مجاہد عالم ندوی
اسلام ایک ایسا پاکیزہ اور مکمل دین ہے جو انسانیت کی اصلاح و فلاح کے لیے اُتارا گیا ہے۔ اس کے اندر تمام تر انسانی وسائل کا حل موجود ہے ، خواہ ان کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے ، اسلام ہر مسئلہ کو بہت ہی نرالے اور واضح انداز میں بیان کرتا ہے ۔
عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلی آرہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے ، نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے ، اور 31 دسمبر کی رات میں 12 بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے ، کیک کاٹا جاتا ہے ، ہر طرف ہیپی نیو ایئر کی صدا گونجتی ہے ، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام ہوتے ہیں ، جس میں شراب مختلف طرح کے نشے اور جوئے کا انتظام کیا جاتا ہے ، آج ان عیسائیوں کی طرح ہم بھی جشن منانا شروع کر دیا ہے جبکہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے ۔دنیا میں دو قسم
کا کلینڈرموجود ہے ، ایک ہجری کلینڈر اور دوسرا عیسوی کلینڈر۔ مسلمانوں کا اصلی کلینڈر عیسوی نہیں بلکہ ہجری ہے ، اس کا آغاز محرم الحرام سے اختتام ذی الحجہ کے مہینے پر ہوتا ہے ، جب کہ عیسوی کلینڈر کا آغاز جنوری سے اور اختتام دسمبر کے مہینے پر ہوتا ہے ۔
مسلمانوں کے لیے عیسوی سال کی ابتدا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے ، اسی طرح سالگرہ ، برتھ ڈے پارٹی ، ویلنٹائن ڈے ، یہ سب غیر مسلموں کی رسمیں ہیں ، جنہیں منانا ، اس میں شرکت کرنا ، دعوت قبول کرنا ، یہ سب اسلام میں جائز نہیں ہے ۔
اگر کسی دین کو بطور یادگار منانے کا کوئی جواز ہوتا یا اس میں کوئی عمدگی ہوتی تو ہم اس دن کو بطور یادگار مناتے ،جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سب سے بڑا انعام عطا کیا تھا ، وہ تھا دین کا مکمل کرنا ، جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو مکمل ہونے سے تعبیر کیا اور قرآن میں اس انعام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ، صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کا اس طرح کی رسم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
یاد رکھیے! یہ سب غیروں کا طریقہ ہے ، نئے سال کے ذریعہ ہمیں مزید اعمال صالحہ کرنے کا موقع ملا، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اور اپنے سابقہ اعمال کا جائزہ لے کر ُبُرے اعمال سے توجہ اور اچھے اعمال میں اضافہ کی کوشش کی جائے ۔ نئے سال کا آغاز ہم مسلمانوں کے لیے شرعی اعتبار سے کچھ بھی نہیں ہے ، اگر ہے تو بس اتنا کہ اللہ تعالیٰ نے جو عمر ہمارے لیے مقرر کی تھی ،اس عمر میں سے زندگی کا ایک اور سال گزر گیا ، گویا کہ جس نئے سال کا جشن منایا جا رہا ہے حقیقت میں بیوقوف انسان اپنی زندگی کے ایک سال کم ہونے کا ماتم کرتا ہے ، جسے وہ اپنی خوش فہمی میں جشن کا نام دے رہا ہے ۔ غور کریں! یہ موقع خوشی سے زیادہ غم کا ہے ، یہ سماعت ، یہ موقع ، یہ جشن و خوشی کا نہیں بلکہ نصیحت پکڑنے کا ہے ، کیونکہ سال گزرنے سے عمر گھٹتی ہے ، اس لیے ہم مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے ۔ ہمارے دین و اخلاق ، اعمال و کردار میں کمی تو نہیں؟ عبادت میں کوتاہی تو نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت میں غفلت تو نہیں ،جس کی وجہ سے حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھے ہیں؟ والدین ، رشتہ دار اور پڑوسیوں کے حقوق میں کمی تو نہیں رہ گئی ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کر دیتا ہے ، اس لئےکہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کر دیتی ہے۔ اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتا ہے ۔
ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں ۔ ہمیں ہجری سن دوسرے مروجہ سن سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے ۔ ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑا گیا ہے ، تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں ، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بآسانی طے کر سکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
(رابطہ۔ 8429816993)
[email protected]