ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں کشمیری عوام کو مظلوم عوام سے مشابہ قرار دیااور بھارت کو طاغوت کہہ کر ان افراد کو دندان شکن جواب دیا جو انقلاب ایران کو فقط شیعوں کے انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں ۔ امام خامنہ ای نے نمازعید الفطر کے دوران لاکھوں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بحرین ، یمن اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بے حد ظلم وستم ڈھایا جارہا ہے اور ایران کبھی بھی مظلوم ومقہورکی پشت پناہی سے دریغ نہیں کرے گا ۔ ان حوالوں سے دیگر مسلم ممالک کو چاہے کہ ایران کی طرح اپنا موقف کھل کربیان کریں اور حق وصداقت کا ساتھ دیں۔اس کے علاوہ ملک کے عدلیہ سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے ان پر زور دیا کہ ایرانی عدلیہ میانمار، نائیجریہ کے شیخ زکزکی کی رہائی اور کشمیر جیسے حل طلب مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنا موثر کردار نبھائے۔ایران نے کبھی بھی کشمیرکے مظلوم عوام کی حمایت سے دریغ نہیں کیا،البتہ حریت میں وحدت کا فقدان ہونے کی وجہ ایران کا بعض اہم موقعوں پر خاموش رہنا ایک علت کے طور پر گردانا جاتا ہے ۔ بایں ہمہ ایران نے بعض خاص مواقع پر کشمیری عوام کو فر اموش نہ کیا بلکہ ا ن سے ا ظہارِ یکجہتی کیا ۔ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں زورداراعوامی احتجاجی لہر کے پس منظر میں رہبر انقلاب نے خاص طور پر کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت اور طرفداری کی تو بھارت نے دہلی میں ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر مذکورہ بیان پر اپنا ناموافق رد عمل ظاہر کیا تھا جس پر تہران اورنئی دہلی کے سفارتی تعلقات میں کافی سرد مہری آگئی تھی۔ ایرانی آئین میں درج ہے کہ دنیا کے ہر مظلوم وکمزور ( مستعفین ) کی حمایت کی جائے جس میں مسلمانوں کو خصوصیت حاصل ہے اور اس آئین میں کہا گیا ہے کہ ہر ظالم و ستم گر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ ان جابرین وظالمین میں اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ خصوصاً سر فہرست ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھار ظالم وجابر سے سرد جنگ میں اپنی پالیسی میں لچک لانا ایران کا خاصا رہا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایران کو بڑا دشمن شناس اور تدبیر گر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جب امام خمینیؒ نے ایران میں انقلاب برپا کیا تو دنیا کے تمام مظلومو ں کی نظریں اس پر بجاطور مرکوز ہوئیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کی انقلاب کے عظیم بانی وداعی کا پہلا نعرہ’’ لا شرقیہ لاغربیہ‘‘ تھا یعنی اسلام میں کسی طرح کی بھی سرحد ی قید یا حصار حائل نہیں بلکہ اسلام کرہ ٔ ارض کو اللہ کی ملکیت قرار دے کر شرق وغرب ، شمال وجنوب میں اپنا صالح جھنڈا گاڑنے کا عقیدہ رکھتا ہے ۔ یہ عقیدہ عدل الہٰی کے تئیں پوری دنیا کے مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کو حق دلانے کی یقین دہانی کرتا ہے ، چاہے مظلومین ومقہورین غیر مسلم بھی کیوں نہ ہوں ۔ موجودہ ایرانی نظام اور امام خمینیؒ کے دور کے ایران کی پالیسیوں میں کوئی فرق موجود نہیں۔ چونکہ امام خمینیؒ نے اس شخص کو اپنا نائب چنا جو دل ِ زندہ دار و شب بیدار ہے ، اور اپنے پیشرو کی طرح دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کے عموماً عافیت و سلامتی کا جذبہ اور مظلوم مسلم آبادیوں کے لئے خصوصاً دردِ دل رکھتا ہے ۔اس کی ایک بڑی مثال ملعون رُشدی کامعاملہ ہے کہ واحد ایران کے بغیر کسی بھی ایک مسلم ملک نے اس دریدہ دہن کو قانوناً فاسد قرار نہیں دیا ۔یہ امتیاز واعزاز ایرانی حکومت اور امام خمینی ؒکو ہی حاصل ہے کہ رُشدی کو فاسد و مرتد قرار دیا اور اس فتویٰ کو آج بھی قانونی حیثیت حاصل ہے ۔ اس سلسلے میں اگرچہ برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک کی طرف سے تہران پر اتنا کافی دباؤ بڑھا گیا کہ انہوں نے ایران سے اپنے سفارت کاروں تک کو واپس بلوایا لیکن پھر بھی تہران نے اپنے موقف میں ذرہ برابرکوئی تبدیلی نہیں لائی ۔ مغربی میٖڈیا نے اگرچہ مذکورہ فتویٰ کو واپس لئے جانے کی بات کی تھی لیکن موجودہ رہبر انقلاب نے اس کو رد کر کے دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ امام خمینی کے مبنی بر فتویٰ وحکم کو کوئی بھی واپس لینے کااختیار نہیں رکھتا بلکہ سو قدم آگے بڑھ کر ایران کی ایک کمپنی نے رُشدی کے خلاف فتویٰ کو نافذ کر نے کے حوالے سے انعامی رقم کو بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
میری نظر میں جہاں تک انقلاب ایران اور وحدت اسلامی کا تعلق ہے ،یہ دونوں بلا مبالغہ ایک دوسرے سے مر بوط و منسلک ہیں ۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے رواں دور پُر آشوب میں ہر ایک کے لئے اپنی چشم بصارت کھلی رکھنا اور بصیرت وفہمیدگی سے کام لینابہت اہم ہے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر افراد بغیر کسی تحقیق کے اس بارے میں کچھ بھی لکھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم وحدت پارہ پارہ ہوکر رہ جاتی ہے ۔ ایران دنیا کے مسلمانوں میں باہمی وحدت برقراد رکھنے کے حوالے سے ہر محاذ پر بے حد کوشا ں ہے ۔ آج فلسطین ،کشمیر ، میانمار اور سیاہ فام افریقی مظلوموں کی بات ایران کے سوا کون کر رہا ہے ، حالانکہ ان ملکوں کی آبادی کی اکثریت سنیوں پر مشتمل ہے ۔ میری نظر میں فلسطین کا مسئلہ فلسطینی عوام سے ہی مربوط نہیںبلکہ تاریخی حیثیت سے اسلام سے اس کا قریبی ربط وتعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے فلسطین کو اپنے پر وٹوکول میں اول درجہ دیا ہوا ہے ۔ قبلہ اول مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے،اس پر غاصب صیہونیوں کا قبضہ ہے جو آئے دن مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں ۔ بجز ایران کونسا مسلم ملک فلسطین کو اولین درجہ دیتا ہے ؟جہاں تک ایران میں سنیوں کے حقوق کی بات ہے، یہ اُن مقامی سنیوں سے جاننا بہتر ہوگا کہ وہ یہاں کتنے خوش و خرم ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ، لغواورمتعصبانہ ہے کہ ایران میں سنیوں پرظلم وستم ہورہا ہے ۔ ایران میں سنی مسلک والے آرام دہ اور امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ پورے ایران میں سنی مسلک کی دس ہزار مسجدیں بہ بانگ دہل اعلان کر رہی ہیں کہ ایران میں کس قدر مسلکی آزادی ہے، جب کہ دارلخلافہ تہران میں خلفائے راشدین ؓکے نام سے موسوم ایک بڑی مسجد واقع ہے ۔ میرے خیال میں آج کے ڈیجیٹل دور میں ان چیزوں کا مشاہدہ کرنا بہت ہی آسان ہے ۔ جہاں تک شام میں ایران کی مداخلت کی بات ہے تو یہ شامی عوام اور بشارالاسد کی محبت یا مہربانی میں نہیں، بلکہ حق یہ ہے کہ نواسہ رسول صلی ا للہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی حفاظت کے لئے پوری دنیا سے نو جوان وہاں جاکربی بی زینبؑ کی محبت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ وہیں حضرت زینب ؑ ہیں جنہیں یزید کے حکم سے اسیر کیا گیا اور کوفہ سے شام تک کا ایک طویل و اندوہناک سفر کروایا گیا ۔ ایران کی زبردست اسٹرٹیجی کے تحت شام میں داعش خاتمے کے قریب ہے ۔ایران دنیا ایسا واحد ملک ہے جس نے ڈرگس پر کنڑول پایا ہوا ہے ۔ چنانچہ افغانستان کی سرحد سے عالمی ڈرگس مافیا جو ہر ملک میں اپنا اثر و نفوذ رکھتا ہے، نے ایران میں بھی پاؤں جمانے کی کئی بار کوشش کی جس میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ بہت سارے ایرانی فوجی اس عظیم مشن کو انجام دیتے دیتے اپنی جانیں نچھاور کر گئے ۔ غرض ایران نے اس حکومت کی سرحدوں کو بچانے کے لئے بہت ساری قربانیاں اس بنیادی وجہ سے دی ہیں کہ یہ حکومت مسلمانوںکے لئے باعث افتخار بنے اور مظلوموں کی حمایت میں وہ نظام زیادہ سے زیادہ قوی ہوجس کا مقصد امام مہدی ؑ کے ظہور کے لئے زمین کی ہمواری ہے تاکہ پوری دنیا میں عدل کا بول بالا ہو ۔
جاوید احمد بٹ
ساکن : نامعلوم