سرینگر //قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں جماعت الدعوۃ سربراہ حافظ محمد سعید اورمتحدہ جہاد کونسل چیئرمین سید صلاح الدین کو اصل ملزم قرار دیتے ہوئے انکے سمیت 12افراد کے خلاف این آئی اے کی خصوصی عدالت پٹیالہ ہاوس کورٹ میں چھ ماہ بعد چارج شیٹ داخل کردی ہے۔جن دیگر افراد کیخلاف فرد جرم عائد کی گئی ہے ان میں 7مزاحتمی لیڈران ، سرکردہ تاجراورایک فری لانس جرنلسٹ اور ایک نوجوان شامل ہے۔قریب 13000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں ملزمان پر حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے، جموں کشمیر میں عسکری و علیحدگی پسند سرگرمیوں کو ہوا دینے اور نوجوانوں کو پر تشدد احتجاجی مظاہروں ، پتھرائو اور سیکورٹی فورسز پر حملوںکیلئے اُکسانے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ این آئی اے کی کارروائی گذشتہ برس جولائی میں اس وقت شروع کی گئی تھی جب ایک ٹی وی چینل نے سٹنگ آپریشن کے دوران اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ کچھ لیڈران نے انکے سامنے یہ بات تسلیم کی تھی کہ انہیں تشدد کیلئے رقومات دی جاتی ہیں۔این آئی اے نے 24جولائی 2017کو سید علی شاہ گیلانی کے داماد الطاف احمد شاہ، حریت ترجمان محمد اکبر کھانڈے عرف ایاز اکبر، معراج الدین کلوال،بشیر احمد بٹ عرف پیر سیف اللہ،فاروق احمد ڈار عرف بٹہ کراٹے،حریت(ع) میڈیا ایڈوائزر آفتاب ہلال شاہ عرف شاہد الاسلام اور نیشنل فرنٹ چیئرمین نعیم احمد خان کو حراست میں لیکر دلی منتقل کیا۔ ان پر رقومات کے غیر قانونی لین دین اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات عائد کئے گئے۔اگست 2014کے وسط میں ایجنسی نے معروف کشمیری تاجر ظہور احمد وٹالی کو بھی حراست میں لیا ۔وٹالی پر الزام ہے کہ وہ پاکستان اور کچھ خلیجی ممالک سے رقومات وصول کرکے علیحدگی پسندوں تک پہنچانے کا کام کرتے تھے۔بعد میں پلوامہ سے تعلق رکھنے والے فری لانس جرنلسٹ کامران یوسف اور جاوید احمد بٹ ساکن کولگام نامی ایک اور نوجوان کو بھی گرفتار کیا گیا جن پر پتھرائو کے واقعات میں ملوث ہونے اور نوجوانوں کو پتھرائو پر اُکسانے کا الزام عائد کیا گیا۔یہ تمام10 افراد فی الوقت عدالتی تحویل کے تحت دلی کی تہاڑجیل میں نظر بند ہیں ۔جمعرات کو چونکہ تمام گرفتار شدگان کی عدالتی تحویل کی مدت ختم ہوگئی، اس لئے ان کے خلاف عدالت میں باضابطہ فرد جرم عائد کی گئی۔ضابطوں کے تحت ایجنسی کو کسی بھی گرفتار شدہ شخص کے خلاف چھ ماہ کے اندر اندر چارج شیٹ دائر کرنی ہوتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ملزم ضمانت کا حقدار ہوتا ہے۔ گرفتار افراد کی نظری بندی کے چھ ماہ رواں ماہ کی مکمل ہورہے ہیں، لہٰذا ان کے خلاف پٹیالہ ہائوس کورٹ دلی میں این آئی اے کے خصوصی جج ایڈیشنل سیشنز جج ترون شیروات کی عدالت میں چارج شیٹ دائر کی گئی۔ 12794صفحات پر مشتمل چارج شیٹ انڈین پینل کوڈ(آئی پی سی) کی دفعات120B،121،121Aاور124Aکے علاوہ غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق1967کے قانون کی دفعات13, 16, 17, 18, 20, 38 اور40کے تحت دائر کی گئی ہے۔اس ضمن میں این آئی اے کی طرف سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق معاملے کی نسبت 30مئی 2017کو ایف آئی آر درج کرنے کے بعد تحقیقات شروع کی گئی جس دوران جموں کشمیر، ہریانہ اور نئی دلی میں60مقامات پر چھاپوں کے دوران950قابل اعتراض دستاویزات اور600سے زائد الیکٹرانک آلات ضبط کئے گئے ۔ایجنسی کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش300سے زائد گواہوں سے پوچھ تاچھ کی گئی ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ حریت کانفرنس سے وابستہ علیحدگی پسند لیڈران نے پوری وادی میں اپنے کارکنوں کا نیٹ ورک بچھا رکھا ہے جس کے ذریعے’’نوجوانوں کو بھارتی سالمیت کی علامات خاص طور پر امن و قانون کو برقرار رکھنے کیلئے تعینات بھارت کی سیکورٹی فورسز پر حملوں کیلئے اُکسایا جاتا ہے‘‘۔ملزمان پر حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے اور ریاست میں علیحدگی پسند و عسکری سرگرمیوں کو ہوا دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ایجنسی نے اپنی چارج شیٹ میں کہا ہے کہ’’حافظ محمد سعید ، سید صلاح االدین اور ان کے پاکستانی آقا ئوں کی مجموعی نگرانی اور ہدایات کے تحت علیحدگی پسند لیڈران سنگبازوں کے ساتھ ملکرپر تشدد احتجاجی مظاہروں اور سنگبازی کی حکمت عملی مرتب کرتے ہیں اوریہ پیغامات اخبارات، سوشل میڈیا اور مذہبی لیڈران کے ذریعے احتجاجی کلینڈروں کی صورت میں عوام تک پہنچائے جاتے ہیں ، اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر خوف اور دہشت کا ماحول پیدا ہوتا ہے‘‘۔ایجنسی کاکہنا ہے کہ کیس کی مزید تحقیقات ابھی جاری ہے۔قابل ذکر ہے کہ ایک اور مرکزی تفتیشی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) نے اسی طرح کے الزامات کے تحت سینئر مزاحتمی لیڈر اور فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ کے خلاف گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں فرد جرم عائد کی۔