تارت پورہ ہندواڑہ کے ایک طالب علم کی مشکوک حالات میں ہلاکت نے ایک بار پھر زیر حراست ہلاکتوں اور فرضی جھڑپوں کے موضوع کو زیر بحث لایا ہے کیونکہ مذکورہ مہلوک نوجوان کے لواحقین نے فوج کے اس دعوے کو قطعی طور مسترد کر دیا ہے کہ مذکورہ طالب علم ایک عسکریت پسند تھا اور ہفرڑہ کے جنگل میں جھڑپ کے دوران مارا گیا۔ تازہ معاملہ بادی النظر میں ہی کافی مشکوک لگ رہا ہے کیونکہ انتظامیہ نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ مہلوک نوجوان کے خلاف پولیس میں کوئی ریکارڈ درج نہیں ہے اور یہ کہ متعلقہ تھانہ کی جانب سے ان کے لواحقین کو اس حوالہ سےNo Objection Certificateبھی فراہم کیا گیا ہے۔ لواحقین کے مطابق مذکورہ نوجوان ذہنی دبائو کا شکار تھا اور چند روز سے لاپتہ تھا۔ضلعی انتظامیہ نے اگر چہ معاملے کی مجسٹریل تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم اس سے عوام کے بھڑ کے ہوئے جذبات ٹھنڈے ہوسکتے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے ، کیونکہ ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایسے واقعات میں سرکاری تحقیقاتوں سے عوام کا اعتبار اُٹھ چکا ہے۔ حقیقت یہی ہےاب تک متعدد ایسے واقعات کی تحقیق و تفتیش ہوئی ہے، لیکن کبھی کسی پہ ہاتھ ڈالا گیا ہے، ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ثابت شدہ معاملات میںملوثین کو بری کرکے نہ صرف عوامی اعتماد کا کھلا مذاق اُڑایا گیا ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ چند ہی روز قبل مژھل فرضی انکائونٹر میں فوجی عدالت سے سزا یافتہ اہلکاروں کو الزامات سے بری کرکے رہا کر دیا گیا۔ اس طرح فوج کے نظام عدلیہ کے اعتبار کو ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس طرح کا طرز عمل لاقانونیت کو ہوا دینے کی بنیادی وجہ بنتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ موجودہ واقع اس وجہ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل کہ ابھی چند روزقبل ہی وزیراظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی دیواروں سے یہ اعلان کیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ’’ گولی اور گالی‘‘ سے حل نہیں ہوگا بلکہ اسکے لئے لوگوں کو گلےلگانا ہوگا۔ اس بیان کے بعد یہ اُمید پیدا ہو چلی تھی کہ فورسز کی جانب سے عسکریت پسندوں کےخلاف شروع کی گئی مہم کے دوران عام شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائیگا۔ لیکن جھڑپوں کے مقامات پر شہری ہلاکتوں نے اس غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی اور اب تارت پورہ کے واقعہ نے اُن اُمیدوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے، جو وزیراعظم کے بیان سے پید اہوئی تھیں۔ ایسے واقعات اور ان کے مضمرات سے کوئی ناواقف نہیں، کیونکہ 2010میں مژھل فرضی جھڑپ کے نتیجہ میں پیش آئے عوامی ردعمل اور اس کے دوران پیش آمدہ ہلاکتوں اور اقتصادی تباہی کی داستانیں ابھی بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اُسکے بعد وقفے وقفے سے پیدا شدہ عوامی اُبال کشمیر کی رواں سیاسی صورتحال کا حصہ ہے اوراس اُبال کو اس ماحول سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، جو ایسے واقعات سے تیار ہوتا ہے۔ مژھل معاملے میں یہ بات ثابت ہوگئی تھی چند فوجی افسران نے ترقیوںاور مالی مفادات کی خاطر نہتے شہریوں کو عسکریت پسند جتلا کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہیںسلامتی اداروں کے اندر یہ رجحان نئے سرے سے پنپ تو نہیں رہا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جسکا حکومت اور سیکورٹی اداروں کے ذمہ داروں کو جواب تلاش کرنا چاہئے۔ ایک روز قبل کی بات ہے جب فوج کے سابق سربراہ جنر ل ہڈا نے بغیر کسی لاک لپٹ کے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ فوجی کاروائیوں اور ہلاکتوں سے کشمیر مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کےلئے مذاکرات اور بات چیت کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ فی الوقت حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہندوارہ واقعہ کا سنجیدہ نوٹس لیکر معاملے کی دیانتداری اور منصفانہ تحقیقات کرکے حقائق کو سامنے لانے میں کوئی پس و پیش نہ کرے، کیونکہ کشمیر کے حوالے سے ملک بھر میں فی الوقت میڈیا اور سیاستدانوں کی جانب سے جو مہم شروع کی گئی ہے، اُسکے طفیل ایک منفی ماحول کی تشکیل کی رفتار دو چند ہوسکتی ہے، جو بہر حال نقصان دہ اور تباہ کُن ہوسکتی ہے۔