدوں کی معمولی مرمت کی حاجت ہوتی ہے تو اس کی اجازت کے لیے سرکاری اداروں کو رشوت دینی پڑتی ہے، فوجی حکومت پورے طور پہ ہماری جڑیں اکھاڑنے کے در پے ہے، ہمارا وجود انھیں برداشت نہیں۔
س: مدارس اسلامیہ کو سرکار سے کبھی کسی طرح کی کوئی مدد؟
ج: برما میں رہتے ہوئے ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ہاں! پہلے ہمیں مدارس کے قیام اجازت دی گئی، لیکن اب نئے مدرسوں کے قیام کی اجازت نہیں مل رہی ہے، طلبہ کو کوئی وظیفہ نہیں ملتا، بس اللہ کے فضل اور اصحابِ خیر کے تعاون سے دینی تعلیم کا فروغ جاری ہے۔
س: ماشاء اللہ آپ حضرات اُردو بہت روانی سے بولتے ہیں، کیا اس کی وجہ آپ لوگوں کا بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں تعلیم کا نتیجہ ہے؟
ج: ایک سبب ہو سکتا ہے کہ ہمارے اکثر علماء نے بر صغیر میں تعلیم و تربیت پائی، لیکن ہمارے نصاب تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے اُردو، جسے برمی اور عربی کے ساتھ پڑھایا جا تا ہے، اس لیے برما میں اہل اُردو کو کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوگا۔
س: برما میں مسلمانوں کی تعداد اور اہم شہر جہاں ان کی آبادی کسی حد تک ٹھیک ٹھاک ہے؟
ج: برما میں مسلمان 12 /فیصد(یعنی 75/لاکھ آبادی ) ہیں جب کہ 70 فیصدی بودھ مت کے پیروکار ہیں،ملک کی مجموعی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے، اہم شہر جیسے:رنگون، نیبرو، منڈلے، مالمین، اکیاب (Sit Way)،بوٹپیدانگ، ماوٴنڈو ،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
س: بقرعید کے موقع پر پورے دیش میں کہیں قربانی نہیں کی گئی،آخر کیا وجہ رہی؟
ج: عید الا ضحی سے قبل بودھ مت کی مذہبی جماعتوں نے مسلمانوں کو وارننگ دی تھی کہ اگر ہم جانور ذبح کریں گے تو وہ ہمیں ذبح کردیں گے(شاید ان خونی جھتوں کا نیا اصول یہی ہے کہ جانوروں کے بدلے انسانوں کا خون بہانے میں کوئی گناہ نہیں)، ہم یہ جانتے ہیں کہ ان کی دھمکیاں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں، ہم حکومت سے ہمیشہ سیکورٹی کی اپیل کرتے ہیں ، مگر نہ وہ سیکورٹی فراہم کرتے ہیں اور نہ دہشت پسند جماعتوں پر کوئی قدغن لگاتے ہیں،بلکہ ان کی علانیہ پشت پناہی کرتے ہیں، اسی خوف کے سبب تمام مسلمانوں نے قربانی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
س:بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل صوبہ ارکان(راکھینے) میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟
ج: ارکان میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت روہنجا نسل سے ہے، اس صوبہ میں 90/فیصد مسلمان ہیں جب کہ 10/ فیصد مونک (یکھائی) نسل کے بودھسٹ ہیں، وہاں کے مواضعات اور شہروں میں فوجی آمریت کے بوٹے دندناتے ہیں، 10/ فیصدی مونک پورے طور پہ مجبور و مقہور مسلمانوں پر حاوی ہیں،حالانکہ یہ مونک بھی برمی حکومت کے مخالف ہیں،لیکن فوج انھیں ہتھیار فراہم کر کے مسلمانوں کے خلاف اکساتی ہے تا کہ تمام مسلمان برما چھوڑ کر بھاگ جائیں، اس طرح یہ مونک مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہیں، جون 2012ء سے ہزارہا مسلمان مردوں،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا، سینکڑوں مسلم بستیوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا،مگر ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی، اور نہ ہی مونک دہشت گردوں کا کچھ بگڑا، اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے، اس قیامت خیز مقتل سے گھبرا کر مسلمانوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی، لیکن بعض مظلوم مسلمانوں نے عزم مصمم کیا کہ ہم ہجرت نہیں کریں گے بلکہ یہیں دفن ہو جائیں گے، فوجی جوانوں کے مسلسل چھاپوں سے مسلمان بہت عاجز ہیں، جب کہ ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، اس صوبے کا قانون ہی الگ ہے، کوئی بھی ارکان سے برما کے دوسرے صوبوں کا سفر نہیں کر سکتا،ستم بالائے ستم یہ کہ بیٹی کو باپ کے گھر (مائیکہ)جانے کے لیے حکومت سے تحریری اجازت لینی ہوتی ہے، مسلمانوں کو نہ تو شہریت دی گئی ہے اور ہی ان کے حقوق، مسلمانوں کی آبادی پر کنٹرول کے لیے قانون بنایا گیا ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کی عمر 25/ سے اوپر اور لڑکے کی عمر 30/سے اوپر ہونی چاہیے، نیز شادی کے لیے سرکاری پرمٹ ضروری ہے جس کے حصول میں سال بھر لگ جاتا ہے،روہنجا مسلمان ایک دو نہیں سینکڑوں مصیبتوں کے شکار ہیں، بس اللہ ان پر رحم فرمائے۔
س: راجدھانی رنگون میں مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہے؟
ج: الحمد للہ مسلم ممالک کے سفارت خانوں کے سبب یہاں کے مسلمان کسی حد تک محفوظ ہیں اور اپنے سارے کام آسانی کے ساتھ کرتے ہیں، جب کہ دوسرے شہروں میں حالات اچھے نہیں ہیں۔
س: کیا آپ ارکان کے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں؟
ج: جی! اگر کوئی چھپ چھپا کر رنگون پہنچ جا تا ہے تو ہم اس کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں، لیکن ارکان جا کر ان کی مدد کرنے سے ہم معذور ہیں، حکومت کی نگاہیں ہم پر بہت تیز ہیں، ہاں! وہاں کے حالات مسلم ممالک کے سفارت خانوں تک پہنچاتے ہیں اور وہ کبھی کبھار ان کی غذائی و طبی امداد کرتے ہیں، اس ضمن میں سعودی عرب اور ترکی نے اپنا دست تعاون کماحقہ دراز کیا ۔
س: اسلامی شعائر کے اظہار و ادائیگی میں کوئی پریشانی؟
ج: الحمد للہ ارکان کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں مسلمان اپنی شناخت اور شعار اپنانے میں آزاد ہیں، خواتین مکمل نقاب کا استعمال کرتی ہیں، بعض اسکارف پہنتی ہیں، مگر کوئی اعتراض نہیں کرتا،اسی طرح مائک پر اذان دینے کی آزادی ہے،اور اس قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔
س: تعلیم و ملازمت کے میدان میں کیا مسلمانوں کو تعصب کا شکار ہونا پڑتا ہے؟
ج: بہت زیادہ، مسلمان اگر اپنی صلاحیت کے بل بوتے کوئی انٹرویو،مقابلہ یا امتحان پاس کرتے ہیں اور رینک میں ان سے نیچے کوئی برمی نسل کا بدھسٹ ہے، تو اس کو آگے بڑھا دیا جائے گا اور مسلمان اپنی کنفرم سیٹ سے محروم ہو جائیں گے، بھلے برمی بدھسٹوں کے نمبرات کم ہوں مگر انہیں ترجیحی بنیاد پر سیٹ اور ملازمت دی جائے گی، جب انہیں دے دے کر کچھ سیٹیں بچ جائیں گی تو مسلمانوں کو بادل نخواستہ ملیں گی۔
س: سیاسی میدان میں مسلمانوں کی پیش رفت؟
ج: مسلم آبادی سیاسی طوربہت پیچھے ہیں، پارلیمنٹ کی 400/ نشستوں میں صرف 4/ممبر پارلیمنٹ رہے، اور وہ بھی لبرل مائنڈکے، مسلمان آنگ سانگ سوچی کی حمایت کرتے رہے لیکن اس نے کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند نہیں کی، ہم پر کھلے عام طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے رہے ، اس نے پھر بھی کبھی ظلم کے خلاف دو ایک مذمتی الفاظ بھی نہ کہے، شاید اُسے بدھسٹ ووٹ بینک کاخوف ستا رہا ہے۔
س:دعوتی میدان میں علماء اور داعیوںکا کوئی کردار؟
ج: نہایت محدود کردار ہے،مسلمانوں کے درمیان وعظ و نصیحت کا پروگرام ہوتا رہتا ہے، مگر غیر مسلموں کے درمیان اسلام کی دعوت بالکل صفر ہے، سرکاری طور پر یہ کام ممنوعہ ہے،کئی علاقوں میں دینی بیداری اور شعور نہ پائے جانے کی وجہ سے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بودھسٹوں سے شادی کی خاطر مرتد ہوگئیں، اور حکومت نے انھیں گلے لگایا، لیکن اگر کوئی بودھسٹ لڑکی مسلمان لڑکے سے محبت کر بیٹھے تو اُسے مسلمان سے شادی اور تبدیلی مذہب کی اجازت ہر گز نہیں ہوتی، یہ برمی سماج کا نہایت افسوس ناک پہلو ہے۔
س: کیا برما میں مسلمان صحافتی اور میڈیائی بے اعتنائی کا شکار ہیں؟
ج:جس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں کو میڈیا میں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی، برما میں بھی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کرتے ہیں، آپ کو یا د ہوگا کہ ارکان میں بدھسٹوں کے ذریعے انجام دی گئی بھیانک خونریزی کی خبریں نہ تو عالمی میڈیا نے نشر کیں اور نہ ہی برما کے ذرائع ابلاغ نے۔ یہ تو اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا، خصوصاً فیس بک اور ٹیوٹر نے ہمارے لرزہ خیز حالات کی جم کر دنیا بھر میںنمائندگی کی، برما سے باہر کروڑوں مسلمانوں کے مظاہروں اور دعاوٴں نے ہماری مدد کی، ہمیں جینے کا حوصلہ بخشا، ہم ان سب کے بے حد شکر گزار ہیں، ہمارے ملک میں مسلمانوں کا کوئی اخبار نہیں ہے، البتہ تین مشہور ماہنامے نکلتے ہیں جن میں سیاسی مواد یا خبریں بالکل نہیں ہوتیں، برمی زبان میں ’’المیزان‘‘ انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے، ماہنامہ ’’المفتی‘‘(برمی زبان میں) اور ماہنامہ ’’سعادت ‘‘(اردو زبان میں)۔
س: آپ کے دیش کو کبھی برما اور کبھی میانمار کہا اور لکھا جاتا ہے،ایسا کیوں؟
ج: چونکہ ہمارے یہاں مختلف نسلی گروپ آباد ہیں، اور ان میں برمی نسل کے لوگ سب سے زیادہ ہیں، وہی حکومت کرتے ہیں، اس لیے اس دیش کو برما کہا جاتا ہے، میانمار کا مطلب ہے : بہت ساری نسلوں اور طبقات کا دیش، یہ نام نیا ہے، لیکن برمی لوگوں کو پسند نہیں ، اس لیے ملک کا نام پھر برماکردیا گیا ہے، ہمارے یہاں برمی نسل کے 68فی صد ،شان نسل کے 9فی صد کارین نسل کے 7فی صد راکھینے (روہنجا)نسل کے 5فی صد،چینی نسل کے 3فی صد، ہندی نسل کے 2فی صد، فیصد لوگ آباد ہیں۔
س: ارکان میں مسلمانوں پر دلدوز مظالم کے بعد تنظیم برائے اسلامی کانفرنس (O.I.C) نے وہاں اپنادفترکھولنے کی بات کہی تھی، کیا حکومت نے انہیں اجازت دی؟
ج: جی! انھیں حکومت نے اجازت دے دی ہے، لیکن دوسری طرف بدھسٹوں کو مشتعل کر رکھا ہے، تا کہ او آئی سی اپنا دفتر نہ کھول پائے، حکومت کی اجازت کے بعد دہشت پسند بدھسٹوں کا آفس کے قیام کے خلاف احتجاج جاری رہا، جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو ا۔
س: اخیر میں یہ جاننا چاہوں گا کہ برما کا جو پیش منظر ہے اس کے متعلق آپ کے خدشات؟
ج: ہمیں مٹانے کی ہر دن کوشش ہورہی ہے، ہم اللہ کی ذات سے مایوس ہر گز نہیں، لیکن نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ حالات مزید ابتر ہو جائیں گے، اور ہمیں ہجرت پر مجبور ہونا پڑے گا یا دوسرا آپشن بے سروسامانی کی حالت میں مقابلہ(اتنا سن کر مجلس میں حاضر سب حجاج رو پڑے)، فضا سوگوار ہوئی ، آہوں اور سسکیوں کے بادل چھا گئے۔کچھ دیر کے بعد میں نے انھیں دلاسہ دیا کہ کوئی آپ کی مدد کر ے نہ کرے، اللہ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔ان سے جدا ہوتے وقت انہی کی زبان میں ان کا شکریہ ادا کیا:’’چیزو تیمباٹے‘‘انہوں نے جواباً خوش آمدید اپنی زبان میں کہا:’’مینگلابہ‘‘۔ میں نے غٖم زدہ دل کے جذبات کو روپوش رکھتے ہوئے ان سے گرم جوشانہ مصافحہ کیا اوررخصت لی۔ میری زبان پر تمام برمی مسلمانوں کے لیے صبر و ثبات اور حفظ وامان کی دعائیں جاری تھیں…
نوٹ:برما کے پریشاں حال مسلمان حجاج جو اس گفتگو میں شریک تھے، مصلحتاً ان کی تفصیل نہ دے کر صرف نام پر اکتفا کیا جارہا ہے:مولانا محمد اسحاق، مولانا رحمت اللہ، مولانا عبد القادر،مولانا عبد الجبار، مولانا محمد عارف،مولانا امیر حسین صاحبان حفظہم اللہ من کل سوء و مکروہ