سرینگر// سال2017 کا سورج غروب ہو رہا ہے، اور اپنی آخری شاعیں بکھر کر اہل کشمیر کے دل پر انمٹ نقوش چھوڑ رہاہے۔2017کا سال بھی اہل کشمیرکیلئے کوئی سوغات یا راحت لانے میں بظاہر ناکام رہا۔ امسال بھی مقامی سیاست میں اتھل پتھل کے بیچ حکمران جماعتوں اور حزب اختلاف کے درمیان تیکھی تکرار جاری رہی،وہیں اس سال مرکزی مزاکراتکار کی نامزدگی ، وزیر داخلہ اورکانگریس پالیسی ساز گروپ کی آوا جاہی،35اے پر سیاسی بحث، اسکولوں کے بدلے طلاب کی سڑکوں پر موجودگی، اسکول اور کالجز بند کرنے، جی ایس ٹی کی کھنک،’این آئی اے‘‘ سے خوفزدگی،مزاحمتی لیڈروں کی خانہ و تھانہ نظر بندی ، ہڑتال اور پر تشدد واقعات جہاں امسال کے خاص واقعات رہے وہیں سال کے اختتام پرکابینہ میں توسیع،پنچایتی انتخابات کا اعلان،روزانہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کی مستقلی اور پہلی بار سنگبازی کے مرتکب ہوئے نوجوانوں کی عام معافی کے اقدامات باعث موضوع بنے۔ سال 2017 میں حکمران جماعت پی ڈی پی میں آپسی چپقلش بھی دیکھنے کو ملیاور کئی بار وہ سامنے کھل کر بھی آئی۔کئی ممبران اور وزیروں کو روٹھ کر منانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ سیاسی گلیاروں میں بھی ہلچل کا سلسلہ جاری رہا،فروری میں سید الطاف بخاری کو ایک مرتبہ پھر کابینہ میں شامل کر کے وز تعلیم کا قلمدان سونپا گیا جبکہ دیگر وزراء کے قلمدانوں میں ردبدل کی گئی۔بشارت بخاری کو باغبانی کا محکمہ دینے پر وہ برہم ہوئے اور انہوں نے وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جبکہ عمران انصاری نے بھی انہیں کوئی دیگر وزارت نہ دینے کے خلاف استعفیٰ پیش کیا۔یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری بھی رہا آخر کار عمران انصاری کو منا لیا گیا۔ دسمبر میں حج و اوقاف کے وزیر اور پی ڈی پی لیڈر فاروق احمد اندرابی مستعفی ہوئے،جبکہ سال کے آخر میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے بردار تصدق مفتی اور جاوید مصطفیٰ میر کو کابینہ میں شامل کر کے سب کو حیران کردیا۔پی ڈی پی کو ایک دھچکہ اس وقت لگ گیا جب،مہاراجہ ہری سنگھ سے منسلک سرکاری تعطیل نہ کرنے پر پی ڈی پی کے رکن قانون ساز کونسل وکرم دتیہ نے جماعت اور کونسل سے استعفیٰ دیا،جبکہ پیر محمد حسین نے بھی وقف بورڑڈکے چیئرمین سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ اپریل میںضمنی پارلیمانی انتخابات کے دوران پی ڈی پو کو حریف سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دھچکہ دیتے ہوئے سرینگر پارلیمانی حلقہ سے پی ڈی پی امیدوار کو شکست دی،جبکہ اس نشست پر انکے سابق حریف طارق قرہ انکی حمایت میں آگئے۔فاروق عبداللہ اپنے جوشیلے بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس وقت سیاسی گلیاروں میں زلزلہ پیدا کیا جب انہوں نے کہا کہ نوجوان جنگجوئوں کی صفوں میں وزیر اور ممبران اسمبلی کیلئے نہیں بلکہ وطن کی محبت اور آزادی کیلئے شامل ہو رہے ہیں۔ریاست کی سب سے بڑی2مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے2017میں ایک بار پھر اپنے صدور کو برقرار رکھتے ہوئے بالترتیب ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اپنی اپنی جماعتوں کے صدور منتخب کیا۔مرکز کی طرف سے اکتوبر کے آخری ہفتہ میں سابق آئی بی ڈائریکٹر دنیشور شرما کو مزاکرتکار نامزد کرنے کے ساتھ ہی پراسر ار گیسو تراشی کا سلسلہ بھی تھم گیا۔گیسو تراشی نے پوری وادی کو دو ماہ تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور اس دوران 150سے زاید خواتین اور جوان سال و چھوٹی لڑکیوں کے بال کاٹے گئے۔دنیشور شرما نے سال کے آخری2ماہ میں مشن کشمیر کیلئے وادی کے3دورے کئے،اور اس دوران مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں،جن میںمین اسٹریم سیاست دان،طلاب،غیر سرکاری انجمنیں اور دیگر لوگ شامل ہیں،سے تبادلہ خیال کیا۔پہلے دورے کے بعد دنیشور شرما نے مرکزی حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی،جس میں پہلی بار سنگبازی کے مرتب ہوئے نوجوانوں کو عام معافی دینے کی سفارش کی گئی۔مرکزی حکومت نے انکی اس سفارش کو عملی جامعہ پہنایا اور نومبر میں اعلان کیا کہ سنگبازی میں پہلی بار مرتکب ہوئے نوجوانوں کو عام معافی دی جائے گی۔اس دوران تاہم مزاحمتی خیمہ دنیشور شرما سے دور رہا،اور سید علی گیلانی،میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سمیت بیشتر مزاحمتی لیڈروں نے دنیشور شرما سے مزاکرات نہیں کئے۔ متحدہ حریت کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ اس دوران تنازعات میں آئے،کہ انہوں نے خفیہ طور پر دنیشور شرما کے ساتھ بات کی،تاہم انہوں نے اس بات سے انکار کیا۔اس دوران سابق وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس کا کشمیر پر پالیسی ساز گروپ کے علاوہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی مشن کشمیر کے دورے کرتے رہے۔ 2017 کے وسط میں قومی تحقیقاتی ایجنسی نے مزاحمتی لیڈروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی عمل میں لائی،جس کی وجہ سے کئی محازوں پر سیاست گرم ہوئی۔ جولائی میں این آئی اے نے نعیم احمد خان،پیر سیف اللہ،ایاز اکبر،فاروق احمد ڈار عرف بٹہ کراٹے،محمد الطاف شاہ،معراج الدین کلول کے علاوہ سرکرہ تاجر ظہور وٹالی کو حراست میں لیکر دہلی پہنچایا،جبکہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے شبیر احمد شاہ کو گرفتار کر کے دہلی پہنچایا۔اس دوران سید علی گیلانی، محمد یاسین ملک ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم اور دیگر مزاحمتی لیڈروں ،انکے رشتہ داروں،تاجر لیڈراں سمیت ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشیدو دیگر لوگوں کے نام بھی نوٹسیں اجراء کی گئیں،اور انہیں دہلی میں این آئی اے میں پیش ہونے کی ہدایت جاری کی،جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔صلاح الدین کے بیٹے کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی اور گیلانی کے دو بیٹوں سے بھی تفتیش کی گئی۔مزاحمتی خیمے کیلئے یہ سال سب سے زیادہ مصیبت کا سامان لیکر آیا۔ سید علی شاہ گیلانی گزشتہ برسوں کی ہی طرز پر 2017میں بھی رہائشی طور پر نظر بند رہیں،جبکہ میرواعظ عمر فاروق کی خانہ نظر بندی بھی حساس مواقعوں اور پروگراموں کے دوران عمل میں لائی گئی۔محمد یاسین ملک کھبی گھر میں تو کھبی تھانہ اور کھبی سینٹرل جیل سرینگر میں نظر بند رہے۔محمد اشرف صحرائی سمیت دیگر لیڈروں کی خانہ وتھانہ نظر بندی بھی سال بھر وقفہ وقفہ سے جاری رہی۔مزاحمتی جماعتوں کی کال پر بیشتر ایام میں شہر خاص کے حساس علاقوں اور دیگر جگہوں کی ناکہ بندی کی گئی،جس کے پیش نظر 2017میں20ہفتوں تک وقفہ وقفہ سے تاریخی جامع مسجد سرینگر کے ممبر و محراب نماز جمعہ کے دوران خاموش رہے۔امسال طلاب نے بھی کھل کر احتجاجی مظاہرے کئے۔پلوامہ ڈگری کالج میں اپریل میں پیش آئے واقعے کے بعد وادی کے یمین و یسار میں طلبہ و طالبات سڑکوں پر آئے،اور احتجاجی مظاہروں کے علاوہ سنگبازی بھی کی۔اس دوران قریب تین ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا،اور اسکولوں و کالجوں کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں کو سرکاری سطح پر بند کرنے تک کی بھی نوبت آگئی۔ریاست میں سال کے وسط میں مرکزی قانون’’اشیاء و خدمات ایکٹ‘‘ کو نافذ کرنے پر بڑی اتھل پتھل دیکھنا پڑی،جبکہ مزاحمتی ،حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں،مذہبی جماعتوں کے علاوہ تجارتی انجمنوں اور سیول سوسائٹی نے اس قانون کو نافذ کرنے کی سخت مخالفت کی،اور ریاست کا اپنا جی ایس ٹی بنانے کا مشورہ دیا۔ سرکار نے جون کے آخر میں اسمبلی کا خصوصی اجلاس بھی طلب کیا،تاہم اس کو ایک روز بعد ہی ملتوی کیا گیا۔تاجروں کی سخت ناراضگی کے بیچ جی ایس ٹی کو ریاست میں نافذ کیا گیا۔ سال کے جاتے جاتے حکومت نے کیجول اور ڈیلی ویجروں کی دلی مراد بھی بھر لائی،اور قریب61ہزار روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو مستقل کرنے کا اعلان کیا۔35اے کے بھوت نے بھی2017میں اپنی موجودگی کا اظہار کیا،اور اس پر خوب سیاست ہوئی،تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے کو مارچ تک التواء میں رکھا۔