سید مصطفیٰ احمد
زندگی کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ کچھ لوگ زندگی کو ماں کے پیٹ سے قبر تک کا سفر سمجھتے ہیں۔ کچھ اسے تیز ہوا کے جھونکے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک زندگی اپنے آپ کو دریافت کرنے کا نام ہے تو کچھ کے نزدیک یہ قدرت کی دریافت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ زندگی ایک ایسا سفر ہے جسے سمجھنا ناممکن ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ زندگی کا مطلب بس آنا اور چلے جانا ہے۔ کچھ کے نزدیک اس خوبصورت زمین پر ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا ہی زندگی ہے۔ بعض اسے آخرت کی آزمائش گاہ سمجھتے ہیں۔ایک آسمانی کتاب میں کہا گیا ہے کہ دنیاوی زندگی ایک سراب ہے۔ سب سے بہتر زندگی وہ ہے جو آخرت کی زندگی ہے۔مختصراً زندگی کے بارے میں آراء بے شمار ہیں، کیونکہ ہر شخص زندگی کو اپنے حالات کے مطابق دیکھتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ زندگی اور بامعنی زندگی میں کیا فرق ہے؟کیا کھانا، دھونا، سونا، خرچ کرنا، خریدنا وغیرہ ہی زندگی ہے؟ ایک انگریزی شاعر کے الفاظ میں یہ سب تو ’’ایک بے کار نعمت‘‘ (a sordid boon) ہے۔اب میں ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ بامعنی زندگی کیا ہے۔
زندگی بطور ایک سفر :فرض کریں ایک ٹرین اپنی پوری رفتار سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سہولت کے لیے انسان کو ایک ٹرین سے تشبیہ دی جائے۔ راستے کے دونوں طرف ہری بھری فصلیں، بہتے ہوئے چشمے اور ندی نالے نظر آتے ہیں۔ انسان بھی اسی مقام پر ہوتا ہے۔مناظر دل کو لبھاتے ہیں، مگر ٹرین ان پر توجہ نہیں دیتی۔ وہ میدانوں اور پہاڑوں سے گزرتی، زمین اور دریا پر سے گذرتی اپنی رفتار کم کیے بغیر منزل کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے اسٹیشن آتے ہیں، مگر وہ کہیں نہیں رکتی۔ اسی طرح بامقصد زندگی گزارنے والا شخص بھی اپنی توجہ اپنے مقصد پر مرکوز رکھتا ہے۔ وہ غیر ضروری باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتا۔ وہ مسافر کی طرح ہوتا ہے جو اپنی ہر گھڑی اپنے مقصد تک پہنچنے کی کوشش میں صرف کرتا ہے۔دنیاوی کششیں اس کے سامنے آتی ہیں مگر وہ ان سے نظریں پھیر لیتا ہے۔ آرام دہ سایہ اسے دھوپ سے بچنے کی دعوت دیتا ہے، عالی شان عمارتیں اسے آرام کرنے کو کہتی ہیں، مگر اسے ان سب کے لیے وقت نہیں۔ اس کی نگاہ صرف اپنے ہدف پر ہوتی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز اس کے عزم کو نہیں بدلتے۔ اس کے سفر کی سمت اور رفتار دونوں مستقل رہتی ہیں۔
بے مقصد اور بامقصد شخص میں فرق :بامقصد شخص اس آوارہ مسافر کی طرح نہیں ہوتا جو کبھی ایک سمت چل پڑتا ہے اور کبھی دوسری۔ وہ جانتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے۔ اس کے سامنے راستہ صاف اور واضح ہوتا ہے۔ وہ کسی مقام پر رکتا نہیں، بلکہ اپنی منزل تک پہنچنے تک رواں دواں رہتا ہے۔
روحانیت اور دنیا کے درمیان توازن : یہ بات خاص طور پر مسلمانوں کے لیے قابلِ فہم ہے۔ نبی کریمؐ کے کچھ صحابہ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ اس مقام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ سنجیدہ رہنا چاہیے، عبادت میں مشغول رہنا چاہیے، دنیاوی لذتوں سے منہ موڑ لینا چاہیےاور دل و دماغ کو آخرت کی فکر میں لگائے رکھنا چاہیے۔ اسی حوالے سے حضرت حنظلہؓ اور حضرت ابوبکرؓ کا ایک واقعہ مشہور ہے۔حنظلہؓ نے فرمایا: ’’حنظلہ منافق ہوگیا ہے۔‘‘ابوبکرؓ نے کہا: ’’سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘حنظلہؓ نے جواب دیا: ’’جب ہم نبی کریمؐ کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جہنم اور جنت کا ذکر اتنے یقین سے سناتے ہیں گویا ہم انہیں دیکھ رہے ہوں۔ لیکن جب ہم گھر جاتے ہیں، بیوی بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں، تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔‘‘ابوبکرؓ نے کہا: ’’اللہ کی قسم! میں بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔‘‘
پھر وہ دونوں نبی کریمؐ کے پاس گئے اور حنظلہؓ نے سارا واقعہ بیان کیا۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم ہر وقت وہی کیفیت برقرار رکھو جو میرے پاس رہتے ہوئے ہوتی ہے، تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں جب تم چلتے پھرتے یا آرام کرتے ہو۔ مگر اے حنظلہ وقت اِس کے لیے بھی ہے اور اُس کے لیے بھی۔‘‘آپؐ نے یہ جملہ تین بار فرمایا۔
زندگی کا توازن : اس واقعے سے سبق ملتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا برا نہیں، مگر ان میں کھو جانا نقصان دہ ہے۔زندگی ایک اعتدال کا نام ہے۔کوئی انسان گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور نہیں۔ انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہوئے بھی روحانی بلندی حاصل کی جا سکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ انسان کا مقصد نیک اور واضح ہو اور وہ اُسی کے مطابق عمل کرے۔ یہی بامعنی زندگی ہے۔ایسی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے لیے کوئی ہدف مقرر کرے اور اس کی افادیت پر یقین رکھے۔ اس کے ضمیر کی مکمل تائید حاصل ہو۔اسی ہدف پر دل و دماغ کو مرکوز کر کے انسان جانوروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ زندگی ایک آزمائش ہے۔ اس کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھنا چاہیے۔ انتہاپسندی سے بچنا ضروری ہے۔یہ دنیا اتنی بُری نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں۔ اگر ہم اعتدال اختیار کریں تو ہماری زندگیاں بامعنی اور قابلِ قدر بن سکتی ہیں۔