ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنے وطن مالوف میں گمشدگی، پھر بگرام ائر بیس کابل میں ان کاقید وبند ،امریکہ میں عمر بھر کی جیل سزا ملنے کے نکات نے اس ہائی پروفائل کیس کو روزاول سے ہی بحث طلب بنا رکھا ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی شہر سے ہے۔ والدین اسلامی ذہن کے ہیں اور سابق صدر ضیا الحق کے حامی گنے جاتے ہیں۔ عافیہ ایک ذہین طالبہ رہیں اور سن نوے میں امریکہ چلی گئیں جہاں ان کا بھائی پہلے ہی موجود تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں نیورو سائنسز میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ سن پچانوے میں ڈاکٹر امجد خان سے عافیہ کی شادی ہوئی۔ عافیہ دوران قیام اسلامی موومنٹس اور فلسطین، بوسنیا اور کشمیر کاز کے ساتھ منسلک تھیں اور بہت ایکٹو سپورٹر تھیں۔ سن چھیانوے میں عافیہ کا پہلا بیٹا احمد پیدا ہوا۔ اگست۲۰۰۲ میں کراچی میں دونوں کی طلاق ہو گئی جب کہ عافیہ تیسرے بچے سلیمان سے حاملہ تھی جو طلاق کے دو ہفتے بعد پیدا ہوا۔۲۵؍ دسمبر ۲۰۰۲ کو عافیہ اپنے تینوں بچے ماں کے پاس چھوڑ کر امریکہ چلی گئیں۔ عافیہ اور ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ عافیہ نوکری دھونڈنے گئی تھی۔طلاق کے چھ ماہ بعد، امریکہ سے واپسی پر عافیہ نے عمار البلوچی یا البلاچی سے شادی کی۔
عافیہ کی گمشدگی:
مارچ ۲۰۰۳ میں ایف بی آئی نے عافیہ اور ان کے سابق شوہر امجد خان کے خلاف گلوبل الرٹ جاری کر دیا۔ اس دوران عافیہ غائب ہو گئیں۔ امجد کو ایف بی آئی نے انٹرویو کیا مگر بعد ازاں رہا کر دیا۔عافیہ کی گمشدگی انتہائی پراسرار ہے۔ عافیہ کی فیملی کے مطابق وہ تینوں بچوں سمیت ایئرپورٹ گئی تھی اور پھر گمشدہ ہو گئی۔ ایک شبہ یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ پاکستانی ایجینسیوں نے اسے گرفتار کیا اور پھر ایف بھی آئی کے حوالے کر دیا۔اس دوران برطانوی نومسلمہ صحافی ایوان رڈلی نے اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ بگرام ایئر بیس پہ موجود ایک قیدی خاتون دراصل عافیہ ہے۔عافیہ گمشدگی کے دوران کہاں رہیں، یہ ایک سر بستہ راز ہے۔ عافیہ کے دو بچے کہاں گئے۔ یہ بھی دُھند کے پردے میں ہے۔
عافیہ کی گرفتاری:
کورٹ میں جمع کرائے گئے ڈاکیومنٹس کے مطابق سترہ جولائی ۲۰۰۸ کو عافیہ کو غزنی میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ان کے پاس سے مبینہ طور کچھ کاغذات برآمد کئے جن پہ امریکی ٹارگٹس پر حملوں کے متعلق نوٹس تھیں۔ ان کے ساتھ ایک بچہ بھی موجود تھا۔کورٹ ڈاکیومنٹس کے مطابق ۸ ۱جولائی کی سویر امریکی آرمی کی ایک تین ممبر ٹیم عافیہ کو انٹیروگیٹ کرنے پہنچی۔ ایک افغان گواہ کے مطابق عافیہ اس سے قبل مسلسل افغان ٹیم کی منت کرتی رہی کہ اسے امریکہ کے حوالے نہ کیا جائے۔ امریکی ٹیم ایک نیم روشن کمرے میں پہنچی جہاں کافی افغان پولیس والے بھی موجود تھے اور انھیں معلوم نہیں تھا کہ عافیہ کو وہاں باندھے بنا رکھا گیا ہے۔
بگرام ایئر بیس سے امر یکہ تک:
بگرام ایئربیس کابل میں عافیہ ایف بی ائی ٹیم کی زیرنگرانی تھیں۔ ان کو ایک بیڈ سے باندھ کر رکھا گیا۔ اس دوران ٹیم نے انکا انٹراگیشن کیا ۔ ۴؍ اگست ۲۰۰۸ کو عافیہ امریکہ منتقل کر دی گئیں جہاں ان کے خلاف نیویارک میں کرمنل کیس دائر کیا گیا تھا۔ سر کاری طور بتا یا جاتاہے کہ پاکستان سرکار کا رویہ اس پورے کیس میں بہت مثبت رہا۔ عافیہ کو ایک انتہائی اچھی وکلا کی ٹیم فراہم کی گئی، ایکسپرٹ سائکالوجسٹ رپورٹس اور فرانزک رپورٹس ملزمہ کی جانب سے پیش کئے گئے۔ عافیہ کی فیملی کی رسائی اس تک ممکن بنائی گئی۔ پاکستان سرکار نے اس مقدمہ میں قریب دو ملین ڈالر خرچ کئے۔ٹرائل سے قبل دفاعی ٹیم نے یہ اعتراض داخل کیا کہ عافیہ کی ذہنی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ ٹرائل سٹینڈ کر سکے۔ عافیہ کے بھائی محمد، ان کے وکیل اور پاکستانی سفارت خانے کے متعلقہ عملہ کے سامنے عافیہ کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کیا گیا۔ٹرائل شروع ہوا تو کورٹ میں فرانزک رپورٹس جمع کروائی گئیں جن کے مطابق عافیہ کے پاس ملنے والے ڈاکیومنٹس اور نقشوں پہ ان کے فنگر پرنٹز موجود تھے اور نوٹس اسی کی ہینڈ رائیٹنگ میں تھے۔ اسی دوران مختلف گواہان نے ۱۸ ؍جولائی کے وقوعہ پر اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ ڈیفنس کا ایک اہم نکتہ تھا کہ عافیہ جیسی ایک عام عورت ایم فور رائفل فائر نہیں کر سکتی۔ پراسیکوشن نے ثبوت جمع کروایا کہ دورانِ قیام امریکہ عافیہ نے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ لی تھی۔
عافیہ کا رویہ:
عدالت میں کھڑا ہونے سے قبل عافیہ نے گائناکالوجسٹ کو اپنا طبی معائنے کر نےکی اجازت سے انکار کر دیا۔ عافیہ نے پری ٹرائل کیس مینیجمنٹ ہییرنگ میں جج کو مخاطب کرتے ہوے کہا ’’جیوری میں سے تمام یہودی نکالو، یہ میرے خلاف ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب یہودی ہیں، ان کی جینیٹک ٹیسٹنگ کرو اور اس کی بنیاد پہ جیوری سے نکالو‘‘۔ عدالتی رپورٹر کے مطابق اس موقع پر جیوری کمرہ عدالت میں نہیں تھی۔ جج رچرڈ برمن نے اس موقع پر پراسیکوشن سے کہا کہ عافیہ پر موجود سابقہ دہشت گردی یا القاعدہ سے تعلق کے متعلق کسی قسم کی بات جیوری کے سامنے نہ کی جائے تاکہ جیوری متعصب نہ ہو سکے۔
اگرچہ یہ بات موجود ریکارڈ پہ نہیں ہے لیکن باوثوق ذرائع کے مطابق جج برمن بھی یہودی ہیں۔ گو وہ ایک قابل جج کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن عافیہ کی گفتگو نے جج پر کوئی اثر ڈالا یا نہیں، یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گا۔عافیہ نے عدالت سے کہا کہ وہ بطور گواہ بیان دینا چاہتی ہیں۔ جج نے فیصلہ دیا کہ عافیہ گواہی کے لئے فٹ ہیں۔عافیہ نے اپنی گواہی میں کہا کہ اٹھارہ جولائی کو وہ بگرام ائربیس میں پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں کہ انھوں نے امریکیوں کی آوازیں سنیں۔ ان کو خوف محسوس ہوا کہ انہیں امریکیو ںکے حوالے کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بھاگنے کی نیت سے جائزہ لینا چاہا اور پردے سے جھانکا تو اتنے میں ایک امریکی کی نظر ان پہ پڑی اور وہ چلایا کہ ملزمہ بھاگ رہی ہے اور ان پہ فائر کھول دیا گیا۔ میں قطعا دہشت گرد نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں خفیہ جیلوں میں رکھا گیا اور ٹارچر کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ امن کے لئے کردار ادا کر سکتی ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت برآمد شدہ بیگ ان کا نہیں تھا بلکہ اُن کو دیا گیا۔ افغانستان میں دئے اپنے اعترافی سٹیٹمنٹ کے متعلق عافیہ کا کہنا تھا کہ سرجری کے بعد وہ دواؤں کے اثر میں تھیں اور انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا بلکہ ان سے ایسا کہلوایا گیا۔
عدالتی فیصلہ:
۳ ؍فروری ۲۰۱۰ کو جیوری جس میں خواتین پہ مشتمل تھی، نے عافیہ کو تمام سات الزامات میں مجرم قرار دیا۔۲۳ ؍ستمبر ۲۰۱۰ کو جج برمن نے عافیہ کو سزا سنائی۔ اس موقع پر سزا میں دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کر دیا۔ عافیہ کی سزا میں اس بات پہ زور دیا گیا کہ ملزمہ کے بیانات کی روشنی میں اس کاایسا جرم دوبارہ کرنے کا امکان زیادہ ہے،اس لئے عدالت نے کل سات الزامات پر عافیہ کو چھیاسی سال پرنسپل قید اور پانچ برس سپروائزد رہائی کی سزا سنائی۔عافیہ نے اس موقع پر لوگوں سے کہا کہ وہ پرامن رہیں اور خون خرابہ نہ کریں۔ میں نے اپنا فیصلہ خدا پہ چھوڑ دیا ہے۔عافیہ کی لیگل ٹیم نے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ نومبر ۲۰۱۲ کوسمری ججمنٹ کے بعد اس کا تفصیلی فیصلہ سیکنڈ سرکٹ کورٹ نے جاری کیا اور عافیہ کی اپیل خارج کر دی۔مئی ۲۰۱۴ میں نئے وکیل نے عافیہ کی اپیل دائر کی مگر جولائی میں عافیہ نے جج کو خط لکھا کہ مجھے امریکی لیگل سسٹم پہ کوئی اعتماد نہیں اور میں کسی قسم کے ٹرائل میں حصہ نہیں لوں گی۔ ن۹؍ اکتوبر ۲۰۱۴کو جج نے عافیہ کے خط کو قبول کرتے ہوے اپیل بند کر دی۔
بہر نوجہاں تک عافیہ کی گمشدگی کا تعلق ہے تو لگتا یہی ہے کہ ان کو ایجنسیوں نے گرفتار کیا اور شاید وہ بیچ میں رہا بھی ہوئی ہوں مگر دوبارہ شاید گرفتار کر لی گئیں۔ البتہ ان کی گمشدگی، ان کے دو بچوں کا لاپتہ ہونا اور بگرام کی خفیہ قیدی والا پہلو دھند کی ایک دبیز تہہ کے پیچھے ہے۔عافیہ کی گرفتاری اور ان کے اوپر الزامات کے حوالے سے میں شدید غیر مطمئن ہوں۔ میں معروف کالم نگار آصف محمود سے اتفاق کرتا ہوں کہ گرفتاری کی کہانی اور حملے کا ڈرامہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہ ممکن ہے کہ عافیہ کو کہیں پکڑا گیا ہو، ان سے’’ مشتبہ کاغذ ‘‘بھی برآمد ہوے ہوں، امریکی ٹیم سے بھاگنے کی کوشش پر ان کو گولی ماردی گئی ہو اور پھر بندوق اٹھانے وغیرہ کی کہانی بنا لی گئی ہو۔ پچھلے کئی سال کی دہشت گردی کی جنگ نے ہمیں اتنا تو سمجھا ہی دیا ہے کہ ایجنسیوں کا لگایا ہر الزام اور بتایا ہر واقعہ سچ نہیں ہوتا۔ حیرت کا باعث یہ امرہے کہ آخر ایجنسیز کو یہ سب ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ عافیہ کو گوانتانامہ بے جیل رکھا جا سکتا تھا، مار کر پھینکا جا سکتا تھا لیکن اس کے بجائے ایک ایسا مقدمہ کیا گیا جو ہمیشہ سوال بنا رہے گا۔ شاید ابھی بھی بہت کچھ پردے کے پیچھے ہے جو وقت آنے پر لیک شدہ ڈاکیومنٹس سے سامنے آئے گا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب جیل اسپتال میں ہیں، جہاں وہ اپنی سزا پوری کریں گی۔ مجھے امید ہے کہ شاید سیاسی طور پر کبھی دونوں حکومتیں کوئی ایسی ڈیل کر پائیں گی جہاں اسلام آباد کوئی امریکی مجرم انہیں واپس دینے کی شرط پر بطور بار گین عافیہ صدیقی کو واپس لا سکیں۔ البتہ یہ افسوس ہے کہ ایک قابل پی ایچ ڈی ڈاکٹر خود اپنی ذات، اپنے خاندان، خاص طور پر اپنی اولاد اور ملک وقوم کے فائدے کاکوئی کام نہ کر سکیں۔