سبدر شبیر
انسان کی زندگی ایک وسیع و عریض میدان کی مانند ہے، جہاں ہر قدم، ہر سوچ اور ہر جذبہ ایک بیج کی صورت بویا جاتا ہے۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے، جو بولتا ہے، جو کرتا ہے۔ وہ سب کچھ دل کی زمین پر بویا جانے والا بیج ہے اور پھر وقت کے ساتھ وہی بیج ایک فصل کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ کوئی غرور کا بیج بوتا ہے، کوئی نفرت کا، کوئی لالچ کا، کوئی حرص و ہوس کا۔ یہی بیج اس کی زندگی کی شناخت بن جاتے ہیں۔ مگر ایک بیج ہے جو باقی سب سے جدا، پاکیزہ اور مقدس ہے، وہ بیج ہے ایمان۔
ایمان، دل کی زمین پر اُگنے والی وہ فصل ہے جو ربّ کے ذِکر سے نمو پاتی ہے، دُعا کے پانی سے سینچی جاتی ہے، سجدوں کی نمی سے پروان چڑھتی ہے اور توبہ کی روشنی سے کھِلتی ہے۔ ایمان کوئی ظاہری شے نہیں۔ نہ مال ہے، نہ لباس، نہ ظاہری عبادت کی نمائش۔بلکہ یہ ایک باطنی نور ہے، ایک لطیف روشنی ہے، جو صرف دل کی آنکھ سے دیکھی جاتی ہے اور روح کی گہرائیوں سے محسوس کی جاتی ہے۔
ایمان کی بنیاد ربّ پر یقین، اس کی ذات پر اعتماداور اس کے وعدوں پر کامل بھروسے پر قائم ہے۔ جب دنیا کی آنکھیں اندھی ہو جائیں، جب سہارے ٹوٹ جائیں، جب روشنی بجھ جائے، جب لوگ منہ موڑ لیں، تب بھی اگر دِل سے یہ صدا بلند ہو کہ ’’اللہ میرے ساتھ ہے‘‘ تو یہی ایمان ہے۔ وہ ایمان جو حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں بے خوف لے گیا، وہ ایمان جو حضرت موسیٰؑ کو دریا میں راستہ دکھاتا ہے، وہ ایمان جو حضرت مریمؑ کو تنہائی اور الزام کے کٹھن لمحوں میں سکون بخشتا ہے اور وہ ایمان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طائف کے پتھروں، شعبِ ابی طالبؓ کی بھوک اور بدر و احد کے میدانوں میں استقامت عطا کرتا ہے۔
ایمان، ایک ایسا چراغ ہے جو قبر کی تاریکی میں بھی روشنی دیتا ہے۔ دنیا کے چراغ ایک نہ ایک دن گل ہو جاتے ہیں، دوست جُدا ہو جاتے ہیں، مال لُٹ جاتا ہے، جسم خاک ہو جاتا ہے۔ مگر ایمان وہ سرمایہ ہے جو ساتھ رہتا ہے، جو موت کے بعد بھی روشن ہوتا ہے اور قیامت کے دن روشنی بن کر بندے کو عرشِ الٰہی کے سائے تلے لے جاتا ہے۔ایمان کی فصل کے لیے دل کی زمین کو نرم بنانا ضروری ہے۔ اگر دل حسد سے سخت ہو، کینہ سے بھرا ہو، لالچ سے آلودہ ہو اور فخر سے اکڑا ہوا ہو، تو ایمان کا بیج اس میں نہیں پنپتا۔ مگر اگر دل توبہ سے بھیگا ہو، عاجزی سے نرم ہو اور محبتِ الٰہی سے لبریز ہو تو وہ زمین زرخیز بن جاتی ہے۔ وہاں ایمان کی کونپل پھوٹتی ہے اور وقت کے ساتھ وہ درخت بنتی ہے جو انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں سایہ دیتا ہے۔
یہ فصل اگرچہ پاکیزہ ہے، مگر نازک بھی ہے۔ اسے دنیا کے طوفانوں سے بچانا پڑتا ہے۔ خواہشات کے بادل، شیطان کے وسوسے، نفس کی سرکشی، معاشرتی دباؤ، شہرت و دولت کی چکاچوند، سب ایمان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ اگر نگہبانی نہ کی جائے تو یہ فصل سوکھ جاتی ہے، کمزور ہو جاتی ہے یا جھڑ جاتی ہے۔ اس لیے اس کی حفاظت ضروری ہے، روز توبہ سے پانی دینا ضروری ہے، استغفار کی روشنی دینا ضروری ہے، قرآن کی ہوا چلانا ضروری ہے اور سجدوں کی نمی فراہم کرنا لازم ہے۔
ایمان صرف عبادات کا نام نہیں۔ ایمان سچ بولنے میں ہے، رزقِ حلال کمانے میں ہے، دوسروں کا بھلا سوچنے میں ہے، کسی پر ظلم نہ کرنے میں ہے اور مخلوقِ خدا سے نرمی سے پیش آنے میں ہے۔ ایمان کا ثبوت نمازیں یا ظاہری وضع قطع نہیں بلکہ وہ سچائی ہے جو انسان کے رویے میں ہو، وہ رحم ہے جو اس کے دل میں ہو اور وہ انصاف ہے جو اس کے عمل میں ہو۔
ایمان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ انسان کو اندر سے بدل دیتا ہے۔ جب دل ایمان سے لبریز ہوتا ہے، تو زبان خود بخود سچ بولتی ہے، آنکھیں حیا سے جھک جاتی ہیں، ہاتھ ظلم سے رُک جاتے ہیں اور قدم نیکی کی طرف بڑھتے ہیں۔ ایسا شخص خود کو بڑا نہیں سمجھتا بلکہ دوسروں کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ کسی کو حقیر نہیں جانتا، کسی سے نفرت نہیں کرتا اور ہمیشہ ربّ کی رضا کی تلاش میں رہتا ہے۔ایمان ایک ایسی خوشبو ہے جسے نہ چھوا جا سکتا ہے، نہ سمیٹا جا سکتا ہے۔ مگر جس کے دل میں ہو، اس کے وجود سے مہک آتی ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے، وہاں سکون بکھرتا ہے، وہاں انصاف قائم ہوتا ہے، وہاں امن کی فضا بنتی ہے، وہ دوسروں کے لیے چراغ راہ بن جاتا ہے۔
ایمان کوئی موروثی دولت نہیں، یہ محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ جیسے ایک کسان دن رات محنت کرتا ہے، بیج بوتا ہے، پانی دیتا ہے، فصل کی نگہبانی کرتا ہے، تب جا کر وہ خوشحال ہوتا ہے۔ ویسے ہی ایمان بھی وقت مانگتا ہے، سچائی مانگتا ہے، صبر و استقامت مانگتا ہے۔ یہ دنیا کا آسان سودا نہیں، مگر آخرت کا سب سے قیمتی خزانہ ہے۔
ایمان اگر زندہ ہو تو انسان گناہوں سے لرزتا ہے، نیکی کی طرف لپکتا ہے اور ربّ کی رضا کے سوا کسی چیز کی پروا نہیں کرتا۔ وہ تنہا ہو، تب بھی نماز پڑھتا ہے، وہ محتاج ہو، تب بھی رزقِ حلال کماتا ہے، وہ مظلوم ہو، تب بھی بدلہ نہیں لیتا، دعا کرتا ہے۔آخرکار انسان جب اپنی زندگی کے اختتام پر پہنچتا ہے تو اسے یہی ایمان سہارا دیتا ہے۔ جب آنکھیں بند ہوتی ہیں، زبان خاموش ہوتی ہے، جسم ساکت ہوتا ہے اور دنیا کے سب رشتے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔ تب صرف ایمان باقی رہتا ہے، وہ ایمان جو قبر میں سوالوں کا جواب دیتا ہے، جو حشر میں شفاعت کا ذریعہ بنتا ہے اور جو پل صراط سے پار کراتا ہے۔اسی لیے اگر تمہیں کچھ حاصل کرنا ہے تو دنیا کی چکاچوند میں ایمان کو نہ کھو بیٹھو۔ تمہاری اصل دولت ایمان ہے، تمہاری اصل پہچان ایمان ہے، تمہاری اصل کامیابی ایمان ہے۔تو آج، ابھی، اِسی لمحےاپنے دل کی زمین کو دیکھو، کیا وہ سخت ہو چکی ہے؟ کیا وہاں فریب کے کانٹے اُگ آئے ہیں؟ کیا حسد کی جھاڑیاں پھیل چکی ہیں؟ اگر ہاں، تو زمین کو صاف کرو۔ اسے آنسو سے دھوؤ، توبہ سے نرم کرو، سچائی سے روشن کرو اور پھر صرف ایک بیج بو دو، ایمان کا بیج۔یاد رکھو!ایمان، دل کی زمین پر اُگنے والی سب سے مقدس فصل ہے۔