مولانا روم فرماتے ہیںکہ دماغ ایک بھیڑ ہے، روح ایک بھیڑیا اور ایمان ایک چرواہا۔ اگر ایمان مضبوط نہیں تو روح دماغ کو کھاجائے گا۔ایمان ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کو ہر چیز سے آگاہ کرنے کے ساتھ بچاتی بھی ہے۔ اسی لئے اللہ عزوجل قرآن مقدس میں فرماتے ہیں :’’ سو جو کوئی معبودان باطلہ کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مظبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن)نہیں اور اللہ خوب سننے والاجاننے والاہے‘‘(البقرہ)۔
حضرت ابو مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہؐ کویہ فرماتے ھوئے سنا ہے :جس شخص نے کلمہ طیبہ پڑھا اور تمام باطل خدائوں کا انکار کیا ،اس کی جان اور مال محترم اور محفوظ ہیں اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔(مسلم کتاب الایمان)
حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے پوچھا :یارسول اللہ ؐکونسا عمل بندے کو دوزخ کی آگ سے بچا سکتا کے ؟آپ ؐ نے فرمایا : اللہ تعالی پر ایمان لانا۔حضرت ابو ذر ؓفرماتے ہیں میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ؐ کیا میرے لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہی کافی ہے یا ایمان کے ساتھ کسی عمل کی بھی ضرورت ہے ؟پیارے آقاؐنے فرمایا اللہ تعالی نے جو کچھ تجھے عطافرمایاہے اس میں سے ضرورت مندوں کے لئے بھی خرچ کر ۔(الطبرانی)
امام نیشاپوریؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دائود کی طرف وحی فرمائی: اے دائود!مجھے پہچان اوراپنے نفس کو پہچان۔آپ نے عرض کیا:اے میرے رب! میں نے تجھے پہچان لیا کہ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے اورمیں نے اپنے نفس کو بھی پہچان لیا کہ بے شک میں ہر چیز سے عاجز ھوں اللہ تعالی نے فرمایا :اب تجھ میں اہل آسمان اور اہل زمین کی معرفت مکمل ھو گئی ہے۔امام جعفر صادقؒکی خدمت میں عرض کیا گیا : کیاآپ نے اللہ تعالی کودیکھا ہے؟انہوں نے فرمایا:میں ایساشخص نہیں کہ اس رب کی عبادت کروں جس کو میں نے دیکھا ہی نہ ہو ان سے کہا گیا:آپ نے اسے کیسے دیکھا جبکہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتی۔آپ نے فرمایا اسے ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ دلوں نے حقائق ِ ایمان کے ذریعے اسے دیکھا ہے اس لئے کہ وہ حواس سے بھی محسوس نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی اسے لوگوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے ۔
حضرت رابعہ بصریہ نے فرمایا: معرفت الٰہی کا پھل مکمل طور پر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ھوجانا ہے تاکہ بندے کا مقصود صرف اللہ تعالی کی ذات ھوجائے ۔اللہ تعالی قرآن مقدس میں ارشاد فرماتے ہیں :بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر مظبوطی سے قائم ھوگئے تو ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو اور غم نہ کرو اور تم جنت میں خوشیاں منائوجس کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا۔ (حم السجدہ آیت 30)
حضرت جابرؓبیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ؐکی خدمت میں ایک شخص حاضر ھوا اور عرض کرنے لگا:یارسول اللہؐ!وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو جنت یادوزخ کو واجب کردیتی ہیں؟آپؐ نے فرمایا :جس شخص کاخاتمہ اس حال میں ھوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہراتا تھا وہ جنت میں جائے گا اور جس شخص کا خاتمہ شرک پر ھوا وہ جہنم میں جائے گا (مسلم کتاب الایمان واحمد)
امام ذنون مصریؒ فرماتے ہیں معرفت تین طرح کی ہے۔ پہلی توحید کی معرفت ،یہ عام مومنوں کی معرفت ہے۔دوسری دلیل کی معرفت، یہ معرفت علماء ،حکماء اورصاحبان بلاغت کے لئے ہے۔تیسری صفات واحدانیت کی معرفت ، یہ معرفت اللہ تعالی کی ولایت کے اہل ان لوگوں کے لئے ہے جواپنے دلوں کے نور سے اللہ تعالی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی ان کے لئے ان کے دلوں کے (نورکے)ذریعے وہ کچھ ظاہر کردیتاہے جواس نے تمام جہانوں میں کسی کے لئے ظاہر نہیں کیا ھوتا حضرتب ابوبکر شبلیؒ نے فرمایا جب عارف انوارتوحید کے ذریعے اپنے دل کی آنکھ سے اللہ تعالی کی عظمت کا مشاھدہ کرتا ہے تو زمین وآسمان اور اللہ تعالی کی پیدا کردہ تمام چیزیں اس کی نگاہ میں بے حیثیت ھوجاتی ہے ۔حضرت ابو عبداللہ النباجیؒ نے فرمایا عارف کی معرفت الٰہیہ کے پہلو میں جنت کی وسعت بھی کم پڑجاتی ہے پھر دنیا ومافیہا کی کیا حیثیت ہے اور بے شک معرفت کی لذتیں اور کیف وسرور عارفوں کے دلوں کوہر طرح کے کیف وسرور اور لذتوں سے بے نیاز کردیتے ہیں۔ یہ نہیں ھوسکتا کہ معرفت الٰہی کی لذتوں کے ساتھ دنیا کیسرور اور اس کی زندگی کی لذتیں بھی باقی رہ سکیں۔امام ابو عبداللہ النباجی ؒنے فرمایا اکثر اہل دنیا بہترین اور سب سے زیادہ لزیز چیز چکھے بغیر دنیاسے کوچ کرگئے پوچھا گیا وہ بہترین چیز کیا ہے؟انہوں نے فرمایا معرفت الٰہی کا سرور انعام الٰہی کی مٹھاس ،محبوب حقیقی سے قربت کی لزت اور محبت کا انس ایک اور جگہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی)جب اس (قرآن) کوسنتے ہیں جو رسول ؐکی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کج آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔(المایدہ 83)
(یہ آنسووں کا جھلکنا )اس حق کے باعث ہے جس کی انہیں (معرفت) نصیب ھوئی ہے۔(ساتھ یہ) عرض کرتے ہیں :ائے ہمارے رب! (ہم تیرے بھیجے ھوئے حق پر )ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے۔حضرت ابس ایوبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ھوا اور عرض کرنے لگا :یارسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت کے قریب اور جہنم سے دود کردے۔آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالی کی عبادت کرو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراو نماز قائم کرو زکواۃ ادا کرو اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو جب وہ شخص چلا گیا تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا :اگر اس شخص نے ان باتوں پر عمل کیا جن کا سے حکم دیا گیا ہے تو وہ جنت میں جائے گا ۔(رواہ مسلم)
امام جنیدبغدادی فرماتے ہیں کہ توحید یہ ہے کہ تو اس بات کو جان لے اور اس کا اقرار کر لے کہ اللہ اپنی ازلیت میں یکتا ہے اس کا نہ تو کوئی ثانی ہے اور نہ ہی کوئی اس جیسے افعال کا فاعل ہو سکتا ہے ۔امام ابو القاسم الفشیری بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد بن الواسطی سے ایمان باللہ (اللہ پر ایمان)اور ایمان للہ(اللہ کے لئے ایمان) کے متعلق پوچھاگیا تو انہوں نے فرمایا:دنیا و آخرت اللہ سے ہے ،اللہ کی طرف جانے والی ہے، اللہ کے ساتھ اور اللہ کی ملکیت ہے اور آغاز و انتہاء ورجوع کے اعتبار سے اللہ کی طرف جانے والی ہے اور اللہ کے ذریعے باقی و فانی ہے اور بادشاہت اور مخلوق اللہ ہی کے لئے ہے ۔ امام ذوالنون مصریؒ سے حقیقت معرفت کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپ نے فرمایا :(لطیفہ) سر کو اللہ تعالی کے سوا ہرشے کی طلب سے خالی کردینا،(اس کے ساتھ ساتھ) اپنی ہر (بری )عادت کو ترک کردینا اور دل کا بغیر کسی لگاو(یعنی طلب ولالچ) کے اللہ کی طرف سکون پانا ،اور غیر اللہ کی طرف (کلیتًا) التفات کو ترک کردینا ہے۔ امام مغلس بن شداد نے فرمایا اللہ تعالی نے دنیا کو تاریک پیدا کیا اور اس میں روشنی بکھیرنے کے لئے سورج کو ضیاء باری کا ذریعہ بنایا (اسی طرح اس نے عام انسانی) دلوں کو بھی ابتداء ً تاریک پیدا کیا مگر ان میں اجالے کے لئے معرفت الٰہی کوروشنی(کاذریعہ )بنایا ۔جس طرح جب بادل آتے ہیں تو سورج کی روشنی کو نظروں سے غائب کردیتے ہیں، اسی طرح دنیا کی محبت آتی ہے تو دل سے معرفت کے نور کو غائب کردیتی ہے۔