امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے غیر منطقی اور متنازعہ فی فیصلوں کی وجہ سے ایک خاص پہچان قائم کی ہے۔ جب سے اس نے امریکی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔وہ اپنے اٹ پٹانگ باتوں اور فیصلوں کی وجہ سے موضوعِ بحث بنے رہے۔ اس کے منہ سے خیر کی کوئی بات نکلتی ہی نہیں۔وہ مسلسل بین الاقوامی اصول و قوانین کی دھجیاں اڑا تا چلا آ رہا ہے۔اس کی طفلانہ حرکتوں سے امن ِ عالم کو ہر چڑھتے دن کے ساتھ کوئی نہ کوئی نیا خطرہ لاحق ہو تاہے۔اس نے کئی ایک بار اپنی دجالی خصلتوں کے ذریعے پوری دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی۔گزشتہ سال کے اواخر میں مسٹر ٹرمپ نے اپنی کور اندیشی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ سنا دیا جس کی مخالفت میں پوری دنیا سراپا احتجاج ہوئی۔ چنانچہ ٹرمپ نے عالمی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کے معتدد قرادوں کے برعکس مشرقی یروشلم کواسرائیل کا دارلخلافہ قرار دینے کا اعلان کر دیا جس کے خونچکان نتائج اس وقت وہاں برآمد ہو رہے ہیں۔یہ اسی فیصلے کی دین ہے کہ ا سرئیل نے حالیہ دنوں فلسطینیوں کے قتل عام میں شدت لائی ہے اور چند دن قبل ہی ساٹھ سے زائد فلسطینیوں کو بیک جنبش موت کے گھاٹ اُتار دیا اور ہزاروں کو زخم زخم کیا۔
دوسرا خطرناک اور یک طرفہ فیصلہ حال ہی میں مسٹر ٹرمپ نے کیا اس کے منفی اثرات کا خمیازہ مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔واضع رہے دو سال کے عرصے پر محیط طویل سفارتی اور دو بدو مذاکرات کے بعد۲۰۱۵ میں جوہری معاہدہ ایران اور چھے ممالک کے مابین طے پا یا تھا۔ان مذاکرات میں فریڈریکا مورگنی نے یورپی یونین کی طرف سے نمائندگی کی ۔اس لحاظ سے یہ معاہدہ سہ فریقی معاہدہ تھا۔ایک جانب ایران دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نیزتیسری جانب یورپی یونین بھی نگران و ناظر اورثالث کی حیثیت سے شریک تھا۔کافی کھینچا تانی اور جدو جہد کے بعد یہ تینوں فریق ایک مشترکہ ہمہ جہت ، قابلِ قبول اور قابل ِ عمل نتیجے پر متفق ہوئے۔معاہدے کو باضابطہ ایک مسودے کی صورت میں پیش کیاگیا۔جسکا عنوان ایک مشترکہ جامع عملی منصوبہ ( Joint Comprehensive Plan of Action) رکھا گیا۔بعد ازاں اس مسودے کی تصدیق واقوام متحدہ نے بھی کی۔ معاہدے کی مذکورہ چیدہ تفصیل بجائے خود اس کی حساس نوعیت کوظاہر کرتی ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی باور کراتی ہے کہ اس معاہدے سے نکلنے والا فریق پرلے درجے کافریب کار ،عہد شکن،بے اعتباری اور بد اعتمادی کی علامت قرار پائے گا۔اس لئے امریکا نے اس معاہدہ سے الگ ہو کر پھر ایک بار اقوام عالم کو یہ باور کرایا کہ اس کے یہاں پتھر کی لکیر بھی نقش بر آب ہے۔ اس کے وعدوں ،معاہدوں اور قرار دوں پر اعتبار کرنا سحرائی سراب کے مترادف ہے۔جس کو آبِ حیات سمجھ کر ایک انسان یاپوری کی پوری قوم موت کے منہ میں جا پہنچتی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکا کا کوئی اعتبا ر نہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران سے زیادہ دنیا میں کوئی اس حقیت سے آشنا نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایران کے سپریم لیڈر نے معاہدے کے پیشتر ہی بار ہا اس بات کا اظہار کیا کہ امریکا ہرگز ہرگز قابلِ اعتماد نہیں ہے۔تو پھر کیوں اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکا کے ساتھ یہ معاہدہ کیا؟غالباً امریکا کی بے اعتباری کے پیش نظر ہی ایران نے محض امریکا کے ساتھ معاہدہ کرنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ دیگر فریقین کو بھی شامل کر کے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی کو اپنایا۔اور وہ حکمت عملی یہ تھی کہ اگر امریکا اس معاہدے کو یک طرفہ طور نکل جائے گاتو اول اس کی رہی سہی شبیہ بھی عالمی سطح پر مزید بگڑے گی ۔ اسے دیگر فریقین کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور امریکا کے حریف ممالک کے ساتھ ساتھ اس کے اکثر حلیف ممالک بھی اس کی عہد شکنی پر نالاں ہوں گے۔ممکن ہے دیگر پانچ بڑی عالمی طاقتیں امریکا کی معاہدہ شکنی کے باوجود بھی اس معاہدے کی ساخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گیں۔اس صورت میں امریکا کے لئے یہ سب سے بڑی شکست ہو گی۔اور اگر ان بڑی طاقتوں کی یہ کوشش بار آور ثابت نہ ہو پائی تو بھی ایران کو اقتصادی نقصان کے باوجود سیاسی اور سفارتی سطح پر ضرور فتح نصیب ہوگی۔خوش آئندامر یہ ہے کہ ٹرمپ کو اس بار بھی بین الاقوامی سطح پر منہ کی کھانی پڑی۔ ماسوائے اسرائیل اور سعودی عرب کے کسی بھی ملک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس معاہدہ شکنی کی تائید نہیں کی۔ بلکہ اس بار بھی یروشلم میں امریکی سفارت خانے کو منتقل کرنے کے فیصلہ کی طرح امریکی صدر کو ایک زبردست رد عمل دیکھنا پڑا۔نہ صرف I.A.E.Aمسلسل یقین دہائی کرتی آرہی ہے کہ ایران معاہدہ پر کاربند ہے بلکہ امریکہ کے بغیر دوسرے تمام فریق ایران کی جانب سے معاہدہ پر عمل درآمدکے تئیں مطمئن ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بیک زبان ہو کر امریکی صدر کے اعلان پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔اس مرتبہ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو داخلی اور خارجی سطح پر مخالفت اور تنقید کا سامنا ہے۔ سابق امریکی صدر نے معاہدہ شکنی کوایک سنگین اور فاش غلطی قرار دے کر کہا۔’’ J.C.P.O.A سے روگردانی اپنے نزدیک ترین حلیفوں کو اپنی پیٹھ دکھانے کے مترادف ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ ہم نے اس معاہدہ سے بھی منہ پھیر لیاکہ جسے ہمارے ملک کے مقتدر سیاستدانوں، سائنس دانوں اور خفیہ اداروں کے ماہروں نے کیا ہے۔‘‘تہران میں یورپی کمشنر برائے توانائی اور ماحولیات سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میںایران کی ایٹمی انرجی کے سربراہ علی اکبر صالحی نے کہا کہ’’ امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کرنے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ قابل اعتبار نہیں ہے‘‘۔ یورپی یونین کے انرجی کمشنر میگل ایرس کانٹے نے کہاکہ’’ ایٹمی معاہدہ خطے میں امن کے لیے بہت اہم ہے۔ انھوں نے عندیہ دیا کہ یورپی ممالک ایران سے تیل اور گیس حاصل کرتے رہیں گے۔ یورپی کمپنیوں کو امریکی پابندیوں سے بچانے کیلیے بھی حکمت عملی وضع کی جارہی ہے ‘‘
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برینن( John Brennan)نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو واضع پیغام دیا ہے کہ’’ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا خاتمہ 'تباہ کن' اور 'حماقت کی انتہا' ہوسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی کہ گزشتہ انتظامیہ کا منظور کردہ معاہدہ موجودہ انتظامیہ بیک جنشِ قلم مسترد کردے۔‘‘
جرمنی کی چانسلر اور روس کے صدر نے اپنے مشترکہ طور پراعلان کیا کہ وہ ایران کے ساتھ نیوکلیر ڈیل پر کاربند رہیں گے۔ یورپی یونین نے بھی تمام تر دباو اور ددھونس کے باوجود مذکورہ ڈیل کو برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔رد عمل میں روس کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مضبوط کرے گا۔اور امریکی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایران کے ساتھ تجارتی اور سفارتی رشتے کو فروغ دے گا۔‘‘
الغرض قریب قریب تمام عالمی رہنماؤں نے جنونی امریکی صدر کے فیصلے کو غیر منصفانہ اورعالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔امریکا کے دیرینہ اور قریبی حلیف ممالک کے رہنماووں نے بھی فی الوقت ایک مثبت موقف اختیار کر رکھا ہے ان کے بیانات سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی ساخت کو کسی بھی صورت خراب ہونے نہیں دیں گے۔فرانس اور برطانیہ جو ہمیشہ امریکا کے چشم و ابرو کے اشاروں پر ناچتے ہیں جنہیں بجا طور پر اس وقت امریکا کے دم چھلے کہا جا سکتا ہے نے بھی امریکا کو اس حوالے سے ایک سخت پیغام دیا ہے۔
فی الواقع ماسوائے ایک دو ممالک پوری عالمی برادری نے اس معاہدے کا ایک مثبت تبدیلی کے طور خیر مقدم کیا تھا۔لیکن صدر ٹرمپ اولین روز سے ہی اس معاہدے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے۔ اس کی باتوں سے لگتا تھا کہ یہ معاہدہ اس کے گلے میں کسی آتشی طوق جیسا ہے جو اسے کافی تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔اور وہ موقع پاتے ہی اس طوق کو اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ معاہدہ اس لحاظ سے نہایت ہی پیچیدہ ہے کہ محض ایران اور امریکہ کے مابین آپسی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ روس،فرانس ،چین، برطانیہ، امریکہ اورجرمنی کے درمیان یورپی یونین کی نظارت میں طے پایا ہے۔لھٰذا محض امریکہ کا اس معاہدہ کو توڑ دینا اسکی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتا ہے بشرطیکہ کہ معاہدہ کے دیگر فریق اس کی ساکھ بحال رکھنے کے لئے دلیرانہ اقدام کریں۔ فی الوقت ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکہ کی بدطینت کو ظاہر کر دیا ہے کیونکہ عہد شکنی اس کی فطرت میں پیوست ہے۔حالانکہ بین الاقوامی اصول و قوانین کے مطابق اور معاہدہ کی رو سے اس معاہدے کو توڑنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔مگر عالمی قوانین کا گن گان کرنے والا امریکا ہر بار کی طرح اس بار بھی اپنی اصل صورت کو چھپا نہیں پایا۔ٹرمپ نے اولین روز سے ہی اس معاہدے کی فی نکالنے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دئیے ۔اوران الزامات کو بنیاد بنا کر معاہدے کو ختم کرنے کا بہانہ تراشا جوبے بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایٹمی معاہدے سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے ہیں۔اس نے ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایران دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا حامی ہے اور وہ حزب اللہ لبنان ،حماس فلسطین کے علاوہ القاعدہ اور افغان طالبان کی بھی مددد کرتا آیا ہے۔اول تو معاہدہ محض ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے اور بدلے میں اس پر اقتصادی پابندیوں کو ہٹانے کی غرض سے طے پایا ہے۔ ثانیاًیہ بات تو کسی بھی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ایران حزب اللہ اور حماس کی اعلانیہ اورہر ممکنہ حمایت اور امداد کر رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ کا یہ کہنا مضحکہ خیز جھوٹ ہے کہ ایران نے القاعدہ اور طالبان کو پروان چڑھایا ہے اور ابھی بھی ان کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ امریکہ نے اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لئے ہر وقت جھوٹ اور مکر و فریب سے کام لیاہے۔ایران کے رہبرِ اعلیٰ سید علی خامنائی نے اس سلسلے میں کہا کہ ایٹمی معاہدے کو اپنے طور سے توڑنے کا اعلان کرتے وقت مسٹر ٹرمپ نے ایک ہی سانس میں کم از کم دس جھوٹ بولے۔ حقائق کو مسخ کرنا امریکی حکمرانوں کی فطرتِ ثانی بن چکی ہے۔انہیں داخلی اور خارجی سطح پر یہ اخلاقی جرأت کبھی بھی نصیب نہ ہوئی کہ وہ سچ کا سامنا کر سکیں۔
تعجب خیز امر یہ ہے کہ ایرانی قوم کو ایک احتمالی جرم کی سزا دی جارہی ہے اور بقولِ ایرانی خارجہ وزیر جواد ظریف کے ۔’’اس احتمالی جرم یعنی جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھر اس کے استعمال کا شوشہ وہ شخص(نیتن یاہو) بار بار چھوڑتا آیا ہے کہ جو خودچار سو کے قریب نیوکلیر ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔اور جو ممالک اس کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر سامنے آتے ہیں انہوں نے ہی این ،پی،ٹی کی قرار دادوں کو پائمال کر کے اسرائیل کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔‘‘
بہر کیف جوہری ٹیکنالوجی ایک بہانہ ہے جس کو بنیاد بنا کر دشمنانِ ایران اسے زیر کرنے میں استعمال کر رہے ہیںاصل معاملہ تو کچھ اور ہے۔دراصل انقلاب کے بعد ایران نے اپنے گلے سے امریکا کی غلامی کا طوق اتار پھینکا ہے اور اس کے مکروہ عزائم کی راہ میں باربار مزاہم ہو رہا ہے۔عسکری اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکا کے مقابلے میںنہایت ہی کمزور ملک ایران گزشتہ چالیس سال سے امریکا اور اسرائیل کی گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔وہ اسے اُگل پاتے ہیں اور نہ نگل پاتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ایران جیسا چھوٹا سے ملک اتنی بڑی طاقتوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔علی الخصوص مشرق وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کو ہر بار ایران کے ذریعے ہی زک پہنچی ہے۔اب تک تو امریکا بلا روک ٹوک اس خطے میں کوئی بھی اپنا شیطانی منصوبہ عملاتا آیا ہے لیکن اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اسے کئی ایک جنگ زدہ ملکوں میں پہلی بار شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔دوسری جانب خوابِ خرگوش میں مست روس اور چین جیسی امریکا کی حریف طاقتیں بھی ایران کی جرأت دیکھ کر ایک بار پھر امریکا کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہو گئیں اور اس طرح ایک امریکا مخالف بلاک دنیا میں وجود پذیر ہوا۔چنانچہ مشرق ِ وسطیٰ کے لئے جو تازہ تخریبی منصوبہ امریکا اور اسرائیل نے مشترکہ طور بنایا تھا، اس کی راہ میں یہ امریکا مخالف بلاک سدِ راہ بناہوا ہے ۔اس وجہ سے امریکا اور اسرائیل کی ایران دشمنی کا پارہ اپنی آخری حد تک جا پہنچا۔اپنی ناکامی کا سارا کا سارا نزلہ اس نے نیوکلیر معاہدے پر ہی اتاراکیونکہ کھسیانی بلی کو کھمبا نوچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔دیکھا گیا ہے کہ جہاں امریکا کی عسکری طاقت ناکام ہو جائے وہاں وہ ایک اور کارگر ہتھیار استعمال میں لایا جاتا ہے اور وہ کارگر ہتھیار ’’اقتصادی پابندی ‘‘ ہے۔ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کاروباری اور اقتصادی دنیا پر فی الوقت امریکا کی گرفت کافی مضبوط ہے۔اس میدان میں امریکا اپنے مخالفوں کو بآسانی چاروں شانے چت کرتا چلا آیا ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کو امریکا کے’’ عسکری تسلط‘‘ سے زیادہ ’’اقتصادی تسلط‘‘ کا خوف لاحق ہے اور دنیائے اقتصاد میں امریکہ کی اجارہ داری دنیائے سیاست پر بھی وقتاً فوقتاً حاوی ہو جاتی ہے۔باوجود اس کے بہت سے ممالک کوامریکہ کے بیشتر سیاسی فیصلے منظور نہیں ہوتے ہیں لیکن اپنے معاشی و اقتصادی مفادات کے پیش نظر وہ اس کے ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اس لئے زیرِ بحث نیوکلیر معاہدے پر بھی امریکا کا معاشی تسلط اثر انداز ہو سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری امریکا کے اس حربے کا توڑ مل کر ے ۔فرانس کے وزیرِ خارجہ نے اس ضمن میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی فیصلے پر کھلی تنقید کی ہے، انہوں نے سوال کیا ہے کہ امریکی فیصلے کی قیمت یورپی کمپنیاں کیوں ادا کریں؟بی بی سی اردو سروس کے مطابق اس تناظر میں فرانس کے وزیر معیشت نے کہا ہے کہ’’ اب وقت آگیا ہے کہ یورپی کمپنیاں امریکا پر انحصار کرنا بند کر دیں۔انہوں نے کھلے الفاظ میںصدر ٹرمپ کے اس اقدام کی تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ یورپ کو چاہے وہ امریکا کی معاشی غلامی سے خود کو آزاد کرے اور اب وقت آگیا ہے کہ معاشی خود مختاری کے لئے یورپی ممالک زبانی جمع خرچ کے بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے۔ ‘‘ یقینا عالمی برادری بشمو ل یورپی یونین کو ٹرمپ نے ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ وہ امریکا کی دنیائے معیشت پر اجارہ داری کو چلنیج کرے۔اگر وہ اس معاملے میں متحد ہو کر امریکی من مانیوں کو توڑ کرنا چاہے تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکا بہت جلد گھٹنے ٹیک دے گا۔در اصل اس کی بد عہدی اور من مانی کا بنیادی سبب اس کا سپر پاور ہونا نہیں ہے بلکہ عالمی برادری کی بے اتفاقی اور ارادے کی کمزوری ہے۔یہی وجہ ہے ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے یورپی یونین کے توانائی کے شعبے کے سربراہ میگوئل اریاس کانتے کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا ہے کہ’’ ایرانی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنے کے لیے یورپی یونین کی حمایت ناکافی دکھائی دیتی ہے۔‘‘
خوش آئند امر یہ ہے کہ معاہدے کے دیگر فریقین نے اس عزم کا بارہا اعادہ کیا کہ وہ اس معاہدے کو موثر رکھنے کے لئے عملی اقدامات کریں گے ۔ یہ سطور قلم بند کر تے وقت وائس آف جرمنی نے ایک جرمن اخبار کے حوالے سے یہ خبراپنی ویب سائٹ پر شایع کی ہے کہ برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین اور روس کے سفارت کار آئندہ جمعے کے روز آسٹریا کے دارالحکومت میں ملاقات کر رہے ہیں تاکہ ایران کی عالمی جوہری ڈیل کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔دیکھنا یہ ہے لائحہ عمل کیا ہوگا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ ممالک امریکا کی دشمنی مول لے پائیں گے؟
e.mail:[email protected]
cell no: 959646551