واشنگٹن//امریکہ وزیر دفاع جیمز میٹس نے آج کہا کہ ایران بنیادی طور پر اپنے نیوکلیائی معاہدھ پر عمل کرتا آیا ہے ۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ یہ تفتیش کررہی ہے کہ 2015میں ہوا یہ معاہدہ امریکی سلامتی مفادات کو مکمل کرتا ہے یا نہیں۔مسٹر ٹرمپ کے پاس یہ یقینی کرنے کیلئے 15اکتوبر تک کا وقت ہے کہ ایران اس نیوکلیائی معاہدہ پر عمل کررہاہے یا نہیں۔ اس نیوکلیائی معاہدہ کی برطانیہ،چین،فرانس،جرمنی روس اور یوروپی یونین نے حمایت کی تھی ۔مسٹر میٹس نے کہا کہ نیوکلیائی معاہدہ پر ایران کو کچھ موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ بین الاقوامی نیوکلیائی توانائی ایجنسی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایران کچھ امور کو چھوڑ کر نیوکلیائی معاہدہ پر عمل کررہا ہے ۔امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ افغان پالیسی بنانے کے لیے پاکستان سے پھر بات کرنا ہوگی۔امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس نے آرمڈ سروسز کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان پالیسی بنانے کے لیے پاکستان سے پھر بات کرنا ہوگی، انہوں نے کہا کہ افغان اسٹریٹجی پر پاکستان کے ساتھ چلنے کی ایک اور کوشش کی جائے، اگرچہ ہم اس کوشش میں ناکام ہوئے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا آپشن دیں گے۔واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان کیلیے پالیسی میں پاکستان پر نہ صرف جنگجوﺅںکو پناہ دینے کا الزام اور طالبان کو شکست دینے میں امریکی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا چکے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ بھی کیا تھا۔واشنگٹن میں موجود ذرائع کے مطابق، یہ ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ مختلف رد عمل کے بارے میں سوچے جس میں امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ اور پاکستان کے غیر نیٹو اتحادی ہونے کی حیثیت کو ختم کرنا شامل ہے۔ ذشتہ روز ہی سینیٹ میں ہونے والی ایک علیحدہ سماعت کے دوران امریکی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا تھا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے جنگجوﺅںکے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈانفورڈ نے سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ ’یہ مجھ پر واضح ہے کہ آئی ایس آٓئی کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں‘۔خیال رہے کہ امریکا نے 21 اگست کو نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا تھا۔امریکی صدر نے پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے ا±ن ہی جنگجوﺅں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے‘۔دریں اثنا حال ہی میں چین کے شہر شیامن میں ہونے والے برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیے میں مبینہ طور پر پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروپوں کو علاقائی سیکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔بھارت نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم اقدام قرار دیا جبکہ بھارتی میڈیا نے اسے نریندر مودی کی انتظامیہ کے لیے بڑی فتح قرار دیا تھا۔دوسری جانب امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی برکس اعلامیے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے اپنے رویے کو تبدیل کرے۔