یہ خوُب کیاہے یہ زشت کیا ہے،جہاں کی اصلی سرشت کیاہے
بڑا مزہ ہے، تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کردے
حفیظ جالندھری
گزشتہ دنوں جموں شہر میں پرانے راجواڑہ شاہی کے حامیوں جاگیردار او ر ساہو کار طبقہ سے تعلق رکھنے والے عناصر اور ان کی اولاد کے نوجوانوں نے مہاراجہ ہر ی سنگھ کے جنم دن پر تعطیل کرنے کے مطالبے پر بڑا اُدوھم مچائی، جلسے، جلوس اور مظاہرے کئے ۔ روایتی طورپر راجواڑہ شاہی کے ان حامی عناصر کی طرف سے غوغا آرائی نہ تو حیران کن ہے اور نہ ہی غیر متوقع ہے، البتہ جموں وکشمیر کے محنت کش عوام جنہوںنے راجواڑہ شاہی دورمیںظلم وستم سہاہے، غیر انسانی سلوک برداشت کیاہے، جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کا شکار رہے ہیں، ساہوکارانہ فریب کاریوں سے تباہ حال ہوئے ہیں، بالائی طبقوں کے ظالمانہ سلوک کو برداشت کیاہے،بے گار جیسے وحشیانہ سلوک کے ہدف رہے ہیں، فرقہ وارانہ اور ذات براداری کے غیرانسانی رویہ کو سہتے رہے ہیں، انہوں نے اس قسم کے غیر معقول مطالبہ کی نہ پہلے کبھی حمایت کی ہے اور نہ اب کی بار اس مطالبہ کا ساتھ دیا۔ جن محنت کش عوام نے راجواڑہ شاہی کے خاتمہ کے لئے قربانیاں دی ہیں، سینکڑوں افراد نے شہادت کی خونین قبائیں زیب تن کی ہیں، ہزاروں افراد نے ٹکٹکیو ںکو سہاہے، ہزاروں افراد نے جیلوں کی تاریک کوٹھریوں میں زندگی بسر کی ہے، وہ یاان کی اولاد کے اس قسم کے غیر معمول مطالبہ کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں جس کا مقصد دوبارہ جاگیردارانہ اور ساہو کارانہ نظام کے قیام کے لئے راستہ صاف کرناہے؟ وہ کیسے اس مطالبہ کی حمایت کرسکتے ہیںجس کا بنیادی مقصد جاگیردارانہ نظام اورساہو کارانہ نظام کی بحالی ہے لیکن اس سلسلہ میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس پارٹی کے کچھ لیڈروں کا رویہ انتہائی موقع پرستانہ اور دوغلا رہاہے۔ ان دونوں پارٹیوں کے کچھ لیڈروں نے روایتی رجواڑہ شاہی کے حامی عناصر سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کی ہے اور ایسا کرنے میں ذرا بھر بھی ندامت وشرمندگی محسوس نہیںکی بلکہ فاخرانہ انداز میں یہ مذموم کاروائی انجام دی جس نے ان کے موقع پرستانہ اور دوہرے کردار کو یکسر بے نقاب کردیاہے۔نیشنل کانفرنس جوکہ جموںوکشمیرمیں راجواڑہ شاہی کے خاتمہ، جمہوریت کے قیام، بلا معاوضہ زرعی اصلاحات ، ساہو کاری نظام کے خاتمہ کی علمبردار ہونے کی دعویدار ہے ،کے کچھ لیڈروں بشمول دیوندر سنگھ رانا صوبائی صدر کی طرف سے اس مطالبہ کی حمایت انتہائی نا قابل برادشت ہے۔
جموں وکشمیر میں راجواڑہ شاہی کے خاتمہ کی منظم تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مہاراجہ ہری سنگھ اس ریاست کے حکمران تھے۔ اولاً مسلم کانفرنس اور بعد ازاں نام تبدیل کرکے نیشنل کانفرنس کے قیام کے بعد شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میںاس جماعت نے تحریک آزادی اور راجواڑہ شاہی سے نجات کی تحریک میں رہنما یا نہ کردار ادا کیا۔ اس جماعت کی آواز پر جموں وکشمیر کے تمام حصوں اور مظلوم طبقات نے اس جدوجہد میںبھر پور حصہ لیا۔ اس تحریک کو کچلنے کے لئے مہاراجہ کی انتظامیہ نے جو مظالم ڈھائے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس تحریک کو کچلنے کے لئے مارشل لاء تک نافذ کیاگیا، برطانوی افواج کی مدد لی گئی۔ ریاست کے کئی مقامات پر عوام کے سینے گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کیاگیا، میرپور ضلع میں دو نوجوانوں کو تختہ وار پر لٹکادیا گیا، ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں کی تاریک کوٹھریوں میں بندکیاگیا، کوڑے لگوائے گئے اور ٹکٹکیو ں پر چڑھایا گیا۔ اس دورمیں راجواڑہ شاہی کے خلاف تحریک کو کچلنے کے لئے کوئی ایسا متشدانہ حربہ نہیں ہے جو بروئے کار نہ لایاگیا۔ ان مظالم کی داستان بیان کرنے کے لئے اخبار کے اوراق کافی نہیں ہیں، کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ یہ سارا ظلم وستم اس مہاراجہ کے دورمیںہوا جس کے جنم دن پر تعطیل کے مطالبہ کی آج کی نیشنل کانفرنس کے کچھ لیڈر بشمول صوبائی صدر دیوندر رانا حمایت کررہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ان لیڈروں کی سیاسی بے بصیرتی کیا ہوسکتی ہے؟؟؟
13؍جولائی کو سرینگر کے جیل خانہ کے صحن میں بیسوں افراد کو شہیدکیاگیا جن کی یاد میں آج تک نیشنل کانفرنس کے سمیت مختلف پارٹیاں یوم شہداء مناتی ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے عہد میں ہی اس روز باقاعدہ سرکاری تعطیل کا اعلان کیاگیا اور اس روز سرکاری طورپر شہدائے کشمیر کو پولیس کی سلامی دی جاتی ہے۔ ان شہیدوں کاخون اس وقت بہایا گیا جب وہی مہاراجہ حکمران تھا جس کے جنم دن پر تعطیل کے مطالبہ کی حمایت آج کے نیشنل کانفرنسی لیڈر کررہے ہیں۔ عوام سے بے وفائی اور بے اعتنائی کی اس سے بڑھ کر اور کیا بڑی مثال ہوسکتی ہے؟ یہی نہیں بلکہ جموںوکشمیر میں راجواڑہ شاہی کی تحریک میںمجلس احرار اور دیگر صوبوں کے سیاسی کارکنوں نے جوقربانیاں دیں، اُنہیں کبھی نظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔ اس تحریک کی حمایت میں سوچیت گڑھ سے لے کر کوہالہ تک ہزاروں مجاہد پابند سلاسل کئے گئے اور پتن گھٹیالیاں ( میرپور) اور سوچیت گڑھ میںدرجنوں نے جام شہادت نوش کیا ۔ نیشنل کانفرنس کے موجودہ لیڈر اُس دور کے حکمران کا جنم دن منا کر ستائش کرنے کا ناشکرانہ فرض ادا کرکے اپنی عوام دشمنی کا ثبوت نہیںدے رہے تو کیا کررہے ہیں؟ کشمیر چھوڑو کی تحریک کا مجموعی مقصد مہاراجہ کی بجائے حق خود ارادیت کی بنیاد پر جمہوری طرز حکومت کا قیام تھا جسے کچلنے کے لئے مہاراجہ نے کوئی کسر باقی نہ رکھی لیکن آج اسی تحریک کے کچھ ورثاء ہونے کے دعویدار اسی مہاراجہ کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے اس کے جنم دن پر تعطیل کے مطالبہ کی حمایت کررہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عوام اور تاریخ سے عدم توجہی کی اور کیامثال ہوسکتی ہے؟غور سے دیکھئے تو جس طرح بحری بیڑے کی 1946ء میں بغاوت پر ہندوستانی لیڈروں کے رویہ پر ساحرلدھیانوی نے کہا تھا ع اے رہبر ملک وقوم بتایہ کس کا لہو ہے کو ن مرا
نیشنل کانفرنس کے کچھ موجودہ لیڈروں سے بھی دریافت کیا جاناچاہیے کہ راجواڑہ شاہی اور شخصی حکمرانی کے خلاف قربانیاں دینے والے مجرم ہیں کہ ان پر مظالم ڈھانے والے مہاراجہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس کے جنم دن پر تعطیل کے مطالبہ کی حمایت کررہے ہیں؟اور پھر طرئہ یہ کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی برخواستگی کامطالبہ کرنے والے اور اُس کو برخو است کرانے والے خود نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ تھے لیکن کیا ستم ظریفی ہے کہ آج اسی شیخ محمد عبداللہ کی پارٹی کے کچھ لیڈر اسی مہاراجہ کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے تعطیل کے مطالبہ کی حمایت کررہے ہیں۔ خود شیخ محمد عبداللہ کی روح بھی موجودہ نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کے عجیب وغریب رویہ پر بلاشبہ شرمندگی محسوس کررہی ہوگی اور اپنی ناخلف جانشینوں پرآنسو بہا رہی ہوگی۔ ہم یہ چند سطور اس لئے لکھ چکے ہیں کیوں کہ نیشنل کانفرنس جب راجواڑہ شاہی کے خلاف جدوجہد کررہی تھی تو سن بلوغت میں پہنچنے سے پہلے ہی ہم نے گھربار اور عیش وآرام چھوڑ کرپارٹی میںشمولیت اختیار کرکے اپنی جوانی جیلوںمیںبسر کی یا انڈرگرائونڈ رہ کر زندگی گزاری اور پیشہ ور انقلابی بنے ۔ ہمیں دلی صدمہ ہے کیا نیشنل کانفرنس میں اب ایک فرد بھی ایسا نہیںرہا جو نیشنل کانفرنس کے ان موقع پرست اور دوچہرہ والے لیڈروں کے خلاف آواز بلند کرسکے؟ کیا یہ حالت ہے اس جماعت کی جس کا نیاکشمیرجیسا انقلابی پروگرام تھاا ور جس نے کشمیر چھوڑ دو جیسی انقلابی تحریک چلائی۔
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریادیوں کرتے
نہ کھلے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
یہ تو رہی نیشنل کانفرنسیوں کی بات ،ا ب کانگریسیوں کی موقع پرستی اور مناقفت دیکھئے۔ کانگریس کا کہناہے کہ وہ جموں وکشمیر میںراجواڑہ شاہی کے مقابلہ میں ہمیشہ نیشنل کانفرنس کی طرف سے راجواڑہ شاہی کے خلاف تحریک آزادی کی حمایت کرتی رہی ہے۔ یہ دُرست ہے کہ کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران جب شیخ محمد عبداللہ جیل میںتھے تو پنڈت جواہر لال نہرو عین اس وقت جب دہلی میں آزادی کے لئے برطانوی نمائندگان کے ساتھ اور مذاکرات چل رہے تھے ،کو بالائے طاق رکھتے ہوئے براستہ کوہالہ کشمیر آئے لیکن مہاراجہ نے گرفتار کرلیا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ان ایام میں مہاتما گاندھی بھی تحریک کشمیر کی حوصلہ افزائی کے لئے کشمیر اور جموں آئے لیکن آج اُسی کانگرس کے لیڈر جب اُسی مہاراجہ جس نے تحریک کشمیر چھوڑدو تحریک کچلنے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیاتھا ،کے حمایتی بن کر اُس کے جنم دن پر تعطیل کا مطالبہ کرنے والوں میںپیش پیش ہیں۔ اس سے بڑھ کر منافقت اور موقع پرستی کیا ہوسکتی ہے؟ یاد رہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کو سبکدوش مرکز کی کانگریس گورنمنٹ نے کیاتھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو اس سلسلہ میں اس قدر جذباتی تھے کہ اس دوران وہ ایک بار جموں میں آئے۔ اُن کا شاہانہ استقبال ہوا اور پریڈ گرائونڈ جموں میں جلسہ عام منعقد ہوا ۔ راقم اُس وقت نیشنل کانفرنس کا صوبائی جنرل سیکرٹری اور اس جلسہ میں سٹیج سکریٹری تھا۔ جواہر لال نہرو کے خلاف مہاراجہ کی برطرفی کے خلاف پرجا پریشد نے جلوس کے دوران مظاہر ہ کیا،تو جلسۂ عام میںبآواز بلند جواہر لال نہرو نے کہا کہ ہری سنگھ واپس نہیں آسکتا، نہیںآسکتا، نہیںآسکتا۔ لیکن آج کے کانگریسی اُسی مہاراجہ کو یاد کرتے ہوئے اُس کے جنم دن پر تعطیل کا مطالبہ کررہے ہیں !! اس سے بڑھ کر موقع پرستی کیا ہوسکتی ہے؟ المختصر ہماری عوام سے درخواست ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس سمیت لیٹرے طبقوں کی سبھی پارلیمانی پارٹیوں کی منافقت اور موقع پرستانہ پالیسیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہم توان کی کرتوتوں پراُن کے مخالف ہوتے ہوئے بھی شرمندہ ہیں۔
ہمارے دل میں کس قدر احترام آدمیت ہے
بدی کرتاہے دُشمن اور ہم شرمائے جاتے ہیں