اسد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جیسے جیسے اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، اس کے ساتھ ہی کئی خلیجی ممالک مبینہ طور پر ایران کی تیل تنصیبات پر ممکنہ اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے سرگرم نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے مبینہ طور پر اسرائیل کو ایران پر کسی بھی حملے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ماہ کے اوائل میں فلسطین میں جاری جنگ کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہوگیا۔ اس تنازعے کے ایک جانب زیادہ تر عالمی ممالک جو صرف لفاظی کرتے ہیں وہ اسرائیل کو فلسطین میں اپنے حملے بند کرنے کے لیے مشورہ دیتے نظر آرہے ہیں، حالانکہ وہ خود ہی خفیہ طور پر اسرائیل کی ہتھیاروں ، گولہ بارود اور مالی مدد بھی کررہے ہیں۔ دوسری جانب تنازعے میں ایران کے کسی ممکنہ داخلے نے علاقائی عرب ریاستوں کو مزید ایک بڑی تشویش میں ڈال دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر عرب ریاستیں تنازعہ کو حل کرنے کے لیے دو ریاستی فارمولے کی وکالت کرتی ہیں، لیکن موجودہ جاری تنازعہ کو روکنے کے لیے حقیقی سیاستی مفادات نے انھیں ایران کے ساتھ زیادہ روادارانہ رویہ اپنانے پر مجبور کردیا ہے، جو کبھی ان کا مخالف سمجھا جاتا تھا۔ دفاعی اور نظریاتی دونوں لحاظ سے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت کو سنگین منفی نتائج سے روکنے کے لیے دشمنی میں اضافے کو روکنے کی کوششیں بہت ضروری ہیں۔ ایرانی میزائل حملے کے بعد یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ اسرائیل ایران میں تیل یا جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور تہران یا تو اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے یا آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا انتخاب کر سکتا ہے ۔ جو دنیا کا سب سے اہم تیل کی نقل و حمل کا مقام ہے، عالمی تیل کا پانچواں حصہ آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے، اس طرح تیل کی قیمتیں عالمی سطح پر مزید بڑھنے کے امکانات بھی بڑھ رہے تھے۔
موجودہ حالات میں سب کے ذہن میں سب سے واضح سوال یہ ہے کہ کیا عرب ریاستیں ایران کے براہ راست جنگ میں شامل ہونے کی صورت میں اس کی حمایت کریں گی یا نہیں۔ اب تک ایران نے خطے میںحماس اور حزب اللہ جیسے گروپوں یا غیر ریاستی عناصر کے ذریعے کام کیا ہے۔ لیکن ایران کے براہ راست ملوث ہونے کی صورت میں مستقبل کے اتحاد مذہبی نظریات اور مختلف عرب ریاستوں کے جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر بھی منحصررہے گا۔ زیادہ امکانات یہ ہیں کہ اگر ایران – اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسے عرب ممالک اپنے علاقائی مفادات کے خلاف کسی بھی قیمت پر ایران کی حمایت نہیں کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی روایتی مذہبی نظریاتی اختلافات اور متضاد عزائم کی بنیاد پر زیادہ تر عرب حکومتیں ایران کو ایک مخالف کے طور پر دیکھتی ہیں۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے، سعودی عرب نے ایران کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔ جبکہ ریاض اور تہران نے حال ہی میں تعلقات کو بہتر کرنے کا مرحلہ وار کام شروع کیا ہے۔10 مارچ 2023 کو، ایران اور سعودی عرب کے نمائندوں نے، جو چینی دارالحکومت بیجنگ میں پانچ دن تک خفیہ طور پر ملاقات کر رہے تھے، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے چین کے زیر اہتمام ایک معاہدے کا اعلان کیا۔
ریاض نے سات سال قبل تہران سے باضابطہ تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ تعلقات کوبہتر کرنے کے لیے دونوں ممالک کی کوششیں عوامی علم میں تھیں۔اس کے ساتھ ہی عراق اور عمان نے ایرانی اور سعودی حکام کے درمیان مذاکرات کے پچھلے دور کی میزبانی بھی کی تھی، لیکن معاہدے کو حتمی بنانے میں چین کا کردار ضرور غیر متوقع رہا۔تینوں ممالک کی طرف سے جاری ہونے والا مشترکہ سہ فریقی بیان ایک جغرافیائی سیاسی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں چین کو ایک ایسے خطے میں ایک بڑا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جہاں امریکہ طویل عرصے سے غالب رہا ہے اور یہ بھی ایک اہم
تبدیلی ہے۔
ریاض اور تہران کے مسابقتی علاقائی ایجنڈوں نے یمن اور شام میں تباہ کن جنگیں شروع کر دی ہیں اور لبنان اور عراق میں عدم استحکام کو ہوا دی ہے۔ کئی خلیجی عرب ریاستیں طویل عرصے سے ایران نوازگروپوں کی طرف سے براہ راست دھمکیوں اور حملوں کے ساتھ ساتھ اختلافی تحریکوں کے لیے مبینہ ایرانی حمایت کے بارے میں فکر مند بھی ہیں۔ اپنی جانب سے، تہران سعودی عرب پر کردستان، بلوچستان اور دیگر شورش زدہ صوبوں میں مخالف ایرانی میڈیا کے ساتھ نسلی مخالف گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتا چلا آیاہے۔یہاں، جو چیز ان ریاستوں کو ایران کے بارے میں اپنا رویہ بدلنے کی ترغیب دے سکتی ہے وہ رائے عامہ ہے، جو زیادہ تر عرب ریاستوں میں فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اگر عرب حکومتیں فلسطینیوں کے خلاف اس کی جنگ میں واضح طور پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں، تو اس سے عوام کی نظروں میں ان کے رہنماؤں کی قانونی حیثیت کم ہو سکتی ہے، حالانکہ زیادہ تر عرب حکمرانوں کو اس رائے عامہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔کیونکہ ان میں سے زیادہ تر ممالک جمہوری نہیںبلکہ بادشاہی نظام کے تحت آتے ہیںجہاں عوام کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔
دوسرے، ایک وسیع جنگ کی صورت میں، جس میں ایران براہ راست ملوث ہو، اسرائیل کی حمایت کرنے والی حکومتوں کو جارح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے ایران کے پڑوسیوں کے سلامتی کے مفادات کی حمایت کی ہے، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔اس کے ساتھ ہی ان ممالک کی ایران سے جغرافیائی قربت بھی ایک اہم وجہ ہے۔زیادہ تر عرب ممالک نہیں چاہیں گے کہ کوئی قریبی پڑوسی خطے میں جارحانہ رویہ اختیار کرے یا اس کی بالادستی وہاں قائم ہوجائے۔ ساتھ ہی ایکبڑی علاقائی جنگ ان ممالک کے لیے معاشی طور پر ایک بوجھ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
مکمل طور پر ایران کا ساتھ نہ دینے سے، کچھ عرب ممالک ابھی تک اسرائیل اور مغرب کی نظروں میں دوسروں سے بہتر کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں اور انھیں مغرب کی حمایت بھی جاری ہے۔ اسی طرح اسرائیل کا مکمل ساتھ نہ دے کر، ان میں سے بعض نے ایران کی طرف سے بھی زیادہ پریشانی کو دعوت نہیں دینے کی کوشش کی ہے۔ بحران میں گھرے خطے میں اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اس طرح کا انداز انتہائی سفارتی اور حکمت عملی سے بھر پورہے۔تاہم، مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا تنازعہ خطے کو ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرے کے دہانے پر دھکیل سکتا ہے۔ درحقیقت، مشرق وسطیٰ میں تحمل امریکی اسٹریٹجک مفادات کے مطابق ہوگا۔ تاہم، اسرائیل نواز لابی کا زور واشنگٹن کی فیصلہ سازی کو کمزور کرتا نظر آ رہا ہے۔
جس طریقے سے حال ہی میںامریکی افواج کو اسرائیل میں بھیجا گیا ہے، جدید ترین گولہ بارود جیسے ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس سسٹم (THAAD) وہ ایران کو اپنی جارحانہ صلاحیتوں کو مضبوط بنا کر اپنی ڈیٹرنس کو مضبوط کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اپنے جوہری اصول کو تبدیل کرسکتاہے یعنی کہ پھر ہمیں ایک جوہری جنگ کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اب تک، ایران کی وسیع سیکورٹی پالیسی اپنے اور دیگر عرب ممالک کے مشترکہ مفادات کے ساتھ خطے میں غیر ریاستی عناصر کے ساتھ قریبی روابط کو فروغ دینا شامل رہا ہے۔ 2003 میںایران نے امریکہ سے یہاں تک کہا تھا کہ اگر ایران حماس سے علیحدگی کرلے اور حزب اللہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہوجائے تو امریکہ کو ایران پر عائدمعاشی پابندیاں ہٹانا ہوگا ، لیکن تہران کے مطالبات پر امریکہ کی جانب سے کبھی بھی مناسب توجہ نہیں دی گئی۔
ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور حماس کی قیادت کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں نے ایران کو مزید برہم کر دیا ہے۔ اسرائیل کے اس طرح کے یکطرفہ اقدامات ایران کو اپنے اسٹریٹجک نظریے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ تاہم، اگر ایران اپنے دفاعی انداز میں تبدیلی کرتا ہے، تو یہ دونوں فریقوں کے درمیان حالیہ میل جول کے باوجود سعودی عرب کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔مزید یہ کہ فلسطینی کاز کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کے قومی اور تزویراتی مفادات سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان موثر تعاون اس سے زیادہ ضروری کبھی نہیں تھا اور یہ وقت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سمت میں کچھ نمایاں تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب امریکی حکومت خود کو اسرائیل نواز لابی کے اثر و رسوخ سے نکالے اور عالمی امن کے تحفظ اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے خود کو وقف کر دے۔ یہ نہ صرف صحیح کام ہوگا بلکہ یہ تاریخی ذمہ داری بھی ہے جسے امریکہ کو قبول کرنا ہوگا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
��������������������