پشتینی باشندگی قانون اور ریاستی آئین کے خلاف قرار دیا گیا
بلال فرقانی
بلال فرقانی
سرینگر// کان کنی سے متعلق متنازعہ’ ایس آراو‘ کو ریاستی آئین اور پشتینی باشندہ ہونے کے قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسمبلی کی ہاوس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ تاہم اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ امسال31 مارچ کو جاری کئے گئے ایس آر اوکو فوری طور پر کالعدم قرار دیا جائے۔ہاوس کمیٹی نے10صفحات پر مشتمل رپورٹ میں تمام فریقین کے ساتھ مشاورت کر کے انسداد غیر قانونی کان کنی، چھوٹی معدنیات مراعات ،ذخائر اور رسل و رسائل سے متعلق نئے قوانین بنانے کی وکالت کی۔ نئی صنعتی پالیسی کے بعد متنازعہ کان کنی ایس آر او پر قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں میں اٹھے ہنگامہ کے بعد اسپیکرکیونندر گپتا نے سابق اسپیکر ایڈوکیٹ محمد اکبر لون کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں تمام جماعتوں سے وابستہ ارکان اسمبلی کو شامل کیا گیا۔15ممبران پر مشتمل ہاوس کمیٹی میں سکھندن کمار نے کچھ روز بعد ہی استعفیٰ دیا جبکہ محمد یوسف تاریگامی، نوانگ ریگزن جورا، سید الطاف بخاری، جاوید احمد رانا،دیوندر سنگھ رانا، محمد اشرف میر،محمد یوسف بٹ، جاوید حسین بیگ، راجیو جسروٹیاں، بشیر احمد ڈار،رنبیر سنگھ پٹھانیہ اور شکتی راج پریہار شامل تھے۔ ہاوس کمیٹی کی رپورٹ میں متنازعہ ایس آراوکو آئین ریاست کے بالکل منافی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایس آر او105 پشتینی باشندہ قانون، ریاستی منتقل جائیداد قانون، اور جموں کشمیر بیگانگی زمین ایکٹ سمیت حصول اراضی قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔کمیٹی نے اس بات کو محسوس کیا کہ پشتینی باشندہ ہونے کے آڑر1927 کے دفعہ6 اور آئین ہند کی دفعہ35-Aاور دفعہ370 کے مطابق ریاست کے اراضی قوانین کے تحت خصوصی طور پر غیر منقولہ جائیداد پر پشتینی باشندوں کا حق ہے اور اس سلسلے میں ریاست کے حدود میں تمام مراعات کا حق دار بھی پشتینی باشندے ہی ہیں۔کمیٹی نے رپورٹ میں کہا ہے کہ جموں کشمیر بیگانگی اراضی قانون1938 کی دفعہ4 کسی بھی غیر ریاستی باشندے کو اراضی کی منتقلی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔رپورٹ میں اس بات کو محسوس کیا گیا ہے کہ معدنیات کی فراہمی میں مراعات،معدنیات کو پٹے پر دینا،کان کنی کی لائسنس اجراءکرنا اور قلیل مدتی پرمٹ بھی غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی میں آتا ہے۔ہاوس کمیٹی نے رپورٹ میں کہا ہے کہ کان اور معدنیات(ترقی و انضباط) ایکٹ1957 معدنیات اور کان کنی کے ضوابط سے متعلق ہے جبکہ یہ قانون ریاستی باشندوں کے ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کے خصوصی حقوق کے ساتھ نہیں ٹکراتا اور نہ ہی یہ قانون ریاستی آئین کے ساتھ تضاد رکھتا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ضابطہ بنانے سے قبل اس بات کا خیال رکھا جانا چاہے کہ ریاست کے پشتینی باشندوں کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہے۔کمیٹی نے12نکات پر اپنی سفارشی رپورٹ بھی پیش کی جس میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ فوری طور پر متنازعہ ایس آر او105کو کالعدم قرار دیا جائے جبکہ چھوٹی معدنیات مراعات ،ذخائرہ اور رسل و رسائل کے علاوہ انسداد غیر قانونی کان کنی سے متعلق قوانین ترتیب دینے کیلئے تمام فریقین سے مشاورت کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کان کنی اور معدنیات کی مراعات سے متعلق1962کے ایکٹ کو تبدیل کیا جانا چاہے۔کمیٹی نے سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ قوانین،معدنیات کے مراعات کی فراہمی میں مراعات،معدنیات کو پٹے پر دینا،کان کنی کی لائسنس اجرائی ریاست کے پشتینی باشندوں کو ہی فراہم کیا جانا چاہے یا انہیں جموں کشمیر کے مستقل باشندوں کو ہی شراکت داری پر تفویض کیا جائے۔