این ڈی ٹی وی پر فسطائی حملہ

Kashmir Uzma News Desk
11 Min Read
این ڈی ٹی وی کے ساتھ جو کچھ حکومت ہند نے کیا وہ ملک میڈیا (ذرائع ابلاغ) کی تاریخ میں کبھی نہ ہوا تھا یہ میڈیا کی عالمی تاریخ نہ سہی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تاریخ میں اس قسم کی آمریت و فسطائیت کا مظاہرہ شاید ہی ہوا ہو بلکہ ایسا ظلم انگریزوں نے بھی نہیں کیا ہوگا جو حکومت اپنے سرکاری ترجمان ڈاکٹر سمبت پاترا کی ناشائستگی اور اخلاق سے عاری حرکات پر این ڈی ٹی وی کی جرأت مند میزبان (اینکر) ندھی رازدان نے ان کو آئینہ دکھایاتو ان کی بے عزتی پر اصولوں اور قانون کی جس طرح دھجیاں اُڑانے کا کام صرف آر ایس ایس حکومت ہی کرسکتی ہے۔یہاں  ہمارا موضوع گفتگو این ڈی ٹی وی کے دفتر اور اس کے مالکان کے گھروں پر غیر قانونی طور پر مارے گئے چھاپے نہیں ہیں بلکہ ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ یہ خیال بڑی حدتک غلط ہے کہ میڈیا کا موافق مودی حکومت یا سنگھ پریوار رویہ دبائو کا نتیجہ ہے یا حکومت نے میڈیا کو خریدلیا ہے۔ اصل بات ہم شروع میں ہی کہہ دیں کہ آزادی سے قبل میڈیا پر خاص طور پر انگریزی اخبارات پر ’’ہندومہاسبھا‘‘  (آج کل بی جے پی) اور آر ایس ایس کا اثر تھا ۔ان اخبارات کے زیادہ تر مالکان ہندو سرمایہ دار تھے۔ میڈیا کی اصطلاح مروج نہ تھی بلکہ اس کی جگہ ’’پریس‘‘ کہا جاتا تھا۔ ٹی وی کا وجود نہ تھا قومی میڈیا یا پریس زیادہ تر انگریزی اخبارات (ٹائمز آف انڈیا، اسٹیٹسمین، ہندوستان ٹائمز، ہندو، نیشنل ہیرالڈ، امرت بازار پتریکا، ڈان اور سیول اینڈ ملٹری گزٹ (ڈان سول اینڈ ملٹری گزٹ موافق مسلم لیگ اخبارات تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے تھے) انگریزی اخبارات کے بعد اردو اخبارات ہی اہمیت رکھتے تھے۔ ہندی اخبارات برائے نام تھے۔ انگریزی اخبارات کے ساتھ اردو اخبارات اور ملیالم، ٹامل، مراٹھی اور بنگالی کے علاقائی اخبارات سے ’’قومی پریس‘‘ تشکیل پاتا جس میں زیادہ اہمیت انگریزی اخبارات کی تھی۔
انگریزی اخبارات کے مالکان ہندو سرمایہ دار تھے جوٹ کے کاروبار کے مالک ہونے اور کولکتہ کی نسبت سے یہ ’’جوٹ پریس‘‘ کہلاتا تھا، یہ تمام افرادہندو فرقہ پرست سرمایہ دار ’’مہاسبھائی‘‘ فکر اور ذہنیت رکھتے تھے۔ آج کے میڈیا کی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کا آغاز و ابتداء آزادی سے پہلے ہوئی تھی، یہ اسی دور کا سلسلہ ہے۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ آزادی کے بعد حکومت اور اردو دشمنوں کی اردو دشمنی اور خود اردو والوں کی بے حسی، بے غیرتی اور مادری زبان سے عدم رغبت نے اردو اخبارات کو بتدریج اس حال تک پہنچادیا حکومت اور ہندی والوں کی سرپرستی نے ہندی پریس کو اردو کے درجہ پر پہنچایا اور قومی پریس انگریزی اور ہندی کا ہوکر رہ گیا جو اخبارات پہلے مہاسبھائی پھر جن سنگھی پھر بھاجپائی مالکان کے قبضے میں تھے، آج بھی وہ اخبارات (انگریزی وہندی) اپنی ذہنیت و روش پر قائم ہیں۔ ویسے اب یہ حکومت کے زیر اثر ہی نہیں مکمل تابعدار بن کر رہ گئے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اس صدی کے آغاز میں جب نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے نام پر پولیس اور ایجنسیوں کی مسلمانوں کے خلاف ہر رپورٹ اور کارروائی کو حرف بہ حرف صحیفۂ آسمانی سمجھ کر بے بنیاد ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا پروپیگنڈہ ہوتا تھا۔ آزادی کے بعد مسلم کش فسادات اور خبروں کی رپورٹس انگریزی اخبارات میں ہمیشہ یک طرفہ اور مسلمانوں کو ہی قصور وار بتانے والی ہوتی تھیں۔ مسلمان ہی نقصانات کا شکار ہوتے تھے اور فسادات شروع کرنے کے لئے موردِ الزام ہوتے تھے۔ 
بات دراصل یہ ہے کہ بڑے بڑے ہندو سرمایہ دار شروع سے ہی ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس، جن سنگھ اور بی جے پی کے سرپرست رہے اور ہیں ان ہی کی وجہ سے بی جے پی برسر اقتدار آئی تاہم یہ نہ سمجھا جائے کہ بڑے سرمایہ دار کانگریس کے ساتھ نہ تھے۔ 
بی جے پی ہی کی واجپائی حکومت میں میڈیا کی روش آج سے خاصی مختلف تھی لیکن سنگھ پریوار نے 2009ء میں بی جے پی کی شکست کے بعد اگلے انتخابات میں حکومت پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی۔ سنگھ پریوار کی تیاریوں میں ٹی وی چینلز کا اہم رول تھا۔ یہ بات بیشتر قارئین جانتے ہیں کہ ٹی وی چینلز کے بیشتر مالکان اور انتظامیہ کے علاوہ ایڈیٹرس ، رپورٹرس، تجربہ نگار اور نیوز ریڈرس بی جے پی سے متاثر تھے بلکہ بیشتر تو بی جے پی سے وابستہ تھے۔ ان سب نے مل کر بی جے پی کے لئے کام شروع کردیا۔ سنگھ پریوار کے سرپرست اور مشیر صیہونیوں، اسرائیل اور موساد نے پریوار کی بھر پور مدد کی کانگریس سے نفرت، گجرات ماڈل، مودی کی شخصیت اور صلاحیت کو جادوئی بناکر پیش کیاگیا۔ یہ سب بلاشبہ پروپیگنڈہ کا ہی اثر تھا عوام میں کانگریس سے ناراضگی کی لہر چلاکر مودی کی زیرقیادت بھاجپا کو اس کا متبادل مان کر 31 فیصد ووٹرس نے مودی کا ساتھ دیا مخالف مودی ووٹس تقسیم کروائے گئے اور ملک میں پہلی فسطائی یا بھاجپائی حکومت قائم ہوگئی جو این ڈی اے کی مخلوط ہونے کے سبب مودی حکومت سے مختلف تھی۔
میڈیا کا 90 فیصد حصہ تو پہلے ہی زعفرانی رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چند چینلز اور صحافی حق کے علمبردار بن کر میڈیا کی آبرو بنے رہے جب کہ بھاری اکثریت اقتدار کی چھتر چھایا میں رہنے کے شوق میں میڈیا کو حکومت کا بھونپوبنادیا۔سوال یہ نہیں ہے کہ بیشتر ٹی وی چینلز حکومت کا پروپیگنڈہ کیوں کررہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ حکومت کا پروپیگنڈے اور تائید و حمایت ہی نہیں بلکہ بھاجپا نوازی اور صحافتی غیر جانبداری کی تمام حدود کو پار کرنے کا آخر کیا جواز ہے؟ حکومت اور مودی کی مخالفت آخر کیوں گوارہ نہیں ہے؟ تقریباً سارا میڈیا ہی حکومت کے طے کردہ ڈھانچوں کے مطابق خود کو ڈھال چکا ہے جو چند سرپھرے (کرن تھاپر، برکھادت، روش کمار اور راج دیپ جیسے ہیں ان سے رسم ِو فا زندہ ہے لیکن ہر مخالفت کو کچل دینے والی مودی حکومت کی غلام سی بی آئی کا بغیر کسی ایف آئی آر کے اندراج کے این ڈی ٹی وی کے خلاف کارروائی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت خوف زدہ ہے۔ جھوٹی پارٹی کے جھوٹے حکمران کے جھوٹے ترجمان بلکہ ترجمانوں کے جھوٹ اب زیادہ دن چلنے والے نہیں ہیں۔
ٹی وی کا یہ رویہ بھی ناپسندیدہ ہے کہ نہ صرف دنیا بلکہ ملک کے حالات کا ٹی وی پروگراموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے نیز کسی غیر اہم مسئلہ (نان ایشو) کو اہم مسئلہ بناکر اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ ملک کا اہم مسئلہ یہی ہے فون کے جوانوں کے ساتھ ملک بھر میں کہیں بھی کچھ ہو کوئی بات نہیں چاہے خود فوج کے باورچی خانے سے جلی ہوئی روٹیوں اور صرف نمک اور ہلدی ڈال کر ابالی ہوئی دال کھلائی جائے اور شکایات پر اس کو برطرف کردیا جائے، یہ سب کوئی بات نہیں لیکن جموں و کشمیر میں فوج کو جو اہمیت دی جاتی ہے وہ ناقابل فہم ہی نہیں بلکہ بے جواز بھی ہے۔ راشٹریہ رائفلز کے میجر گوگوئی نے بیروہ کشمیر کے فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال بناکر جو زیادتی کی ہے، اس کی سراہنا آرمی چیف کے بیانات اور میجر گوگوئی کی پذیرائی اور اعزاز سے سرفرازی ناقابل قبول ہے۔ اسی طرح جنرل بپن راوت کی سیاسی قائدین کی طرح بیان بازی اور کشمیری عسکریت پسندوں اور احتجاجی بچوں کے خلاف جارحانہ بیانات فوجی روایات کے خلاف ہیں لیکن میڈیا پر اس کی تعریف صرف بھگوا ذہنیت کا اظہار ہے اور جنرل راوت پر معقول اعتراض کرنے والوں کو غدار، قوم مخالف، وطن دشمن کہنا احمقانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے۔
بی جے پی کا متعصب میڈیا پر زبردست اثر کا اندازہ اس کی خبروں، رپورٹس، تبصروں اور مباحثوں سے ہوتا ہے۔ بی جے پی کے تمام ترجمان فخرو غرور میں سرشار نظر آتے ہیں۔ ان کا دوسرے مخالفوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ صحافتی اخلاق و پروٹوکول کے منافی ہیں۔ کانگریس سونیا گاندھی راہل، لالوپرساد اور کجریوال پر ذاتی حملے اور توہین آمیز حملے صحافتی اخلاق ہی نہیں سماجی واخلاقی اصولوں کے منافی ہیں یہ کانگریسیوں کی بے غیرتی بے شرمی اور بے حسی کا ثبوت ہے۔ اس سے زیادہ بے غیرتی و بے شرمی ٹی وی اینکرس کی ہوتی ہے جو پریوار سے متعلق کسی فرد کو کچھ کہنا، ان کی بے ہودگی پر اعتراض کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ سمبت پاترا، راکیش سنہا، ونود بنسل اور کئی اینکرس ٹی وی پر علانیہ فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے المیہ کے بعد سمبت پاترا کا غرور اور جارحیت بڑھ گئی ہے۔
گاؤ رکھشک ہوں، پریوار کے گرم گفتار نیتا اور کارکنوں کے ساتھ میڈیا کے لوگوں کو مودی سرکار کھلی چھوٹ دے کر اپنا مقصد پورا کررہی ، اپنا ایجنڈہ روبہ عمل لارہی ہے اور یہ سب کچھ ملک کیلئے خطرناک ہے، خاص طور پر میڈیا کی جانب سے حکومت کی کاسہ لیسی،غلامی اور تابعداری! 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *