سرینگر//نیشنل ہیلتھ میشن ایمپلائز اور دیگر مرکزی معاونت والی اسکیموں کے تحت کام کرنے والے ملازمین کی ہڑتال سے 28جنوری 2018کو بچوں کو قطرے پلانے کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ ہڑتال سے پلس پولیو مہم پر کوئی اثرپڑے گا تاہم نیشنل ہیلتھ میشن کے اعلیٰ افسران اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پلس پولیو مہم میں شریک ہونے والے لوگ دبائو کا شکار ہونگے۔ نیشنل ہیلتھ میشن ایمپلائزکی ہڑتال کی وجہ سے وادی کے دور افتادہ علاقوںجہاں طبی سہولیات متاثر ہیں وہیںقومی سطح پر چلائے جانے والے پلس پولیو مہم بھی متاثر ہونے کا اندیشہ لاحق ہوگیا ہے۔ملازمین کے کام چھوڑ ہڑتال کی وجہ سے محکمہ صحت اب پلس پولیو مہم میں آنگن واڑی ورکروں ،اساتذہ اور دیگر محکمہ جات سے وابستہ ملازمین کو شامل کرنے پر غور کررہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پلس پولیو مہم میں تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ پلس پولیو کے قطروں سے کئی بچوں میں بخار اور الرجی ہوتی ہے جسکی پہچان اور نشاندہی کیلئے قطرے پلانے والے شخص کا تربیت یافتہ ہونا لازمی ہے مگر کشمیر میں مہم کو کامیاب بنانے کیلئے غیر تربیتی یافتہ آنگن وارڈی ورکروں اور مختلف سکولوں میں تعینات اساتذہ کا استعمال ہوتا ہے۔ نیشنل ہیلتھ میشن ایمپلائز ایسوسی ایشن کے ترجمان عبدالروف نے کہا’’ پلس پولیو مہم میں اگر 1000بوتھوں کو قائم کیا جاتا ہے تو 700بوتھوں میں نیشنل ہیلتھ میشن اور دیگر مرکزی معاونت والی اسکیموں کے تحت کام کرنے والے لوگ ہی بچوں کو قطرے پلاتے ہیںاورــــ بوتھوں میں تعینات ڈاکٹر اور دیگر عملے مہم پر نظر گزر رکھنے کیلئے تعینات کئے جاتے ہیں۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر فیملی ویلفیر ڈاکٹر ڈولما نے کشمیرعظمیٰ کو بتایا ’’اگراین ایچ ایم ملازمین کام پر نہیں لوٹے تو ہم آنگن وارڈی ورکروں اور محکمہ تعلیم سے اساتذہ کی خدمات حاصل کریں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ پلس پولیو مہم پر کوئی بھی اثر نہیں پڑے گا ۔ نیشنل ہیلتھ میشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر موہن سنگھ نے بتایا ’ این ایچ ایم ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے پلس پولیو مہم کے دوران قطرے پلانے والے افراد پر دبائو ہوگا۔ واضح رہے کہ 28جنوری 2018اور 11مارچ 2018کو نیشنل ایمونائزیشن ڈے کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس دوران5سال کے عمر تک کے بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔