ڈاکٹرریاض توحیدی کشمیری
معروف شاعراورگیت کارگلزار(ممبئی)کی ایک مشہور نظم’’کتابیں‘‘ کی ابتدا مصرع’’کتابیں جھانکتی ہیں‘ بند الماری کے شیشوں سے‘‘سے ہوئی ہے اور اس نظم میں انہوں نے کتابوں کی محبت اور عصر حاضر میں کتب بینی کی دم توڑتی الفت پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ اب کتب بینی کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔تاہم اس سب کے باوجود کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کتابوں سے فکری و عملی رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے جن نوجوانوں کا رشتہ ابھی تک کتب بینی سے جڑا ہوا ہے اور جو جھانکتی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں،پھر ان پر مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں،ان میں ایس معشوق احمدبھی شامل ہیں۔ ایس معشوق احمد اردو میں پوسٹ گریجویٹ ہیں اور ڈگری یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب بھی ہیں۔ خوبصورت انشائیے لکھتے ہیں جو کہ ان کے انشائیوں کے مجموعوں ’’میں نے دیکھا‘‘اور’’کوتائیاں‘‘ سے عیاں ہے۔تحقیقی وتجزیاتی مضامین بھی لکھتے ہیں جس کا ثبوت ان کی ایک اہم کتاب’’دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے‘‘ہے۔ تبصرہ نگار بھی ہیں،جو کہ اس کتاب’’کتابیں جھانکتی ہیں‘‘ سے ظاہر ہے۔ ان کے جو تبصرے اخبارات ،رسائل اور سوشل میڈیا پر نظرسے گزرے ہیں،ان کو دیکھ کر اطمینان ہوجاتا ہے کہ ایس معشوق احمد کسی بھی کتاب کا سنجیدہ مطالعہ کرتے ہیں،پھر بڑی عمدگی سے اس پر تبصرہ بھی لکھتے ہیں اور کتاب کی اہم چیزوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں تاکہ قارئین بھی اس کتاب کی اہمیت اور پڑھنے کی طرف مائل ہوجائیں۔ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی لازمی بن جاتی ہے جوآج کے اس مادی دور میں کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس پر تبصرہ بھی لکھتے ہیں۔
ایس معشوق احمد کی پیش نظر کتاب’’کتابیں جھانکتی ہیں‘‘ صرف ایک کتاب نہیں ہے بلکہ اس کتاب کا مطالعہ کئی اور کتابوں کی جانکاری بھی فراہم کرتا ہے۔اس طرح یہ کتاب کئی کتابوں کی تحریروں اور تخلیقات کا نچوڑ سامنے لاتی ہے،جس سے مصنف کے وسیع المطالعہ ،علم و ادب سے محبت اورتبصرہ نگاری کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔کتاب کے مشمولات حسب ذیل ہیں:
محمد اسد اللہ کی ہوائیاں،کیسا ہے یہ جنون…ایک جائزہ ،منور عثمانی کی فرنٹ سیٹ ،انطباق…ایک مختصر جائزہ ،لابہ لا…ایک جائزہ ،احساس و ادراک کا موضوعاتی جائزہ ،حصار کے آئینے میں رحیم رہبر، دستک سی در دل پر ایک نظر میں، آنگن میں وہ۔۔ کا مختصر جائزہ ،اماں نامہ ،نشاط کی نشاط انگیزی، خرافات کی شائستگی، اقبال حسن آزاد۔۔ احساس کا فنکار،پرکالہ…گفتار کی خوش گفتاری ،معاصر اردو افسانہ تفہیم و تجزیہ(جلد دوم)…ایک جائزہ ،تنکے…ایک جائزہ ،نقش فریادی ،ایک جائزہ ،گل رنگ کی رنگا رنگ ،پیر کاملؐ ….ایک تاثر،گمشدہ دولت…ایک سرسری جائزہ ،سلوٹیں پر ایک نظر،تجلیات معرفت کے انوار،تنقید کا نیا نقش:نقش تنقیدگرد سفرایک نظر میں، پروفسیر نحوی: قدم بہ قدم منزل بہ منزل…مختصر جائزہ ،ابن صفی کردار نگاری اور نمائندہ کردار…ایک جائزہ ،حسن انتخاب کی حسن بیانی ،تو تو میں میں… ایک نظر
میں،غول…ایک جائزہ ،ترنم ریاض کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ ،ابا پیارے…باپ کی سوانح عمری بیٹیوں کی زبانی ،ادبی معشوقیت‘میں نے دیکھا ایک نظر میں…ڈاکٹر شبنم افشا،دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے:ایک سعی مستحسن…ڈاکٹر الطاف حسین ،معشوق کی کوتاہیاں… پروفیسر رفیع حیدر انجم۔۔۔۔
پیش نظر کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ اس میں جو مضامین اور تبصرے شامل ہیں وہ فکشن، تنقید،شاعری اورانشائیہ نگاری پر تحریر ہوئے ہیں۔ کتابوں پر تبصرے بھی ہیں اور جائزے بھی۔چونکہ ایس معشوق احمد انشائیہ سے فطری میلان رکھتے ہیں اس لئے اس کتاب میں انشائیہ کی حامل کتابوں پر زیادہ تبصرے ہیں۔ پہلا تبصرہ’’محمد اسداللہ کی ہوائیاں‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ محمداسداللہ کے انشائیوں پر تبصرے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان انشائیوں کے مطالعہ سے قاری کوایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سردی میں الاو ئکے گرد بیٹھااپنے دوستوں سے بے تکلف باتیں کررہا ہے یا گرمی میں پنکھے کے نیچے بیٹھا شربت پی رہا ہے اور دوستوں سے گپے مارہا ہے۔‘‘
اس طرح معشوق احمد تبصرہ کرتے ہوئے انشائیہ نگار کے اسلوب کو بھی انشائیہ کے رنگ میں سراہتا رہتا ہے‘یہ اچھی خوبی کہی جاسکتی ہے۔
کتاب میں نورشاہ کی تصنیف’’کیسا ہے یہ جنون‘‘ کے افسانوں،افسانچوں،ریڈیائی ڈراموں اورمضامین وغیرہ کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی چند افسانوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔اسی طرح علی شیدا کے شعری مجموعہ’’لا بہ لا‘‘ پر بھی اظہار خیال کیاگیا ہے اور چند منتخب اشعار بھی شامل کئے گئے ہیں۔پروفیسر مقبول احمد مقبول کا رباعیات پرمجموعہ’’احساس وادراک‘‘ کو بھی موضوع گفتگو بنایا گیا ہے اور چند رباعیات کی تفہیم و توضیح بھی پیش ہوئی ہے۔موضوعاتی سطح پر ان کی رباعیوں سے متعلق لکھتے ہیں:
’’مجموعی طور پر دیکھیں تو مقبول احمد مقبول اپنی رباعیوں میں کہیں نصیحت کرتے ہیں تو کہیں تنبیہ ،کبھی نیک اور صالح انسان بننے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی یہ تلقین کرتے ہیں کہ کسی کم ظرف کا احسان ہرگز نہ لینا۔۔۔‘‘
نشاط یاسمین خان کے مزاحیہ مضامین پر مشتمل کتاب’’اماں نامہ‘‘ کا عمدہ جائزہ لیا گیا ہے۔مضمون میں ان کے مزاحیہ پاروں سے اقتباس بھی پیش کئے گئے ہیں اور مضامین کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
’’نشاط یاسمین خان کے(مزاحیہ) مضامین پڑھ کر قاری مسکراتا ہے،ان کے جملے پڑھ کر خوش ہوتا ہے،ان کے انداز بیان سے متاثر ہوتا ہے۔زبان و بیان میں کہاوتوں،ضرب الامثال اور محاورات کا برجستہ استعمال دیکھ کر داددیتا ہے۔‘‘
کاچواسفند یارخان کا انشائیوں پر مشتمل مجموعہ’’پرکالہ گفتار‘‘2022ء میں منظرعام پر آیا ہے۔ یہ مجموعہ میرے پاس بھی ہے۔معشوق احمد نے اس مجموعے پر عمدہ تبصرہ کیا ہے۔تبصرے میں انشائیوں کی خوبی بھی بیان کی گئی ہے اور اگر کہیں پر کچھ کمی محسوس ہوئی ہے اس کا ذکر بھی کیا گیاہے۔
ایس معشوق احمد انشائیہ لکھنے کے ساتھ ساتھ مضامین بھی لکھتے ہیں۔انشائیوں کے مجموعے’’کوتائیاں‘‘ سے پہلے مضامین پر مشتمل ایک اہم کتاب’’دبستان کشمیر کے روشن ستارے‘‘لکھ چکے ہیں جس میں کشمیر کے کئی اہم ادبا و شعرا پر معلومات افزا مضامین شامل ہیں۔پیش نظرکتاب’’کتابیں جھانکتی ہیں‘‘ کے مضامین اور تبصرے متعلقہ موضوعات کا عمدہ احاطہ کرتے ہیں۔کتاب کے مطالعہ سے ایک تو ان کے مطالعاتی ذوق اور ساتھ ہی لکھنے کے شوق کا بھی پتہ چلتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کتاب کے مضامین اور تبصرے مقامی ادب کے علاوہ ملکی اور غیرملکی قلم کاروں کی کتابوں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔کتاب کی اہمیت کے لئے اتنا کہنا کافی ہے کہ اس کا مطالعہ معلومات میں اضافہ کرتا ہے اور ذاتی طور پر مجھے کئی ایسی کتابوں کی جانکاری ملی جن کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔کتاب کامطالعہ قارئین کے لئے مفید ہوگا۔
رابطہ :- 9906834877
[email protected]