سرینگر//2016 کی ایجی ٹیشن کے دوران فورسز کی کاروائیوں کے دوران آنکھوں کی بصارت سے محروم ہونے والے شہریوں کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے بشری حقوق گروپ’’سینٹر فار پیس اینڈ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس‘‘ نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے دروازے پر دستک دی۔حقوق پاسداری گروپ نے کمیشن کی تحقیقاتی شعبہ سے تشدد آمیز کاروئیوں کی جانچ کا مطالبہ کیا،جبکہ کمیشن نے ریاستی پولیس سربراہ کو اس سلسلے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔2016کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران فورسز و پولیس کی کاروائیوں کے دوران ہلاکتوں اور زخمیوں کا معاملہ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں اٹھاتے ہوئے بشیری حقوق گروپ’’سینٹر فار پیس اینڈ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس‘‘ نے عرضی دائر کی،جس کو کمیشن نے تسلیم کیا۔’’سینٹر فار پیس اینڈ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس‘‘ کے چیئرمین اور صحافی ایم ایم شجاع کی طرف سے دائر کی گئی اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ 2016میں فورسز کی طرف سے پیلٹ اور گولیاں چلانے سے75 شہریوں کی جان گئی جبکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریاستی سرکار نے جان بحق شہریوں کے نزدیکی رشتہ داروں کو معاوضہ دیا۔عرضی میں ناظم صحت کشمیر سے حاصل کی گئی جانکاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایجی ٹیشن کے دوران9ہزار42شہری گولیوں اور پیلٹ کا نشانہ بن گئے جن میں سے782افراد کی آنکھوں میں چوٹیں،اور اس کے نتیجے میں درجنوں مکمل طور پر آنکھوں کی روشنی سے محروم گئے۔عرضدہندہ کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے کئی مکمل طور اور کئی ایک جزوی طور پر عمر بھر کیلئے جسمانی طور ناخیر ہوئے۔شجاع کی طرف سے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے جان بحق شہریوں کے نزدیکی رشتہ داروں کو معاوضہ دینے سے سرکار نے عملی طور پر اس بات کو قبول کیا ہے کہ فورسز کی زیادتیوں سے نوجوانوں کی ہلاکت ہوئیں۔ درخواست گزار کا ماننا ہے کہ ریاست کے پاس ایسا کوئی معیار ہی نہیں ہے کہ وہ ان زخمیوں کو تنہا چھوڑ دیں یا نظر انداز کریں،جو انہیں کاروائیوں کے دوران زخمی ہوئے ہیں۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ ریاست دانستہ طور پر عام شہریوں کی حفاظت اور بھیڑ پر قابو پانے کے دوران معیاری طریقہ کار اپنانے کے علاوہ زخمیوں کو معقول معاوضہ دینے و اس سلسلے میں تحقیقات کرنے جیسی آئینی ذمہ دارریوں سے آنکھیں موند رہی ہے۔سرکار کی طرف سے مکمل اور جزوی طور زخمی ہونے والے شہریوں کی باز آباد پالیسی اختیار کرنے پر بھی نشانہ بناتے ہوئے انسانی کمیشن برائے حقوق انسانی کو باخبر کیا ہے۔درخواست گزار نے عرضی میں سوال کرتے ہوئے پوچھا ہے’’ بھیڑ پر قابو پانے کیلئے فورسز قانونی طور پرسیکوٹوریل مجسٹریٹ سے ضروری ہدایت حاصل کرنے کے پابند تھے،کہ کس مقدار میں طاقت کا استعمال کرنے کے علاوہ کس طرح عقلی طور پر طاقت کا استعمال کیا جائے تاکہ مستقل معذوری سے بچا جاسکیں اور پیلٹ و گولیوں کو آنکھوں و جسم کے بالائی حصہ پر نہ چلایا جائے ،کیا اس طریقہ کار کو عملایا گیا‘‘۔بشری حقوق میں پیش کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ریاست ایک طرف احکامات قانون کو عملانے میں بری طرح ناکام ہوگئی اور دوسری جانب ان زخمیوں کو معاوضہ و باز آبادکاری کی حصولیابی سے بھی خارج کیا گیا۔ زخمیوں کو معاوضہ اور باز آبادکاری سے نظر اندازی کو ملکی و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزکی کرتے ہوئے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت فی الوقت زخمیوں کی عملی تحقیقات کو سامنے لانے میں نہ صرف ناکام ہو چکی ہے بلکہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کئی کیسوں میں اسپتالوں اور پولیس تھانوں میں زخمیوں کے فرضی ناموں کا اندراج کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ2016میں لاتعداد زخمیوں کو دیگر لوگوں نے اسپتال پنچایا اور انکے اصلی نام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے فرضی ناموں سے انکا اندراج کیا گیا،جبکہ’’ فورسز اور پولیس کی طرف سے زخمیوں کو ستانے اور انکے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کی پاداش میں بھی بیشتر کیسوں میں زخمیوں نے غلط ناموں کا اندراج کیا،اس لئے یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریکارڑ کو بہتر (اپ ڈیٹ) بنائے اور زخمیوں کی عملی طور پر تحقیقات کی جائے۔ادھر شجاع کے مطابق عرضی کو کمیشن نے قبول کرتے ہوئے آئندہ ماہ24ستمبر کو کیس کی شنوائی مقرر کی جبکہ ریاستی پولیس کے سربراہ کو مکمل تفصیلی رپورت پیش کرنے کی ہدایت دی۔