مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ ،اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں، تم میں سے جو اِن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔‘‘(سورۃ توبہ۔۲۳)۔’’اے نبی ؐ!کہدو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اورتمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد میں عزیز تر ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا ۔‘‘(سورۃ توبہ۔۲۴)
دین اسلام بہت ہی حساس مذہب ہے ۔ یہ اپنے ماننے والوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی ساری وابستگیاں صرف اسی سے جوڑلے اور اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی کیلئے اسی سے رہنمائی و رہبری حاصل کرے اور کسی دوسری طرف امیدیں نہ باندھیں ،کسی اور مخلوق کو نفع و نقصان پہنچانے والا نہ سمجھیں، مختصر یہ کہ اسلام مسلمانوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ پورے کے پورے اس کے محب بن کر رہیں ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی ہدایت کرتا ہے کہ کسی کو کچھ دو تو اسلام کی خاطر دو اور کسی سے ہاتھ روک لو تو بھی اسی دین اسلام کیلئے ۔ کسی سے محبت کرو بھی تو اسی دین حق کیلئے اور دشمنی ہو بھی تو اسی دین حنیف کی خاطر اور اس بات کی بھی تاکید کرتا ہے کہ اللہ کے باغیوں اور سرکشی کرنے والوں کے ساتھ دوستی نہ کریں ، انہیں اپنا راز دار نہ بنائیں یہاں تک کہ جو لوگ مذہب اسلام پر کفر و شرک کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اپنا رفیق نہ بنایا جائے، اگر ان میں تمہارے باپ اور بھائی ہی کیوں نہ شامل ہوں ۔غرضکہ دوستی دشمنی ، پیار و نفرت ، اتفاق و اختلاف اور رفاقت و دوری ،اہل ایمان ان ساری چیزوں کو اسی کے مطابق رکھیں اور ان ساری چیزوں میں جو اہم بات دیکھے جانے والی ہے وہ ہے ’’ایمان ‘‘ یعنی ایمان ہی اصل بنیاد ہے جو رشتہ کو جوڑتی ہے ۔
اس تمہید کے بعد ہم اپنے اصل مضمون کی طرف آتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو ان کا نام ’’اے ایمان والو‘‘ سے خطاب فرماتے ہوئے حکم دے رہے رہا ہے کہ تم ان لوگوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ جو ایمان پر کفر کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اس میں تمہارے باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو ،خبردار اگر کوئی ، ان لوگوں میں کسی کو اپنا رفیق بنایا تو وہ ظلم کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا ۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ کفر کرنے والے اور شکر کرنے والے آپس میں ایک دوسرے کے رفیق نہیں ہوسکتے کیونکہ کفر کرنے و الے شیطان کے نقش قدم پر چل کر جہنم میں جاگرتے ہیں اور شکر کرنے والے اہل ایمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی منزل مقصود جنت کو پالیتے ہیں۔لہٰذا اللہ رب العزت کی طرف سے حکم دیا جارہا ہے کہ اہل ایمان بندےکفر کرنے اور اس کو پسند کرنے والے لوگوں سے ’’اپنا تعلق رفاقت‘‘ نہ رکھیں ۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں کہ ’’فرمایا کہ تمہارے درمیان تعلق و دوستی اور اعتماد کی بنیاد نسب اور خاندان پر نہیں بلکہ ایمان پر ہے اگر تم میں سے کسی کے باپ اور بھائی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو تم ان کو اپنا معتمد اور دوست نہ بناؤ جو ایسا کرے گا تو یاد رکھے کہ وہ خود اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا بنے گا ۔ ( تدبر قرآن جلد سوم)
پہلی آیت میں اس بات سے اہل ایمان کو آگاہ کردیا گیا کہ وہ اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائیں اگر وہ ایمان کے مقابل کفر کو پسند کرتے ہیں اور اس طرح کا عمل کرنے والوں کے متعلق فرمادیا گیا تھا کہ یہ ظالمانہ عمل ہے ۔ اس طرح کفر و ایمان کے سلسلہ میں دو ٹوک انداز میں بیان فرمانے کے بعد ایک اور انتباہ دیا جارہا ہے، یعنی رحمت عالمؐ کو خطاب فرماتے ہوئے آپ کی زبان مبارک سے یہ بات کہلوائی جارہی ہے کہ ’’اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور بیویاں اور عزیز اقارب اور تمہارے کمائے ہوئے مال او رتمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور وہ گھر جو تم کو پسند ہیں اگر اللہ اور ا سکے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
آیت مذکورہ بال میں جن آٹھ چیزوں کو گنوایا گیا ، اکثر یہی چیزیں تو ہوتی ہیں جو احکام الہٰی فرمان نبویؐ کو ادا کرنے کیلئے آڑ بن جایا کرتی ہیں یعنی ان ہی چیزوں کی خاطر انسان اپنے رب کے احکام سے رو گردانی کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ جیسے اونچے عمل سے تک بھی جی چرانے لگتا ہے اور مخلص اہل ایمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی جان و مال اپنے بیوی، بچے و عزیز و اقارب اپنی جائیداد و کاروبار کو اللہ تعالیٰ اور رسول کریمؐ کی محبت سے بڑھ کر نہیں سمجھتا بلکہ اس کے پیش نظر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ؐ کی محبت اولین چیز ہوتی ہے اور یہی محبت ہی تو وہ خوبی ہے کہ ایک عاشق الہٰی و محب رسول ؐ بندہ کو اس بات پر آمادہ و تیار کرتی ہے کہ وہ ہجرت کرنے اور جہاد کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے۔ (ترجمانی)
’’مومنوں کی جان و مال اللہ نے جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے ‘‘ اس طرح جب مومن کا سودا اللہ سے ہوچکا ہے تو اب اس کی جان اپنی رہی اور نہ ہی اس کا مال اپنا رہا ۔
احادیث میں نبی کریمؐ نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے، مثلاً ایک موقع پر حضرت عمر ؓ نے کہا ’’یا رسول اللہؐ! مجھے آپ ، اپنے نفس کے سواء ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘آپ ؐ نے فرمایا،’’ جب تک میں اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک وہ مومن نہیں ۔ حضرت عمرؓ نے کہا، اے اللہ کے رسولؐ! آپ میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔آپؐنے فرمایا،’’ اے عمرؓ! اب تم مومن ہو‘‘( صحیح بخاری شریف )
ایک دوسری روایت میں نبی کریمؐ نے فرمایا، ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ، جب تک میں اس کو، اس کے والد سے ،اسی کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ ، محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘( صحیح بخاری کتاب الایمان )
مذکورہ دو احادیث کو مولانا صلاح الدین یوسف ؒنے اپنی تفسیر القرآن الکریم ترجمہ ومانیۃ و تفسیرۃ میں نقل فرمایا ۔’’فریضہ اقامت دین کی ادائیگی ، اللہ رسولؐ سے محبت کا مظہر ہے ‘‘
اس سلسلے میں قاضی بیضاوی ؒ نے فرمایا کہ رسول اللہؐ کی سنت و شریعت کی حفاظت اور اس میں رخنے ڈالنے والوں کی مدافعت بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کا ایک کھلا نشان ہے ۔ (معارف القرآن)
حضرت علامہ قاضی بیضاوی ؒ کی اس تحریر سے یہ بات ہمارے سامنے آرہی ہے کہ سنت رسول ؐ اور شریعت اسلام کی حفاظت کے علاوہ دین اسلام میں دراڑ ڈالنے والوں کے ہاتھوں کو روکنا اور ان کے خلاف سینہ سپر ہو جانا اور اس راہ میں اپنی عزیز ترین چیز کو قربان کردینا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ایسے لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتے ہیں ۔ علامہ قاضی بیضاوی ؒ نے اگرچکہ مختصر طور پر اس کی تشریف فرمائی ہے لیکن اگر ہم اس کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ علامہ قاصی بیضاوی نے امت مسلمہ کیلئے کتنا بڑا لمحہ فکر چھوڑا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب مسلمانوں میں اس بات کا شعور پیدا ہوجائے کہ اللہ نے انہیں خیر امت بنا کر اٹھایا اور اس کا عملی تقاضا یہ ہے کہ نیکی کا حکم کریں ،برائی سے لوگوں کو روکیں ۔ ظاہر بات ہے کہ جب یہ احساس پیدا ہوجائے تو یقین جانئے کہ آدمی کے قدم خود بخود اس راستے کی طرف چلتے ہیں جس کی آخری منزل رضا ئےالہٰی ہے ۔ غرض کہ جس نے بھی اپنا نصب العین یہ بنالیا ہو کہ اللہ کی زمین پر اللہ ہی کی حکمرانی قائم ہو تو لازمی طور پر وہ سنت اور شریعت کی حفاظت کرنے والا ہوگا ،یعنی سنت پر عمل کرنے و الا اور شریعت کا پابند ہوگا ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ سے بغاوت کرنے والے گروہ کی جانب سے دین میں رخنے ڈالنے والوں کو منہ توڑ جواب دیتا ہے ۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیںکہ منکرین حق کا ایک ٹولہ اسلام کی غلط تصویر بناکر بندگان خدا کے سامنے پیش کرتا ہے، یہ لوگ اسلام کی تصویر کو غیر حقیقی انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے شریعت اسلامی اور سنت نبوی ؐ میں رخنے ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں ۔ ان حالات میں سچے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ شریعت اسلامی اور سنت نبویؐ کی حفاظت کیلئے اپنی تمام قوت و صلاحیتوں کو اس کام میں لگا کر اسلام کے خلاف کئے جانے والے پروپگنڈہ کے تدارک کیلئے میدان میں اتر جائیں،اور خدا اور رسولؐ کی محبت میں جس دین حق کو قبول کیا ہے، اُس کی دعوت و تبلیغ کیلئے ان بندگان خدا تک پہنچائے جو اس دین فطرت سے محروم ہیں۔ خدا ئے تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت کا مظہر ہے کیونکہ فریضہ اقامت دین کی ادائیگی میں اہل ایمان کو کئی طرح کی آزمائش میں ثابت قدم رہنا پڑتا ہے اور صحابہ کرامؓ کی زندگی کے واقعات ہمارے سامنے موجود ہیں کہ انہوں نے فریضہ اقامت دین کی ادائیگی میں اپنے وطن کو چھوڑا ،اپنے باپ کی مخالفت کی پروا نہ کی اور کسی کو اپنی بیوی بچے چھوٹنے کا غم نہ رہا اور بہت سی سعید روحیں ان میں ایسی بھی تھیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کی ساری پونجی اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور دین اسلام کی خاطر نبی کریمؐ کے قدموں میں ڈالدی ۔ اس طرح اللہ رسولؐ سے محبت کا یہ اظہار ہے کہ انہوں نے اپنے عمل سے کیا اور مخلص اہل ایمان کی فہرست میں اللہ کے پاس شمار کیا گیا۔آیت مبارکہ کے ختم پر فرمایا جارہا ہے ،’’تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے ۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘
مضمون کے آغاز میں یہ بات آئی تھی کہ دین و ایمان کے مقابل قرابت داری کنبہ برداری کچھ بھی نہیں اور پھر درمیان میں ان تمام چیزوں کا تذکرہ فرمادیا گیا ، جس کی محبت میں پھنس کر آدمی احکام خدا وندی کی ادائیگی سے غافل ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا فرمایا گیا کہ ایسے دنیا طلب ، حب مال اور اولاد کے دلدادہ اور آرم دہ مکانوں کو پسند کرنے والے اور اپنی تجارت کو رات دن فروغ دینے کی فکر کرنے و الے یہ جان لیں کہ ’’اللہ کی طرف سے حکم سزا کا انتظار کریں ۔‘‘
اس سلسلہ میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے تحریر فرمایا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ’’یعنی اگر خدا اور رسولؐ کے احکام اور ہجرت یا جہاد کرنے سے یہ خیال مانع ہوکہ کنبہ برادری چھوٹ جائیگی ۔ اموال تلف ہوں گے ، تجارت مندی پڑ جائے گی یا بند ہوجائیگی ،آرام کے مکانوں سے نکل کر بے آرام ہونا پڑے گا تو پھر خدا کی طرف سے حکم سزا کا انتظار کرو ، جو اس تن آسانی اور دنیا طلبی پر آنے والا ہے ۔(حوالہ القرآن الکریم مطبوعہ سعودی عرب۔ صفحہ ۲۵۲)حضرت مولانا مودودی ؒ نے اس فقرے کی تفہیم اس طرح فرمائی ہے ۔’’تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ‘‘یعنی تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کردے ۔ (حوالہ تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ ۱۸۵ )
خاتمہ کلام ۔ پھر آگے اپنی بات کو ختم فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں کہ ’’ اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا ۔ یعنی حب مال میں گرفتار ہو کر جہاد جیسی چیز کو چھوڑ بیٹھنا اور اپنی تن آسانی کی خاطر احکام الٰہی کی تعمیل سے جی چرانا فسق ہے اور اللہ تبارک تعالیٰ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کرتا ۔‘‘ یعنی جس طرح دوسری جگہ فرمایا تھا کہ اللہ ظالموں کو بامراد نہیں کرتا۔ٹھیک یہاں بھی اسی طرح کی بات آئی ہے کہ اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں فرماتا۔
(رابطہ ۔ 8247567753)