اسد مرزا
13 جون کو اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک اسٹریٹجک تباہی کا سامنا کرنا پڑا جس نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل کر رکھ دیا۔ اسرائیلی حملے نے اہم ایرانی فوجی اور سائنسی عملے کو ختم کر دیا، ملک کے میزائل انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا اور اس کے ابتدائی وارننگ سسٹم کو بے اثر کر دیا۔ لیکن اس اسرائیلی حملے کے نتیجے میں، جسے آپریشن رائزنگ لائن کا نام دیا گیا ہے، نے ایرانی حکومت کے اپنے حفاظتی انتظامات پر اعتماد کو توڑ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کیا کہ کیسے ایرانی حکام اسرائیل کی شاطرانہ سازشوں اور فریب کا شکار ہوئے۔
واشنگٹن میں قائم ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے لیے زینب رڈووا کے ایک تجزیے میں یہ کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر، اسرائیل نے آپریشن کے لیے برسوں کی مسلسل انٹیلی جنس تیاری، ریئل ٹائم انٹیلی جنس، نگرانی، اور جاسوسی (ISR)، اور گہری دراندازی کی تیاری کی۔ اسرائیلی فوجی منصوبہ سازوں نے ایران کے کمانڈ اینڈ کنٹرول نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور ان میں دراندازی کرکے، اعلیٰ سطحی مواصلات کو منقطع کرکے، اور حکومت کے فیصلہ سازی کے عمل میں غیر یقینی صورتحال پیدا کردی۔جب تک تہران ردعمل ظاہر کرتا، نقصان ہو چکا تھا۔ اس کی اوپری کمان کا صفایا کر دیا گیا اور اس کے دفاعی نظام کو غیر فعال کر دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل سرحد پار کارروائیوں پر بھروسہ نہیں کرتا تھا۔ اس نے ایران کے اندر ریموٹ ایکٹیویٹڈ اسٹرائیک پلیٹ فارمز کو پہلے سے پوزیشن میں رکھا تھا اور انہیں شاطرانہ طریقے کے ساتھ تعینات کیا تھا۔ یہ اس کی تیاریوں اور ایرانی سیکورٹی کے آلات میں اس کی دراندازی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
اسرائیلی حملے کے ردِ عمل میں ایران کو جوابی کارروائی کرنے میں کچھ دیر لگی لیکن اب تک وہ اسرائیل کو کافی نقصان پہنچا چکا ہے۔ایران کے لیے، پہلی دو تنبیہیں جولائی 2024 اور ستمبر 2024 میں آئی تھیں جب اسرائیل نے اسماعیل ھنیہ کوتہران میں قتل کیا۔ دوسری وارننگ ستمبر میں اس کے بعد دی گئی، جب اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے کارندوں کے خلاف دھماکہ خیز پیجر کا استعمال کرتے ہوئے ایک جدید ترین حملہ کیا، جس میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ تاہم، تہران نے ان واقعات کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ حکومت نے ان کارروائیوں کو اندرونی تخریب کاری یا گروہی تشدد کے طور پر مسترد کر دیا۔
ایران کی غلط فہمیاں:
آپریشن رائزنگ لائین کا اندازہ لگانے میں ایران کی ناکامی اسرائیل، امریکہ، اور عصری تنازعہ کی نوعیت کے بارے میں غلط مفروضوں پر جڑی اسٹریٹجک غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ ظاہر کرتی ہے۔سب سے پہلے ایران نے اسرائیل کی غزہ کارروائیوں پر امریکی تنقید کو اسٹریٹجک انحراف کی علامت سے تعبیر کیا۔ یہ مانتے ہوئے کہ نیتن یاہو کی حکومت الگ تھلگ پڑچکی ہے، تہران نے ممکنہ طور پر اندازہ لگایا کہ واشنگٹن ایک بڑی اسرائیلی کشیدگی کو رکوا سکتا ہے۔یہاں اس نے امریکہ اسرائیل کوآرڈینیشن کی گہرائی اور اسرائیل کی افواج کی صلاحیت دونوں کو غلط سمجھا۔دوم7 اکتوبر کے بعد ایران نے فرض کرلیا کہ اسرائیل کی انٹیلی جنس سروسز بہت زیادہ مصروف ہیں اور ملکی مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ تہران نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ اسرائیل ایران کے اندر ایک پیچیدہ، ملٹی ڈومین/ کئی پرتوں والے آپریشن انجام دے سکتا ہے۔تیسری بات ،ایران نے صدر ٹرمپ کے 60 دن کے الٹی میٹم کو ایک سیاسی اشارے کے طور پر دیکھا، نہ کہ حقیقی ڈیڈ لائن کے طور پر۔ اور پھر اسرائیل نے 61ویں دن ایران پر حملہ کردیا۔چوتھے، جب ٹرمپ انتظامیہ نے جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کیے تو ایران نے رعایت کے لیے بات چیت کو غلط سمجھا۔ ایرانی حکام کا خیال تھا کہ مذاکرات میں واپسی تہران کو کمزور طاقت کے طور پر نشان دہ کرسکتی ہے۔پانچواں، بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے نے۔ جو اسرائیلی حملوں اور اندرونی خلفشار سے شروع ہوا۔ نے استحکام اور کشیدگی کے انتظام کے بارے میں ایران کے مفروضوں کو مزید زقند پہنچائی لیکن ایران علاقائی طورپر اس واقعے کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ مزید برآں، اسرائیل نے اپنے فریب اور نفسیاتی جنگ میں مہارت کی بنیاد پر آپریشن رائزنگ لائنز کا آغاز کیا۔ جدید جنگ میں دھوکے میں مخالفین کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹی داستانیں تیار کرنا اور انہیں ارادوں، صلاحیتوں یا وقت کے بارے میں غلط اندازہ لگانے پر اکسانا شامل ہے۔ اسرائیل کی مہم ایک دفاعی نصابی کتاب کی مثال تھی، جس نے غلط سمت کے احتیاط سے ترتیب دیے گئے جال کے ذریعے ایران کی فیصلہ سازی کو مفلوج کر دیا۔
آپریشن سے پہلے کے ہفتوں میں اسرائیل نے تہران کو غفلت میں رکھنے کے لیے تیار کیے گئے جھوٹے اشاروں کے ساتھ عالمی میڈیا، سفارتی چینلز اور عوامی گفتگو کو جھوٹی خبروں اور چھوٹے اشاروں سمیت یہ تاثر دلانے کی کوشش کی کہ اسرائیلی حکام اندرونی مسائل میں زیادہ الجھے ہوئے ہیں اور کسی بڑے ملک کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسرائیل نے بن یامین نیتن یاہو کی مشغولیت، جوہری مذاکرات کے لیے سینئر اسرائیلی عہدے داروں کے دورے، نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان اختلافات کی افواہوں کو میڈیا میں پھیلایا۔
اسرائیل نے اس علمی جنگی مہم کو ایران کی کمان اور کنٹرول کے ڈھانچے کو متحرک کرنے کے لیے ڈیزائن کیا تھا تاکہ حرکی کارروائیاں شروع ہو جائیں۔ اسرائیل کے لیے، آپریشنل پلاننگ میں فریب ایک مرکزی قوت کا اضافہ ہے۔ ردووا کا کہنا ہے کہ ایران جیسی مرکزی، نظریاتی اور درجہ بندی کی حکومت کے خلاف، قیادت کی سطح پر تاثرات میں خلل ڈالنا غیر متناسب اسٹریٹجک اثرات پیدا کرتا ہے۔آپریشن رائزنگ لائن نے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح جدید جنگ تصور، خلل اور پہل سے تشکیل پاتی ہے۔ مزید تنقیدی طور پر، اس نے اسٹریٹجک منطق میں خلل ڈالا جس سے کہ ایران کی علاقائی سلامتی کو بھی زقند پہنچی ۔ تہران نے فرض کیا تھا کہ کشیدگی میں تاخیر ہو سکتی ہے، اس کی علاقائی گہرائی نے موصلیت فراہم کی ہے اور اسرائیل سیاسی اور سفارتی دباؤ کی وجہ سے مجبور رہے گا۔ تاہم 13 جون کو یہ تمام مفروضے منہدم ہوگئے۔لیکن اس کے ساتھ ہی مجموعی تجزیے سے ہمیں ان ممالک کے ممکنہ کردار کا تجزیہ کرنا چاہیے جو کہ اس حملے میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوسکتے ہوں، کیونکہ امریکہ کا دوغلا چہرہ سب کے سامنے آہی چکا ہے کہ کس طرح ڈونالڈ ٹرمپ حملے کے ایک دن پہلے تک یہ کہتے رہے کہ انہیں کچھ معلوم نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ کس طرح 200 سے زائد جنگی طیاروں نے تقریباً 1800کلومیٹر کا سفر طے کیا اور راستے میں پڑنے والے کسی بھی اسلامی ملک کو ان پروازوں کی بھنک نہیں لگی ان کے رڈار سسٹم کے ذریعے اور کیسے وہ طیارے سلامتی کے ساتھ واپس اسرائیل پہنچ سکے؟ کیونکہ ان طیاروں میں عموماً 700سے 800 کلومیٹر تک کی پرواز کے لیے ہی ایندھن بھرا جاسکتا ہے تو کیا یہ طیارے پہلے سے خطے میں موجود امریکی اڈوں پر موجود تھے یا واپسی میں کسی دوسرے ملک میں انھوں نے لینڈنگ کی۔تاہم مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی حملے سے ایرانی حکومت اپنے خوابِ غفلت سے جاگ گئی، تھوڑی تاخیر کے ساتھ، لیکن اس کے بعد اس نے مختلف اسرائیلی شہروں پر جو فضائی حملے کیے ان کی توقع اسرائیل کو نہیں تھی اور یہاں پر اسرائیل غرور بھی چکنا چور ہوگیا۔ یعنی کہ ایران کی دفاعی طاقت کے بارے میں اس کے پاس غلط رپورٹیں تھیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)