این ڈی ٹی وی پر بھی دھاوا!

Kashmir Uzma News Desk
10 Min Read
آج ہم ذرائع ابلاغ کے دور میں جی رہے ہیں ۔ایک ایک شخص میڈیااور اس کا حصہ بنا ہوا ہے۔ایسے میں کسی حقیقت کا چھپایا جانا ممکن نہیں ہے یعنی سچائی دبائی جا سکتی ہے لیکن دفن نہیں کی جا سکتی۔ہر شخص ہر بات اور واردات کوسمجھ رہا ہے جو اس کے ارد گرد ہو رہا ہے اور جو حالات اور واقعات اس سے دور وقوع پذیر ہو رہے ہیں اُن کے متعلق بھی اُسے معلومات بہم پہنچ رہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ اُس پر وہ شدید ردعمل کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ اس کے وسائل محدود ہیں اور یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہے کہ ’’ایک اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا؟‘‘ لیکن جن کے پاس وسائل ہیں اور وہ کچھ کارگر کام انجام دینا چاہتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں تو انتظامیہ اُن کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔جمہوریت میں میڈیا کو چوتھا ستون کہا گیا ہے یعنی میڈیا کی آزادی ہر چیز پر مقدم ہے۔جہاں جمہوریت نہیں وہاں پرمیڈیا کی موجودگی اور عدم موجودگی دونوں ہی برابر ہے کیونکہ وہاں میڈیا برائے نام ہی ہوتا ہے۔اُسے حکومت کا صرف ڈھنڈورچی کہا جاتا ہے۔وہاں کا میڈیا صرف خبریں ترسیل کرسکتا ہے ،تجزیے اور تبصرے کا اُسے حق نہیں ہوتا۔اسی لئے غیر جمہوری ممالک میں میڈیا کی وہ حیثیت نہیں جو جمہوری ملکوں میں ہے۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ،اس سے کسی کو انکار نہیں ،آر ایس ایس اور بی جے پی بھی اس کی پابند ہیںکیونکہ اسی جمہوریت کو اپنا کر بی جے پی اقتدار تک پہنچی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد اس کے تیور اور طور طریقے بدلے بدلے نظر آرہے ہیں جن کو ایک عام شہری بھی محسوس کر رہا ہے۔جمہوریت کی آڑ میں وہ سارے کام انجام دئیے جا رہے ہیں جو آمریت پسند ملکوں کا خاصہ ہیں ۔حکومت اپنے مخالفین پر شکنجہ کس رہی ہے اور ناجائز طریقوں سے اپنی ایجنسیوں کو استعمال کر کے اُنہیں ڈرا دھمکا رہی ہے تاکہ وہ اس کی مخالفت نہیں کر سکیں اور دوسروں کی طرح ہاں میں ہاں ملائیں ۔
حکومت کا تازہ شکار این ڈی ٹی وی نیوز چینل ہے جس کے مالکان کے گھروں اور دفتروں پر بیک وقت سی بی آئی کے چھاپے پڑے۔ اس کی جو وجہ بتائی گئی وہ اِتنیکمزور اور ناقابل ِاعتبار ہیکہ اس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونے کو بھی جی چاہتا ہے۔وہ یہ کہ ایک پرائیوٹ بینک کے کسی شیئر ہولڈرنے یہ اعتراض جتایا ہے کہ جو قرض این ڈی ٹی وی نے مذکورہ بینک سے لئے تھے ،اُن کو چکانے میں چینل کے مالکان نے کوتاہی برتی بلکہ بینک کے ساتھ تصفیہ کر لیا۔اسی بنیاد پرمذکورہ شیئر ہولڈر نے مختلف عدالتوں میں عرضی بھی دی تھی جہاں اُسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا یعنی کہ عدالتوں نے اُس کے پٹیشن کو خارج کر دیا تھا۔جن عرضیوں کو عدالتوں نے ٹھکرا دیا اُنہیں کو بنیاد بنا کر سی بی آئی نیچھاپے مارے ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے اشارے پر سارا کام انجام دیا جا رہا ہے ۔کیا یہ دلچسپ نہیں کہ گزشتہ تین برسوں میں حکومت سے قریب سمجھے جانے والوں میں سے کسی ایک پر بھی حکومت کی کسی ایجنسی یعنی سی بی آئی ،سی آئی ڈی ،این آئی اے ،اِ ی ڈی یا شعبہ ٔ انکم ٹیکس کا کوئی چھاپا نہیں پڑا؟کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جو حکومت کے ساتھ ہیں وہ دودھ کے دھلے ہوئے ہیںباقی سب بے ایمان ؟چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ بڑا ہی مایوس کن ہے ۔ انتخابات سے پہلے پارٹی بدلنے کی ایک ہوڑ مچتی ہے۔ اپنے اپنے مفاد کے لئے افراد اُس پارٹی میں چلے جاتے ہیں جس کے برسرِ اقتدار آنے کی توقع رہتی ہے ۔پارٹی بدلنے کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ یہ رہتی ہے کہ کہ اُن کے ’’مال‘‘ اور اُن کے ’’کارناموں‘‘پر پردہ پڑا رہے ۔گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے لے کر حالیہ بلدیاتی انتخابات تک میں یہ بات دیکھی جا سکتی ہے۔اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں تو پتہ چل جائے گا کہ لوک سبھا کی سیٹوں سے لے کر مختلف ریاستی اسمبلیوں کی سیٹوں نیز بلدیوں تک میں آدھے سے زیادہ لوگ جو بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے ہیں ،وہ اصلاً دوسری پارٹیوں کے ہیں۔اس سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ اپنے مفاد اور مال کے تحفظ کے علاوہ متوقع حکومتی پارٹی میں اس لئے چلے جاتے ہیں تاکہ انہیں حکومت تبدیل ہونے کے بعد ہراساں نہ کیا جائے ۔تین برسوں کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ جو افراد حکومت کے ساتھ ہیں اُنہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی حکومت نے غیر بیانیہ ایک ایجنڈا طے کر رکھا ہے یعنی کہ جو اُس کے ساتھ نہیں ہے وہ اس کا دشمن ہے،جیسا کہ نائین الیون کے بعد جارج بُش نے کہا تھا کہ ’دہشت گردی کی لڑائی میں جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہے‘۔این ڈی ٹی وی کا اپنا ایک موقف،وقار اور مزاج ہے۔اس کی خبریں اور تجزئیے اور تبصرے بے لاگ اور بے باک تو ہوتے ہی ہیں ، تعصب سے پاک بھی ہوتے ہیں ۔اسی لئے حکومت اور بھ مودی کتوں کو یہ چینل ایک آنکھ نہیں بھاتابلکہ وہ اسے اینٹی بی جے پی اور حکومت مخالف سمجھتے ہیں ۔یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ خبروں کے سیکڑوں چینلوں میں صرف ایک چینل کو ایسا سمجھا جاتا ہے اور اس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کس قدر خطرے سے دوچار ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ تمام چینل حکومت کو آئینہ دکھاتے،جنہیں دیکھ کر حکومتیں اپنی اصلاح کرتیںلیکن افسوس کہ ہمارے چینل وہی سب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ،جو حکومت دیکھنا اور سننا چاہتی ہے۔موجودہ حکومت اقتدار کے نشے میں اِس قدر چور ہے کہ اسے اپنے کسی فیصلے پرنہ تو نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے،نہ ہی وہ تنقیدبرداشت کرتی ہے۔اس کے پاس اتنی طاقت آگئی ہے جس سے آمریت کی بو آنے لگی ہے ۔ این ڈی ٹی وی نے سی بی آئی کے اس اقدام کو نہایت ہی غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ اس کے ہر دلعزیز اینکر رویش کمار نے حکومت کے سربراہ کو چیلنج پیش کیا ہے کہ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر کیمرے کے سامنے بات کریں تاکہ عوام بھی دیکھ لیں اوراس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے لیکن ’’اکثریت ‘‘ سے منتخب حکومت بھلا ایسا کیوں کرے ؟گزشتہ برس بھی حکومت نے ایک روزکی پابندی اسی چینل پر لگائی تھی لیکن چہار جانب سے احتجاج کے بعد حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔حکومت نے تین برسوں میں یہ پیغام واضح طور پر دیا ہے کہ وہ اپنے خلاف بولنے والوں کو نہیں بخشے گی ۔ پی چدمبرم، لالو یادو اور ممتا بنرجی کے خلاف چھاپوں کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے لیکن سیاسی پنڈت اب یہ کہنے لگے ہیں کہ ممکن ہے این ڈی ٹی وی پر یہ حملہ حکومت کے لئے بد شگون ثابت ہو اور بی جے پی کے زوال کا یہیں سے آغاز ہو۔ممکن ہے کہ پارٹی اور حکومت اس کا توڑ بھی ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کرے لیکن جس طرح سے حزب اختلاف مودی حکومت کی ناک میں دم کئے ہوا ہے ،لگتا نہیں ہے کہ یہ حکومت سنبھل سکے گی۔ این ڈی ٹی وی پر حملے اور پھر کسانوں کے احتجاج نے جو رُخ اختیار کیا ہے ،اس سے اس خیال کو تقویت ملنے لگی ہے کہ مودی حکوت کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ یہ تو بی جے پی کے لئے اچھا ہے کہ سر پر کوئی الیکشن نہیں ورنہ اسے نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ صدرِ مملکت ہند کا جو انتخاب ہونے والا ہے اُس کے لئے پارٹی نے اب تک کوئی پتہ نہیں کھولا ہے۔یہاں بھی بی جے پی کا غرور سر چڑھ کر بول رہا ہے۔اسے اس کی قطعاً پروا نہیں کہ صدرِ ہند سب کی پسندکا ہو،وہ بس عوام پر اپنا فیصلہ تھوپنا چاہتی ہے اور اس کے لئے اندر ہی اندر کوئی بڑ اگیم کھیل رہی ہے۔
 نو ٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریر نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں،
 رابطہ 983399883
 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *