سرینگر// ریاست کی صورتحال کو آتشی قرار دیتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں نے یک آواز میں مذاکراتی عمل کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ’’ریاستی دہشت گردی ‘‘ کو ختم کیا جائے۔ اپوزیشن لیڈران نے شہری ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی حل اور انتظام سے یہ تنازعہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ خصوصی اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے سابق گورنر گریش چندر سکسینہ، علی محمد نائک،سابق وزیر سردار نگیل سنگھ،سابق راجیہ سبھا ممبر نظام الدین شاہ،شانتی دیوی اور ریشی کمار کوشل کو یاد کرتے ہوئے خراج عقیدت ادا کیا۔اس موقعہ پر نیشنل کانفرنس کے ممبر اسمبلی محمد شفیع اوڑی نے وادی کی صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنوری سے اب تک بیسوں معصوم شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ مارچ سے تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔انہوں نے کہا’’ ریاست میں دہشت گردی کا ماحول مسلط کیا گیا ہے‘‘۔مذاکرات کو جمہوریت کی روح قرار دیتے ہوئے محمد شفیع اوڑی نے ریاستی ومرکزی حکومتوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ مخلوط حکومت اپنا ہی ایجنڈا بھول چکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی بات کرتے ہیں ،تو دوسری طرف مذاکرات کے سارے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ اوڑی نے موجودہ مخلود حکومت پر الزام عائد کیا کہ سرکار نے ریاست میں ریاستی دہشت گردی شروع کررکھی ہے جبکہ ریاست مرکز کے طاقتی حربوں پر چل رہی ہے۔ان کا کہناتھا کہ ایک طرف روزانہ کی بنیاد پر مرکزی وزیر داخلہ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی بات کرتے ہیں ،لیکن دوسری جانب مذاکرات کے تمام در وازے بند کر رکھے ہیں ۔انہوں نے مزاکرات کو جمہوریت کی روح قرار دیتے ہوئے کہا ’اگر آپ بات نہیں کریں گے ،تو آگے کیسے بڑھیں گے‘۔سابق وزیر نے کہا کہ نئی دلی شمالی مشرقی ریاستوںمیں بات تو کررہی ہے لیکن کشمیر میں زوردار طریقے سے عسکری حربے استعمال کررہی ہے۔انہوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے مخاطب ہوکر کہا کہ سرکار ریاستی دہشت گردی بند کر کے افہام وتفہیم کے ساتھ ساتھ صبر وتحمل کا راستہ اختیار کرے۔ان کا کہناتھا کہ’کچھ بھی صحیح سمت نہیں جارہا ہے ‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیرمیں ایک مزاحمتی تحریک ہے جسے طاقت کے بل دبایا نہیں جاسکتا ۔ان کا کہناتھا کہ حکومت کومذاکرات کے دروازے کھولنے ہونگے اور ان سے بات کرنی ہوگی ،جن کا نظریہ علیحدہ ہے۔ ان کا کہناتھا’کشمیر اس وقت جل رہا ہے ،اگر آپ اس آگ کو اور بھڑکائیں گے ،تو ہم سب نذر آتش ہوجائیں گے ‘۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا ’ کیا نقصان ہوتا اگر ماہ رمضان میں کریک دائون اور تلاشی کارروائیوں اور دیگر آپریشن بند کئے جاتے؟‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال پر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو ایوان میں جواب دینا چاہئے ۔ محمد شفیع اوڑی نے کہا کہ لوگوں کو چینٹیوں کی طرح مارا جاتا رہا ہے اور اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہوئے ہیں ۔انجینئر رشید نے کہا کہ میں فوج اور پولیس کی طرف سے آج بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ بھی اس صورتحال کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو بدنام کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ انکے فوجی سربراہ نے تمام آبادی کو بالائی زمین کارکن نہیں کہا۔انہوں نے کہ بھارت ،کشمیر میں اٹانومی دینے کیلئے تیار نہیں تاہم ہمیں اٹانومی منظور نہیں بلکہ رائے شماری چاہیے۔انہوں نے کہا کہ این آئی اے چھاپوں سے مزاحمتی لیڈروں کو بھی شک و شبہ کے گھیرے میں ڈالا گیا ہے اور آج سید علی گیلانی کی یہ بات ثابت ہوئی کہ’’ بھارت بات چیت میں شامل کر کے کشمیری لیڈروں کو رسوا کرنا چاہتاہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ گیلانی کے بغیر تمام حریت لیڈروں نے بھارتی قیادت سے بات کی تھی۔اور اب صورتحال ایسی بن رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں’’ بھارت بات چیت کیلئے از خود پہل کرے گا اور انہیں ذاکر موسیٰ سے بات کرنی پڑے گی‘‘۔ اس موقعہ پر کانگریس کے جی ایم سروڑی نے کشمیری میں کشت و خون کیلئے مخلوط سرکار پر الزام عائد کرتے ہوئے مزکراتی عمل کی وکالت کی ۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے،جبکہ نوجوانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔سروڑی نے پی ڈی پی سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کے سیلف رول میں چھوٹے بچوں کو اندھا کرنا لکھا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ بات چیت کے راستوں کو بند کیا گیا۔سروڑی نے وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہو کر کیا’’ سکوٹی اور لیپ ٹاپ دینے سے بچوں کے آنکھوں کی بنیائی واپس نہیں آئے گی‘‘۔انہوںنے کہا کہ جموں کشمیر میں پی ڈی پی کا نہیں بلکہ فوجی سربراہ کا قانون اور حکومت چلتی ہے۔ پی ڈی ایف کے صدر حکیم محمد یاسین نے تشدد کی پالیسی کو ختم کر کے بات چیت کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے3ماہ حلف لینے میں لگائے تھے تاکہ ایجنڈا آف الائنس پر کام کیا جائے اور اب وہ کیا ہوا۔اس موقعہ پر سی پی ایم کے محمد یوسف تاریگامی نے بتایا کہ کشمیر کو قبرستان بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپس میں بات چیت کی بھی ضرورت ہے،جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے پہل بھی شروع کی تھی اور وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے ملاقات کی تھی جس کے دوران انہیںکشمیر مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوںنے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس درد کا حل فوج نہیںہے بلکہ صورتحال سے نکلنے کیلئے سیاسی طور پر پہل شروع کرنے کی ضرورت ہیں۔