حال واحوال
مولانا قاری اسحاق گورا
دنیا بھر میں جب بھی ظلم اور جبر کے خلاف مزاحمت کی کوئی داستان لکھی جائے گی، مشرق وسطیٰ کی سرزمین اس کا مرکزی عنوان ہوگی۔ اس خطے میں فلسطین اور غزہ کی سرزمین پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی تنازع نہیں بلکہ انسانی ضمیر کی شکست و ریخت کا اعلان ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی ریاست اپنے تمام تر خطرات اور دباؤ کے باوجود اسرائیل اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کو کھلے عام چیلنج کرتی ہے، تو وہ ایران ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں ایران نے اپنے دشمنوں کی فہرست میں ایسے نام جمع کئے ہیں جنہیں دنیا کی بڑی قوتیں اپنا مربی سمجھتی ہیں۔ اسرائیل، امریکہ اور ان کے اتحادی سے ایران نہ صرف ان سے براہ راست الجھنے کا حوصلہ رکھتا ہے بلکہ عسکری، نظریاتی اور سفارتی محاذ پر ان کا کھلا مقابلہ کرتا رہا ہے۔ شام سے لے کر لبنان تک، یمن سے بحرین تک، ایران نے مزاحمتی کیمپ کو زندہ رکھا، مضبوط کیا اور ہر اس مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوا جسے عالمی سیاست نے پسِ پشت ڈال دیا۔ ایران کی یہی جرأت ہے جس نے اسرائیل کو بار بار دفاعی پوزیشن میں دھکیلا۔ وہ اسرائیل، جو عرب دنیا کو دو دن میں شکست دینے کا دعویٰ کرتا تھا، آج ایرانی میزائلوں سے بچنے کے لیے آئرن ڈوم کے نیچے چھپا بیٹھا ہے۔ تل ابیب اور حیفہ جیسے شہر جنہیں ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، ایران کی عسکری برتری نے انہیں غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ایران نے اسرائیل اور امریکہ کو عسکری میدان میں ایسی سطح پر لا کھڑا کیا جہاں انہیں پہلی بار اپنے دفاع کی فکر لاحق ہوئی۔ صرف فوجی ساز و سامان نہیں بلکہ ایران کی حکمت عملی، پراکسی وارز، اور غیر روایتی جنگی مہارت نے اسے اس مقام پر پہنچایا ہے۔ ایران کی دفاعی اور عسکری طاقت کا مرکز اس کا نظریہ ہے،’’مزاحمت کبھی سر نہیں جھکاتی۔‘‘ ایران نے حزب اللہ، حماس، انصاراللہ، فاطمیون، زینبیون جیسے گروہوں کے ذریعے خطے میں ایک ایسا نظامِ مزاحمت قائم کیا جو نہ صرف اسرائیل کو روکتا ہے بلکہ اسے اندرونی طور پر کمزور کرتا ہے۔ اسرائیل جو کبھی صرف حملے کی زبان جانتا تھا، اب دفاع کی بھیک مانگتا ہے۔ ایران نے یہ مقام نہ عرب لیگ کی مدد سے پایا، نہ اقوامِ متحدہ کے کسی قرارداد سے، بلکہ اپنے نظریاتی عزم، عسکری حکمت اور مستقل مزاحمت سے حاصل کیا۔
ایران، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی کو بظاہر ایک مہذب سفارتی کامیابی کہا جا رہا ہے اور یہ درست بھی ہے کہ ایک ایسی ریاست جو عالمی اقتصادی پابندیوں، داخلی مشکلات اور مسلسل عسکری دباؤ میں ہے، اس نے اپنے دشمن کو ایک نہج پر لا کر بٹھا دیا، جہاں وہ مذاکرات پر مجبور ہوا۔ لیکن یہی موقع ایک بہت بڑا سوال بھی پیدا کرتا ہےکہ کیا اس جنگ بندی میں ایران کو یہ شرط نہیں رکھنی چاہیے تھی کہ اسرائیل غزہ پر بمباری بند کرے؟ کیا اسرائیل کو اس جنگ بندی سے سفارتی تقویت نہیں ملی؟ کیا اس کا ظلم ایک بار پھر بین الاقوامی خاموشی کے پردے میں چھپ نہیں گیا؟ اگر ایران اس موقع پر، جب اس کی عسکری طاقت کا اعتراف اسرائیل اور امریکہ خود کر رہے تھے، غزہ کی مظلوم عوام کی خاطر ایک واضح شرط رکھتا کہ’’ہم جنگ بندی اسی صورت میں قبول کریں گے جب اسرائیل غزہ پر حملے بند کرے گا‘‘ تو یہ سفارتی میدان میں ایران کی عظمت کا ایک نیا باب ہوتا۔
یہاں ایران کے موقف کا ایک اور زاویہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، وقت، حکمت اور صبر سے بھی جیتی جاتی ہے۔ ایران ممکن ہے کہ اس وقت کسی بڑی جنگ میں جانے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ معاشی پابندیاں، اندرونی عوامی دباؤ، عالمی تنہائی اور دیگر اسلامی ممالک کی خاموشی، ایران کو کسی حد تک محدود کرتی ہیں۔ مگر کیا یہی وہ لمحات نہیں جب قوموں کی قیادت اپنی دانشمندی سے تاریخ کا دھارا موڑتی ہے؟ ایران نے شاید وقتی جنگ بندی کو ایک نئی تیاری کا موقع سمجھا ہو، تاکہ وہ اگلی بار ایک مضبوط تر اتحاد اور بہتر سفارتی منصوبے کے ساتھ میدان میں اترے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ غزہ کے لیے دیگر خفیہ ذرائع سے سرگرم ہو، جن کا اظہار کرنا سفارتی لحاظ سے مناسب نہ ہو۔
یہاں ہمیں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایران کی تنہائی صرف دشمنوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنوں کی بے حسی کی وجہ سے بھی ہے۔ سعودی عرب، امارات، مصر اور دیگر مسلم ریاستیں اس وقت نہ صرف اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھتی ہیں بلکہ کئی بار اسرائیل کی پالیسیوں پر خاموش حمایت بھی ظاہر کرتی ہیں۔ ایران اگر غزہ کے حق میں سفارتی سطح پر کوئی شرط رکھتا تو کیا وہ تنہا رہ جاتا؟ کیا اس کی حمایت کے لیے کوئی اسلامی ریاست کھڑی ہوتی؟ اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔ یہی وہ تلخ حقیقت ہے جسے ایران نے سمجھا بھی ہے اور برداشت بھی کیا ہے۔ ایران کی طرف سے اس جنگ بندی کے دوران غزہ پر زور نہ دینا، وقتی طور پر مایوس کن ہو سکتا ہے، مگر یہ ممکن ہے کہ ایران پسِ پردہ ایک بڑی سفارتی یا عسکری حکمت عملی ترتیب دے رہا ہو۔ ایرانی قیادت کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کبھی فوری ردعمل میں فیصلے نہیں کرتے۔ وہ وقت کا استعمال کرتے ہیں، اپنے حلیفوں کو تیار کرتے ہیں اور جب حملہ کرتے ہیں تو صرف زمین پر نہیں، عالمی رائے عامہ پر بھی گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
ایران، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان حالیہ جنگ بندی عالمی سفارت کاری کا ایک ایسا لمحہ ہے جسے صرف ایک’’عسکری وقفہ‘‘ یا’’امن کا آغاز‘‘ کہنا سطحی تجزیہ ہوگا۔ اس معاہدے کی اصل معنویت اس وقت کھلتی ہے جب ہم اسے غزہ کی صورتِ حال کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ ایران نے یقینی طور پر اس خطے میں ایک ایسی قوت بن کر خود کو منوایا ہے جو نہ صرف عسکری لحاظ سے اسرائیل کے لیے خطرہ بن چکی ہے بلکہ امریکہ جیسے عالمی طاقت کو بھی میز پر بیٹھنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو کسی معمولی ریاست کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہ ایران کی کئی دہائیوں کی مزاحمتی حکمت عملی، عسکری مہارت اور نظریاتی استقلال کا نتیجہ ہے۔اس جرأت، استقامت اور کامیاب حکمت عملی کو تسلیم کیے بغیر کوئی بھی تجزیہ ادھورا ہوگا۔ ایران نے نہ صرف دشمن کے منصوبے درہم برہم کیے بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ اب اسرائیل کے لیے خطۂ عرب کھیل کا میدان نہیں رہا۔ اب ہر بمباری کا جواب دیا جا سکتا ہے اور ہر مظلم قوم کی پشت پر ایک طاقتور آواز کھڑی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ اعتراف اپنی جگہ، اس کے ساتھ ایک سوال بھی جڑا ہوا ہے،وہ سوال جو ہر باضمیر انسان کو مضطرب کرتا ہے اور وہ ہے۔ غزہ کہاں ہے؟ غزہ جو اس وقت زمین پر بدترین انسانی بحران کا شکار ہے۔ جہاں ملبوں سے لاشیں نکالی جا رہی ہیں، بچوں کے اسکول قبرستان بن چکے ہیں، اسپتالوں میں دوا ختم ہو چکی ہے اور آسمان سے برستے میزائل ان کے مستقبل کو راکھ میں بدل رہے ہیں،اس غزہ کے لیے اس جنگ بندی میں کوئی شرط نہیں رکھی گئی۔ ایران جو مظلوموں کی حمایت کا علم بردار ہے، جس نے بارہا فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی، اس نے اس موقع پر غزہ کے حق میں کوئی سفارتی شرط سامنے کیوں نہ رکھی؟
یہ سوال صرف ایران سے نہیں، پوری مسلم دنیا سے ہے۔ مگر چونکہ اس وقت صرف ایران ہی ایک مزاحمتی قوت کے طور پر عملی میدان میں باقی بچا ہے، اس لیے سب نظریں اسی پر تھیں۔ اگر ایران اس جنگ بندی کو اس شرط سے مشروط کرتا کہ اسرائیل فوری طور پر غزہ میں قتلِ عام بند کرے تو یہ جنگ بندی صرف عسکری کامیابی نہ رہتی، بلکہ انسانی اور اخلاقی فتح بھی کہلاتی۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا جب ایران نہ صرف سفارتی فاتح کہلاتا بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کا نمائندہ بن جاتا۔ لیکن بظاہر ایران نے شاید وقتی مصلحت، علاقائی تنہائی یا داخلی چیلنجز کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ شرط مؤخر کر دی۔ ممکن ہے کہ ایران نے جنگ بندی کو ایک مہلت کے طور پر قبول کیا ہو تاکہ وہ مستقبل کے لیے بہتر تیاری کر سکے۔ ممکن ہے وہ غزہ کے لیے پس پردہ کچھ اقدامات کر رہا ہو۔ مگر جب تک ان اقدامات کا عملی نتیجہ نہ نکلے، تب تک یہ خاموشی ایک’’تشویشناک خلا‘‘ بنی رہے گی۔
یہ خاموشی ایران کی عظمت کو گہنا نہیں سکتی، مگر یہ ایک موقع ضرور تھا جہاں وہ اپنی جرأت کو عدل کا تاج پہنا سکتا تھا۔ یہ جنگ بندی اب ایران کے لیے ایک امتحان ہ ہے کہ آیا وہ اس سفارتی برتری کو انصاف کے فروغ میں بدل پائے گا یا یہ صرف ایک وقتی دفاعی حکمت عملی ثابت ہوگی۔ یاد رہے کہ دنیا کے بڑے فیصلے صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ میزِ مذاکرات پر ہوتے ہیں۔ ایران نے اسرائیل اور امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، یہ اس کی طاقت کی علامت ہے۔ لیکن اب وقت ہے کہ اس طاقت کو انسانیت، انصاف اور مظلوموں کی حمایت کا ذریعہ بنایا جائے۔ اگر ایران اس سمت میں اگلا قدم اٹھاتا ہے تو تاریخ نہ صرف اس کی مزاحمت کو سلام کرے گی بلکہ اس کی قیادت کو بھی امت مسلمہ کا حقیقی ترجمان مانے گی۔ ورنہ وہ جنگ بندی جس میں ظالم کو مہلت اور مظلوم کو خاموشی ملی ہو، وہ تاریخ کے صفحے پر ایک خالی سطر کے سوا کچھ نہیں کہلائے گی۔
[email protected]