اسد مرزا
اسرائیل کے 13جون کو ایرانی سرزمین پر ہونے والے فضائی حملوں نے دونوں پرانے حریفوں کے مابین طویل عرصے سے چلنے والے محاذ آرائی کو تیزی سے بڑھا دیا ہے۔ آپریشن ’رائزنگ لائن ‘ نامی اس آپریشن میں ایران کے جوہری انفراسٹرکچر ، میزائل فیکٹریوں اور اعلیٰ فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی لڑاکا جیٹ طیارے شامل تھے۔ تہران اور نٹنز کے یورینیم افزودگی کی مختلف تنصیبات سے دھماکوں کی اطلاع ملی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں کہا ، “ہم اسرائیل کی تاریخ کے ایک فیصلہ کن لمحے پر ہیں۔” اسرائیل کے وزیر دفاع ، اسرائیل کٹز نے ایک ’خصوصی صورتحال‘ کا اعلان کیا کیونکہ وہاں کے کچھ فوجی عہدیداروں نے ایرانی جوہری مقامات پر حملوں کی تصدیق کی ہے۔اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق، ایران کے مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف محمد باگھری اور متعدد سینئر جوہری سائنس دانوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
حملوں کو کس چیز نے متحرک کیا؟: ان حملوں پر اسرائیلی عہدیداروں نے انٹلیجنس کا حوالہ دیا ہے کہ ایران نے متعدد جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لئے کافی افزودہ یورینیم جمع کرلیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ایک سینئر عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ ایران کچھ دن میں 15 بم بنا سکتا ہے۔ تہران نے جوہری ہتھیار کی تیاری کی تردید کی ہے ، لیکن اس پر زور دیا ہے کہ اسے یورینیم کو پُرامن استعمال کے لیے افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں ، ایران نے کہا تھا کہ اس نے اسرائیل کے غیر اعلانیہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق خفیہ دستاویزات حاصل کیے ہیں،جو کہ یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
امریکہ کا کردار: اگرچہ امریکہ ہمیشہ سے اسرائیل کا حمایتی رہا ہے لیکن اس بار ریاستہائے متحدہ امریکہ نے خود کو باضابطہ طور پر آپریشن ’رائزنگ لائن‘ سے دور رکھا ہے۔ سکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے بتایا کہ اسرائیل نے یکطرفہ طور پر کام کیاہے ،انھوں نے کہا کہ’’آج رات ، اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی۔ ہم ایران کے خلاف حملوں میں شامل نہیں ہیں اور ہماری اولین ترجیح خطے میں امریکی افواج اور باشندوں کی حفاظت کرنا ہے۔‘‘ لیکن دوسری جانب،جمعرات (12 جون) کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی حملے سے محض ایک دن قبل ، دو مختلف طرح کے بیانات جاری کیے تھے۔ جیسا کہ الجزیرہ نے اطلاع دی ہے ، ایک دن کے اندر ہی ٹرمپ نے متنبہ کیا تھا کہ مشرق وسطی میں “بڑے پیمانے پر تنازعہ کا امکان” موجود ہے ، اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ ایران پر اسرائیلی حملہ “ممکن” ہے۔ اس کے بعد ، جمعرات کے روز ہی رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے ، ٹرمپ نے کہا کہ وہ ’’تنازعہ سے بچنا پسند کریں گے‘‘ اور انہوں نے مشورہ دیا کہ امریکہ چاہے گا کہ اسرائیل ،ایران کے جوہری مقامات پر حملہ کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا نہ ہو، جبکہ واشنگٹن اور تہران جوہری مسئلے پر اپنی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔بعد میں جمعرات کے روز ، امریکی صدر نے ایران کے ساتھ سفارت کاری کے اپنے وعدوں کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ، ’’میری پوری انتظامیہ کو ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔وہ ایک عظیم ملک ہوسکتے ہیں ، لیکن انہیں پہلے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی امید ترک کرنا ہوگی۔‘‘
اسرائیل- ایران تنازعہ:اسرائیل۔ایران تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ایک نظریاتی جدوجہد ہے ،جوکہ سلامتی کے خطرات کے ساتھ مشرق وسطی کے لئے مسابقتی جنگ بھی ہے۔اسرائیل ایران کو اس کا سب سے خطرناک دشمن سمجھتا ہے ، بنیادی طور پر تہران کی جوہری صلاحیتوں کے حصول ، اسرائیل کی تباہی کے مطالبات ، اور حزب اللہ اور حماس جیسے گروہوں کے لئے اس کی مستقل حمایت کی وجہ سے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران خطے میں اسٹریٹجک توازن کو مستقل طور پر تبدیل کردے گا اور یہودی ریاست کے لئے ایک وجودی خطرہ لاحق ہوگا۔دوسری طرف ، ایران خود کو اسرائیل مخالف مزاحمت کے رہنما کی حیثیت میں پیش کرتا ہے اور اسرائیل کے جواز کی مذمت کرنے کے لئے اکثر اپنے سرکاری میڈیا اور پراکسی قوتوں کا استعمال کرتا ہے۔ یہ لبنان ، شام ، عراق اور غزہ میں حریت گروپوں کو فنڈز دیتا ہے اور ان ملکوں میں اسرائیلی کے ناجائز قبضے والے علاقے میں اکثر اسرائیل مخالف حملوں کی حمایت کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے:فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور ریسرچ فیلو ، آندریا اسٹریکر نے بلومبرگ سے بات کرتے ہوئے کہا ،’’ایران کی جوہری تنصیبات کو غیر فعال کرنے کے لئے، متعدد دن درکار ہوں گے،جب ان پر لڑاکا جیٹ طیارے،بنکرشکن بم گراتے رہیں اور ساتھ ہی میزائلوں سے بھی حملہ ہو۔ جتنی گہرائی میں ایرانی جوہری تنصیبات زمین کے نیچے موجود ہیں انہیں تباہ کرنے کے لیے 40 سے بھی زیادہ بھاری بنکر بسٹر بم استعمال کرنے ہوں گے،جوکہ شاید اسرائیل نہیں بلکہ امریکہ کے پاس ہیں۔یونیورسٹی آف ورجینیا کے پروفیسر اور سابق ڈپٹی ایلچی ،مارا روڈمین نے بلومبرگ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ اس کے بارے میں ایک سخت کارروائی کا امکان نہیں ہے ۔بلکہ ایک لمبی اور توسیعی مہم کی توقع کی جاسکتی ہے جس کا ایران مختلف طریقوں سے جواب دے گا۔ایران اور اسرائیل کے مابین ایک ممکنہ مکمل پیمانے پر جنگ پہلے سے ہی غیر مستحکم مشرق وسطی کو مزید غیر مستحکم کرسکتی ہے ، جس میں عالمی سلامتی کے لیے سنگین مضمرات شامل ہوں گے۔ ایران کی میزائل پیشرفت اور جوہری افزودگی کے بارے میں غیر متزلزل پوزیشن ، امریکہ کے ذریعہ قائم کردہ مضبوط سرخ لکیروں کے ساتھ مل کر اور واشنگٹن اور تہران کے مابین سفارت کاری کی کوششوں نے جو کہ سست حرکت پذیر ہیں ،نے بھی تناؤ کو تیز کردیا ہے۔ اس طرح کا تنازعہ عالمی تیل کی فراہمی میں خلل ڈال سکتا ہے ، بین الاقوامی طاقتوں کو شامل کرسکتا ہے ، اور علاقائی عدم استحکام کو گہرا کرسکتا ہے۔
دراصل اس پورے معاملے میں جو کردار ڈونالڈ ٹرمپ نے ادا کیا ہے وہ کافی مشکوک ہے اور اس سے یہی اشارے ملتے ہیں کہ شاید جب تک اسرائیل میں وہ بنیامین نیتن یاہو کو ان کے عہدے سے نہ ہٹا دیں تب تک وہ اسی طرح کی دوغلی باتیں جاری رکھ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی امریکہ یہ کوشش بھی کرسکتا ہے کہ جنگ کے بہانے کسی طریقے سے ایران میں تختہ پلٹ کی کارروائیوں کو کس طرح اپنی حمایت دے کر ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی جگہ امریکہ نواز کسی نئے رہنما کو برسراقتدار لے آئے۔لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اسرائیل کے لیے دو محاذوں پر جنگ جاری رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کب امریکہ پورے طور پر اس جنگ میں شامل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ صرف خطے کے لیے ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوگا اور اس میں پھر کچھ عرصے بعد جو تبدیلیاں رونما ہوں گی وہ کافی دور رس ثابت ہوسکتی ہیںاور شاید اس جنگ کے بعد اسرائیل کا اپنا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)