سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ،بڈگام
گذشتہ ہفتےجموں و کشمیر میں آٹھویں جماعت کے نتائج سامنے آئے۔ لگ بھگ ایک لاکھ دس ہزار کے قریب امیدواروں نے امتحانات میں شرکت کی اور97 فیصد کامیاب ہوئے۔ معصوموں کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ کیوں نہ ہوں بارہ سال مسلسل پڑھنے کے بعد اس کا پھل اچھے نمبرات کی شکل میں آیا۔ طلبہ کے علاوہ گھر کے دوسرے افراد بھی بہت خوش تھے۔ وہ بھی اپنے بچوں کو گلے لگا کر اُن کو دعائیں اور آگے بڑھنے کی نصیحت کر رہے تھے۔ زندگی میں اس قسم کے مواقع بہت کم آتے ہیں کیونکہ آگے چل کر ذمہ داریوں کا بوجھ انسان کو دبا دیتا ہے اور پھر خوشی اور غم کے لمحات کا دھیان نہیں رہتا ہے اور زندگی مشین کی طرح ہوجاتی ہے۔وجود احساسات سے خالی رہ جاتا ہے۔ اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ کامیابی کی خوشی تو بجا ہے، مگر حقیقی کامیابی کچھ اور ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی مستقبل میں امتحانات کی بھرمارہے۔ ہار جیت زندگی کا حصہ ہے، جو کامیابی سب سے زیادہ ضروری ہے وہ یہ کہ کیا طلبہ نے حقیقی کامیابی کی طرف بھی کچھ قدم بڑھائے ہیں یا نہیں۔ ان نونہالوں کے اذہان پر زیادہ کھیل کود اور مستی کی چھاپ ہوتی ہیں۔ کیا ان کی زندگیوں کو ہم نے کسی حقیقی منزل طرف گامزن کیا بھی ہے کہ نہیں۔ یہ اس مضمون کا بنیادی مقصد ہے۔ عارضی کامیابی ایک طرف، کیا زندگی کی کامیابی کی طرف کوئی پہل ہو رہی ہے۔اب جو بچہ ناکام ہوا، کیا اس کا کل نہیں ہے۔ اس کو جینے کا حق نہیں ہے۔ کیا نمبرات ہی ذہانت اور جینے کا معیار ہے؟
پڑھائی کا بنیادی مقصد ہے ایک طالب علم اپنی زندگی اچھے طریقے سے جی سکے۔ دوسرے الفاظ میںاُس نے زندگی کے اُتار چڑھاؤ میں اپنی راہ کیسی بنانی ہے، یہ علم سکھاتا ہے۔ جب اندھیروں کے پہاڑ منہ کھولے ہوئے ہوں ، اُس وقت روشنی کا منتظر رہنا، علم کہلاتا ہے۔ ہمارے یہاں نمبرات اور اول پوزیشن کو ہی علم مان لیا گیا ہے۔ ایک بچہ اگر عمر بھر اول آکر بھی اگر زندگی کی دوڑ میں ہار جاتا ہے، تو یہ پڑھائی کسی کام کی نہیں ہے۔ حالات سے لڑنا، غموں کے ساتھ چلنا، حقیقی روشنی حاصل کرنا،وغیرہ ہی علم ہے۔ میں نے خود اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بارہویں جماعت میں، میں نے 92 فیصد مارکس حاصل کئے، اُس وقت ایسا لگا تھا کہ اب زندگی میں کچھ اور کرنے کو نہیں رہا ہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔ ہر طرف تعریفوں کے پھول نچھاور کئے جارہے تھے تو مجھے لگا تھا کہ زندگی کی نائو کو کنارہ مل گیا ہے۔ مگر جب آہستہ آہستہ چیزوں کی حقیقت کا علم ہوتا گیا، تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ پڑھائی اور زندگی کا رشتہ تب ہی سودمند ہے جب علم زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرے۔ میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر وہی حالات کا صحیح مقابلہ کرپاتے ہیں جو حقیقی زندگی کے لئے عزم و استقلال کے ساتھ لڑتے ہیں۔ جو طلبہ کتابوں تک محدود ہوتے ہیں، وہ زندگی کے اصلی شعور سے بہت دور ہوتے ہیں۔روایتی تعلیم حاصل کرکے زندگی کا صحیح ادراک نہیں ہوسکتا ہے۔ ایک آدمی کا قول ہے مجھے سب سے زیادہ علم تجربات سے حاصل ہوا ہے۔ لوگوں کے رویوں کو دیکھ کر میں نے مختلف اذہان کا مشاہدہ کیا اور زندگی کے متعلق اپنا ایک زاویہ تعمیر کیا۔ اس سے میری زندگی آسان بن گئی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بیشتر پڑھے لکھے طلبہ ذہنی افراتفری کا شکار ہیں۔ برسوں کی محنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رائیگاں دیکھتے ہوئے اُن کے کلیجے پھٹنے کو آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے پڑھائی کے دائرے کو بہت محدود کیا ہے۔ پڑھائی راہ دکھاتی ہے، نہ کہ راہ سے بھٹکا دیتی ہے۔
میں نے اس موضوع کو آٹھویں جماعت کے طلبہ کو مبارکبادی دیتے ہوئے شروع کیا تھا۔ میں پھر سے اُن کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مگر میں ان کے اذہان کو اور بھی مسائل کی طرف مائل کرنا چاہتا ہوں۔ سماج میں برائیاں کھبی ختم نہیں ہونگی۔ اُن کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، تو اس لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ پڑھائی کے علاوہ آپ سماج کی تمام باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پڑھنے کے بعد بھی ہم سب کو اسی سماج میں رہنا ہوتاہے۔ ایک ہندو سوامی کی بات مجھے اچھی لگی ہے۔ وہ کہتے ہیں گوتم بُدھ سے اس کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ سارے لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ہم یہاں سے کہیں دور بھاگ جائیں۔ اس کے جواب میں گوتم بدھ نے کہا کہ جہاں ہم جائیںگے، اگر وہ بھی ایسے ہی ہوں تو پھر کیا کریںگے۔ اگر پوری دنیا میں گالیاں کھانی پڑیں، تو پھر کہاں جاؤں گے؟ اس واقع نے میرے ذہن کے دریچے کھول دیئے۔ ہمیں یہی جینا اور مرنا ہے، کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ منشیات، قتل، حسد، لوٹ ،کورپشن ،جھوٹ ،بے ایمانی ،لالچ وغیرہ کے درمیان اپنا راستہ بنانا ہے۔ میں پھر سے دُہراتا ہو ںکہ گناہ ختم نہیں ہونگے۔ ان کا وقوع پذیر ہونا طے ہے۔ اب ہم پر منحصر ہےکہ ہم کیسے چلتے ہیں،جس کے لئے پورا دھیان اور گیان بھی چاہیے۔ ایسا گیان جو آپ کو سرٹیفکیٹس سے اوپر دیکھنے پر مجبور کرے۔ اسناد کا انبار لگا کر کون حقیقی منزل تک پہنچ گیا ہے؟ مگر وہ ضرور پہنچا ہے جس کا دھیان پورا اورپورا تھا۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے حقیقی علم کی ضرورت ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ علم کو علم کے معنوں میں پڑھا اور پڑھایا جائے۔ ہر کسی کو اس میں پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا بہت سارا وقت ضائع ہوچکا ہے، ہم اور وقت ضائع کرنے کی تاب نہیں لاسکتے ہیں۔ کائنات ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں پوری طرح کھولیں۔ نونہالوں کو شروع سےہی زندگی کے اُتارو چڑھاؤ سے روشناس کریں۔ مثبت اور منفی میںفرق واضح کریں۔ ان میںڈسپلن اور consistency جیسی خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ گورنمنٹ کو بھی پڑھائی کا معیار تبدیل کرنا ہوگا۔ مارکس اور اول پوزیشن کی باتیں اب آج کے زمانے کے ساتھ میل نہیں کھاتی ہیں۔ یہ اُس بیتے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں جب زندگی سادہ اور پیچیدگیوں سے پاک تھی۔ آج زندگی انتہائی پیچیدہ ہے۔ ہم سےیہ بہت کچھ مانگتی ہے۔ آج کا زمانہ تلوار کی دھار کے مترادف ہے جس پرپر چلنے کے گُن اور ہُنرسے واقف ہونا لازمی ہے۔ اس کھیل میں خطرات کی کوئی کمی نہیں ہیں، تو ایسے میں طلبہ کو بھی اس قسم کی ذہنیت سے لیس کرنا چاہیے جو ان کو زندگی کے منجدھارکو پار کرنے میںمعاون و مددگار ثابت ہوسکے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]