سرینگر//نیشنل کانفرنس نے اندرونی خود مختاری کی بحالی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کہا ہے ’’یہ قوم بندوق سے ڈرنے والی نہیں ہے،بلکہ حکومت ہند کا مقابلہ کرتی رہے گی‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکز نے ہماری ایک چیز چھین لی،اور ہماری محبت کو کھبی نہیں سمجھا۔جموں کشمیر کو عداوت کی سب سے بڑی شکار ریاست قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے مذاکراتی عمل میں وضاحت اور سنجیدگی کے علاوہ مسئلہ کشمیر کو اندرون اور بیرون فریقین کے ساتھ پائیدار گفت و شنیدسے حل کرنے سے متعلق قرارداد کو منظور کیا ۔ نیشنل کانفرنس کی طرف سے سرینگر میں قریب15برس کے عرصے کے بعد مندوب اجلاس کے دوران پارٹی نے گریٹر اٹانومی کی بحالی کی وکالت کرتے ہوئے’’ حکومت سے طاقت اور دھونس دبائو کی پالیسی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو ایک بار پھر پارٹی کا سربراہ (صدر) منتخب کرلیا گیا ۔ فاروق عبداللہ کو بدستور نیشنل کانفرنس کا صدر برقرار رکھنے کا فیصلہ ہفتہ کے روز ہونے والی پارٹی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں لیا گیا ۔ اتوار کو شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقد تاریخی ڈیلی گیٹس سیشن میں اس فیصلے کو کشمیر اور جموں خطوں کے صوبائی صدور اور ڈیلی گیٹس حضرات کی تائید حاصل ہوئی‘۔
ڈاکٹر فاروق
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے خطاب کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کیا۔انہوں نے وفاقی حکومت کو مخاطب ہوکر کہا’’جس کا وعدہ حکومت ہند نے کیا تھا،ہم آج اسی کی بات کرتے ہیں،تو کیا ہم غدار ہیں،اور کیا یہ اس محبت کا تحفہ ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ محبت سے جڑ گئے،مگر انہوں نے ہماری محبت کو سمجھا ہی نہیں۔مرکزی پر کشمیر سے ہر ایک چیز چھیننے کا الزام عائد کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا’’تم نے ہماری ہر ایک چیز کو چھین لیا،پھر بھی کہتے ہو ہم آپ کے نعرے بلند نہیں کرتے‘‘۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ قوم تب تک بھارت کے نعرے بلند نہیں کرے گی،جب تک انکے دلوں کو جیتا نہیں جاتا۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’اگر کشمیری عوام کے دلوں کا جیتنا ہے،تو اندرونی خود مختاری واپس کی جائے‘‘۔سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم کے حالیہ بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چدمبرم نے غلط نہیں کیا،بلکہ انہیں کانگریس سے افسوس ہے۔انہوں نے مرکز سے مخاطب ہو کر کہا’’تم نے ہمارا سب کچھ چھین لیا،اب تو واپس کرئو،اب کس چیز کا انتظار ہے‘‘۔ موجودہ مرکزی حکومت پر برستے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا’’آج کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگوں کو طاقت سے دبائے گی‘‘۔انہوں نے کہا کہ فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کہتے ہیں’’فوج اپنی کارروائی جاری رکھے گی‘‘،جبکہ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا ،کیا سب کو مارا جائے گا،تاہم قوم دبنے والی نہیں ہے۔ڈاکٹر عبداللہ نے کہا’’جنرل صاحب ایک بات یاد رکھو،کیا آپ لاکھوں لوگوں کو ماروگے،یہ قوم تمہارے بندوقوں سے دبنے والی نہیں ہے‘‘۔انہوں نے فوج کو مخاطب ہوکر واضح کیا کہ ’’یہ نہ سمجھا جائے کہ بندوق چلا کر آپ ہمارے جذبات کو مجروع کرو گے،بلکہ ہم آج بھی زندہ ہیںاور کل بھی زندہ رہیں گے،اور آپ کا مقابلہ کرینگے‘‘۔
عمر عبداللہ
کار گزار صدر عمر عبداللہ نے مندوب اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اصولوں کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں۔انہوں نے کہا’’ہم الیکشن لڑتے ہیں،تاہم ہم نے کھبی یہ نہیں کہا کہ اقتدار ہماری منزل ہے،بلکہ ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اقتدار منزل حاصل کرنے کا ایک راستہ ہے‘‘۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ جموں کشمیر میں دوبارہ امن قائم ہو۔لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ تھم جائے،روز مرہ کے خون خرابے کا خاتمہ ہو اور تباہی سے نجات ملے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس چاہتی ہے کہ جو وعدے کشمیری عوام کے ساتھ کئے گئے ہیں،انکا ایفاء کیا جائے اور’’ہمیں عزت سے جینے کا حق دیا جائے‘‘۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ کھبی کھبار غلطیاں ہوتی ہیں،اور انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔عمر عبداللہ نے کہا’’یہ صحیح ہے کہ کھبی کھبار غلطیوں کی وجہ سے ہم راستہ بھول جاتے ہیں،یہ انسانی فطرت ہے،اور ہم فرشتے نہیں،تاہم ہم نے اپنی غلطیوں سے کافی کچھ سیکھا‘‘۔انہوں نے کارکنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میں یہ کہنے سے ہچکچائوں گا نہیں’’ اسٹیج پر بیٹھے نیشنل کانفرنس کے لیڈران بشمول میں،خود کو گناہ گار سمجھتے ہیں،کہ اقتدار کے دوران ہم کارکنوں کو بھول جاتے ہیں،اور جب اقتدار کھوتے ہیں،تو کارکنوں کی یاد ستاتی ہے‘‘۔عمر عبداللہ نے کہا کہ اندرونی خودمختاری پاکستان سے حاصل نہیں کرنی ہے۔ یہ ہمیں امریکہ یا برطانیہ سے حاصل نہیں کرنی ہے۔ یہ ہمیں ہندوستان کے آئین سے حاصل کرنی ہے جس میں یہ پہلے سے ہی درج ہے‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کا موازنہ کسی بھی صورت میں ہندوستان کی دوسری ریاستوں جیسے گجرات، ہریانہ، تامل ناڈو اور کیرالہ سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ’یہ آپ بار بار جموں وکشمیر کا موازنہ گجرات، ہریانہ، تامل ناڈو اور کیرلا سے کیوں کرتے ہو۔ میں اس وقت وزیر اعلیٰ تھا جب میں نے اسمبلی میں تقریر کی اور کہا کہ ہمارا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوا ہے اور ہماری ریاست ہندوستان کے ساتھ ضم نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی شناخت اور پہنچان کو محفوظ رکھنا ہے۔ ہمارا اپنا آئین ہے۔ ہمارا اپنا جھنڈا ہے۔ آپ ہمارا موازنہ دوسری ریاستوں کے ساتھ نہیں کرسکتے ‘۔ عمرنے کہا کہ اگر آئین کے تحت بات کرنا اور آئین کے تحت کچھ مانگنا ملک دشمنی ہے تو ہمیں یہی پسند ہے۔ انہوں نے کہا ’جب جموں وکشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہوا تو مرکز کا کنٹرول صرف تین چیزوں پر تھا۔ یہ آئین میں درج ہے۔ اور جو ہم کہتے ہیں کہ اس کو دوبارہ بحال کیا جائے تو آپ کہتے ہو کہ ہم ملک دشمن ہیں۔انہوں نے کہا’مجھے یہ بتایئے جس نمائندے کو آپ نے کچھ دن پہلے بات چیت کے لئے نامزد کیا ہے وہ یہاں کیا کرنے آرہا ہے ؟ جب اندرونی خودمختاری پر بات کرنا ملک دشمنی ہے تو پھر آپ کیا بات کریں گے۔ ایسا نہیں کیا گیاتو مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگا‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاست کے حالات اس قدر بھیانک ہیں کہ آج جن نوجوانوں کو پولیس کی نوکری دی جاتی ہے، وہی نوجوان اپنی بندوق لیکر ملی ٹینٹ بننا زیادہ پسند کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحبہ مجھے آپ کی وہ تقریر یاد ہے جس میں آپ نے کہا کہ عمر عبداللہ نے برہان وانی کو پیدا کیا۔ اگر میری زیادتیوں سے برہان وانی پیدا ہوا تو میں اس کے لئے ذمہ دار ہوں۔ لیکن آپ خدا راہ بتایئے کہ آپ نے ان تین سالوں میں کتنے برہان وانی اور کتنے ذاکر موسیٰ پیدا کئے‘۔انہوں نے کہا ’جن حالات میں ہم نے ریاست کو پی ڈی پی ، بی جے پی کو سونپ دیا تھا، وہ حالات آج کہیں نظر نہیں آرہے۔ اس ریاست کا ایساکوئی خطہ نہیں ہے جہاں آج لوگ شکایت نہیں کررہے ہیں۔ جہاں لوگ پریشان نہیں ہیں۔ آج لوگ 2014 ء میں کئے گئے فیصلے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ اس حکومت کے معرض وجود میں آنے کی قیمت ہمیں کتنی صدیوں تک چکانی پڑے گی، آج شاہد ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے‘۔
قرارداد
قرار داد کو منظور کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے آئین ہند کی دفعہ370کے تحت ریاست کی بااعتبار اندرونی خودمختاری کی بحالی کا پھر اعادہ کیا، جس کا پورا خاکہ جموں وکشمیر کی قانون سازیہ کی منظور کردہ اٹونامی دستاویز میں پیش کیا گیا ہے۔قرارداد میں دو ہمسایہ ملک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بھی دوستانہ تعلقات جلد اُستوار ہونے پر زور دیا گیا،اور اُن کے درمیان بامقصد مذاکراتی عمل شروع ہو اور چھوٹے موٹے اختلافات سے اُوپر اُٹھ کر دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے میں سرگرم ہوکر، معاہدئہ شملہ اور لاہور اعلامیہ کو پھر سے تازگی بخشی جائے،جس سے ریاست جموں وکشمیر کے علاوہ برصغیر میں امن، دوستی، ترقی اور تعمیر کا دور شروع ہو۔ قرارداد میں اس بات کو بھی منظوری دی گئی کہ دفعہ35-Aکے خاتمے کے لئے جو ریشہ دوانیاں کی جارہی ہیں، اُن کو مسترد کیا جانا چاہئے،اور یہ سب کچھ ریاست کی فرقہ دارانہ ہم آہنگی کے علاوہ ہندوستانی جمہوریت کے انسانی چہرے کو مسخ کرنے کا وسیلہ بنائی جارہی ہے اور ہماری جماعت اِن کیخلاف پورے زور سے صف آراء رہے گی۔قرارداد میں کہا گیا کہ نیشنل کانفرنس ریاستی عوام کی عزت و آبرو کے قیام کے علاوہ یہ بات بھی اُبھارنا چاہتی ہے کہ تنازعہ کشمیر کے تصفیے کے داخلی اور خارجی سطحوں پر بامقصد اور غیر مشروط مذاکرات شروع کئے جائیں اور اِس کے لئے خارجی اور داخلی فریقین کو اِن مباحث میں شامل کیا جائے۔ منظور شدہ قرار داد میںنیشنل کانفرنس کوتحریک آزادی کی پیش رو اور ہر اول دستہ قرار دیا گیا،جبکہ اس بات کی وضاحت کی گئی کہریاست کا ہندوستان سے الحاق باقی ریاستوں کے برعکس کچھ خاص حالات اور شرائط کے تحت عمل میں لایا گیاتھا،جس کو دستور ہند کی دفعہ370کی صورت میں ہی شامل کیا گیا ۔ قرارداد میں کہا گیا کہ جموں وکشمیر کے اطراف و اکناف میں پائی جانے والی پریشان کُن صورتحال پر نیشنل کانفرنس نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ ریاست میں جوابدہی کا فقدان ہے،انتظامی اور تعمیراتی عمل مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، ورک کلچر بری طرح بگڑ چکا ہے۔ کرفیو، ہڑتالیں، بندشیں اور سیکورٹی کے محاصرے روزہ مرہ کے معمول بن گئے ہیں جبکہ اس قدر غیر یقینیت کا ماحول ماضی میں کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ مزید کہا گیا کہ ریاست میں ہر جگہ، سڑکوں، گلی کوچوں حتیٰ کہ گھروں میں بھی خوف و دہشت کا ماحول پایا جاتا ہے۔ اس مایوس کُن ماحول میں ریاست کی معاشی حالت بُری طرح بگڑ جانا قریب قریب طے دِکھ رہا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ریاست میں جی ایس ٹی کے نفاذ سے یہاں کی مالی خودمختاری کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ حکمران پی ڈی پی بھاجپا گٹھ جوڑ نے اپنی ڈولتی ہوئی کرسی بچانے کیلئے ریاستی عوام سے دھوکہ کیا۔اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ آئین ہند کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو جو مالی اٹانومی اور خصوصی مرتبہ حاصل ہے اُس کے مخالف تب سے بڑے چائو سے خوشیاں منا رہے ہیں جب سے یہ مبہم اور نفرت انگیز قرارداد ریاستی اسمبلی میں پاس کی گئی۔ مندوب اجلاس میں علی محمد ساگر،شیخ مصطفی کمال،عبدالرحیم راتھر،چودھری محمد رمضان،سکینہ یتو،دیوندر سنگھ رانا،ناصر اسلم وانی، جاوید رانا،شمیمہ فردوس،مبارک گل،سلمان علی ساگر،احسان پردیسی اور سمیر اقبال سمیت دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔