دنیا پچھلے سال کی طرح اس سال بھی کووڈ 19 وبائی مرض کی لپیٹ میں رہی ہے اور اس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ جیسا کہ بل گیٹس نے کچھ دن پہلے ٹویٹ کیا تھاکہ ’’جس طرح ایسا لگتا تھا کہ زندگی معمول پر آجائے گی تاہم ہم وبائی مرض کے بدترین حصے میں داخل ہو سکتے ہیں۔اومیکرون ہم سب کے لیے گھر پہنچ جائے گا۔اومیکرون تاریخ کے کسی بھی وائرس سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ جلد ہی دنیا کے ہر ملک میں ہوگا‘‘۔ اس نئے کورونا وائرس کے متعدی ہونے پر عالمی اتفاق رائے ہے حالانکہ ابھی تک اومیکرون کی وجہ سے ہونے والی بیماری کی شدت پر ماہرین کے درمیان اختلاف نظر آتا ہے۔لوگوں کو انتہائی محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہوئے گیٹس نے پیش گوئی کی کہ’’اگر یہاں کوئی اچھی خبر ہے، تو یہ ہے کہ اومیکرون اتنی تیزی سے حرکت کرتا ہے کہ ایک بار جب یہ کسی ملک میں غالب ہو جاتا ہے، تو وہاں لہر تین ماہ سے بھی کم رہنی چاہئے۔ وہ چند مہینے خراب ہو سکتے ہیں، لیکن مجھے پھر بھی یقین ہے کہ اگر ہم نے درست قدم اٹھایا تو 2022 میں وبائی مرض ختم ہو سکتا ہے‘‘۔ گیٹس کے جائزوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا چاہے۔ وہ وبائی امراض کے ماہر یا وائرولوجسٹ نہ ہوںتاہم انہوں نے ایک طویل عرصے تک متعدی امراض کا مطالعہ کیا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ماورا مسائل پر اپنی بصیرت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کووڈ 19 کے خلاف عالمی ردعمل میں اب تک اس بات کی کوئی یقین دہانی نہیں ہے کہ عالمی برادری "صحیح اقدامات" کرے گی۔ بین الاقوامی برادری کے کثیرالجہتی سربراہی اجلاسوں میں اظہار خیال اور یقین دہانیوں کے باوجود اس لعنت سے نمٹنے کے لیے جو کچھ دیکھا گیا ہے وہ عالمی سطح پر اختلاف ہے۔ بڑی طاقتوں کے پاس وبائی مرض سے لڑنے کے لئے مشترکہ نقطہ نظر کو تیار کرنے کی خصوصی ذمہ داری تھی اورہے۔ چین کے ووہان میں 2019 میں کووڈ 19 کے ظہور کے آغاز سے ہی اس وائرس سے نمٹنے کے لئے مشترکہ عالمی حکمت عملی تیار کرنے کی خواہش کا فقدان نظرآیا ہے۔
بڑی طاقتوں کو اپنے اختلافات کو ختم کرنا چاہئے تھا اور اپنے اور دیگر عالمی ماہرین کو وائرس سے نمٹنے کیلئے حکمت عملیوں کی سفارش کرنے کا حکم دینا چاہئے تھا۔ اس طرح کے نقطہ نظر کیلئے عالمی رہنماؤں خاص طور پر امریکہ اور چین کی دانشمندی کی ضرورت ہے۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلے وائرس کے خطرات کو کم کیا اور اس کے بعد بے ترتیب اور بعض اوقات عجیب و غریب موقف اختیار کیا۔1918-20کے انفلوئنزا کے بعد سے سب سے بڑے عالمی صحت کے بحران سے نمٹنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر بین الاقوامی برادری کی قیادت کرنا کجا،ٹرمپ نے چین کے حق میں تعصب کا مظاہرہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے عالمی ادارہ صحت (WHO) سے امریکہ کو باہر نکال دیا۔ یہ درست ہے کہ 2020 کے ابتدائی مہینوں میں ڈبلیو ایچ او کا طرز عمل غیر تسلی بخش تھا کیونکہ اس نے چین پر اتنا دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ نئے کورونا وائرس کے بارے میں معلومات فراہم کرے لیکن اس کا جواب یہ ہوتا کہ امریکہ ڈبلیو ایچ او کے اندر معاملات کو درست سمت میں لے جاتا۔ اس کے بجائے ٹرمپ ،جس کی توجہ پوری طرح سے صدارتی انتخاب جیتنے پر مرکوز تھی،نے اپنے مجموعی 'امریکہ فرسٹ' کے نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے انسولر بننے کا فیصلہ کیا۔ یہ اچھا تھا کہ ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن نے ڈبلیو ایچ او کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کو پلٹ دیا اور امریکہ نے اس تنظیم میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی ہے۔
صدر شی جن پن چین کو عظمت کی راہ پر گامزن کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ اس لئے وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے سے قاصر ہیں جس سے چین کو خراب روشنی میں دکھایا جائے۔ لہٰذا، ووہان میں 2019 کے آخر میں نئے کورونا وائرس کے ظہور کے بارے میں ان کا فطری ردعمل چین پر تنقید سے بچنے کے لئے معلومات کے بہاؤ کو محدود کرنا تھا۔ انہوں نے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کرنے کے لئے ایک مشترکہ عالمی ردعمل کو جلد شروع کرنے سے روک دیا۔ درحقیقت جب آسٹریلیا نے ڈبلیو ایچ او کے ذریعہ کووڈ 19 کی اصل کی تحقیقات کے لئے دباؤ ڈالا تو چین نے اس کے خلاف سفارتی اور تجارتی کارروائی شروع کی۔ کچھ اشارے ہیں کہ شی جن پن نے ٹرمپ کو وائرس کے بارے میں آگاہ کیا تھا لیکن یقینا جس چیز کی ضرورت تھی ،وہ یہ تھی کہ چین دنیا کو تیزی سے آگاہ کرے۔ مزید برآں، پچھلے دو سال میں چین نے امریکہ کے ساتھ اپنے مقابلے کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھایا ہے اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنانا جاری رکھا ہے۔کووڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی نقل مکانی اور بہت زیادہ پریشانی کے باوجود امریکہ اور چین اپنی جغرافیائی و سیاسی مسابقت کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ایسے میںاس بات کا بہت کم امکان ہے کہ بین الاقوامی برادری "صحیح اقدامات" کرے گی۔ ان اقدامات کو اس اصول پر عمل کرنا ہوگا کہ وبائی بیماری اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ یہ ہر جگہ ختم نہ ہوجائے۔ بڑی طاقتیں اورباقی عالمی برادری اس اصول کو قبول کرتی ہے اور اسے ویکسین ایکویٹی جیسے عمدہ فقروں میں ڈھالتی ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک کے اقدامات ان کے انفرادی مفادات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ یہ مغربی ممالک کی طرف سے ویکسین کی ذخیرہ اندوزی سے ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ ذخیرہ شدہ ویکسین جہاں ضرورت تھی وہاں بھیجنے کے بجائے ضائع ہو گئی ہیں۔ ایسے حالات میں قدرتی طور پر ہر ملک اپنے عوام کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے وہ کرنے پر مجبور ہے۔بل گیٹس کے الفاظ کو اب بھی عالمی رہنماؤں کو مشترکہ نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کرنے پر اکسانا چاہئے لیکن یہ امکان اگر ناممکن نہیں تو بہت دور لگتا ہے۔ اس لئے تمام ممالک بشمول بھارت کو اپنے مفادات کا خود ہی خیال رکھنا چاہئے۔