میں یہ چندسطور شام کے بہن بھائیوں پر ڈھائے جارہے مظالم سے متاثر ہوکر نہیں لکھ رہا ہوں اور نہ مجھے اہل الغوطہ پر شدائد کے پہاڑ توڑے جانے پر کوئی حیرانی ہورہی ہے ۔ میرا مقصود یہ ہے کہ ان مظلوم ومقہور لوگوں کا درد دل میں اُتارتے ہوئے انہیںکچھ حقیر مشورے دوں۔ جانتا ہوں میرے یہ مشورے شاید ہی اُن تک پہنچیں گے ، پھر بھی مجھے ان ستم زدگان کو یہ احساس دلاناہے کہ دنیا کے بے غیرت انسانوں کے درمیان کچھ ایسے افراد ابھی باقی ہیں جو بھلے ہی اہل سوریا کی کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے مگر ان کے دلوں میں ان مظلومین کے لئے اتنا درد ہے کہ کم ازکم اپنی اشک بار دعائوں میں انہیں یاد کرتے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ اہل ِدل بھی ایک لحاظ سے اہل ِشام ہی ہیں ۔ اس میں دورائے نہیں کہ موجودہ پرفتن زمانے میں کسی بھی مسلم ملک کو سیریا بننے میں تھوڑی بھی دیر نہیں لگتی کیونکہ یہاں عالمی غنڈوں کا راج ہے جو جنگ وجدل کو اپنا پیشہ بلکہ عقیدہ بناچکے ہیں۔ بنابریں اہل سیریا کے لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ پر جتنا ظلم ہوتا ہو ،بھلے آپ مکمل طور سے تباہ ہوجائیں ،اگر چہ آپ کی نسل کی نسل ختم ہورہی ہے، معصوم بچے بھوک سے بلک بلک کر تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں، خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ، آشیانے پل بھر میں زمین بوس ہورہے ہیں ، عبادت گاہیں اور مقبرے بمباری سے اجڑرہے ہیں ، آپ کے اوپر ٹنوں وزن باردوی گولے گرا ئے جارہے ہیں کہ شہر کے شہر پل بھر میں نیست ونابود ہو رہے ہیں ۔ آپ اس ساری تباہی کو خداکاامتحان سمجھ کر خوشی خوشی تباہیوں کو گلے لگارہے ہیں ،خدا کا شکر ادا کررہے ہیں اور صبر وثبات کے ساتھ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اللہ نے اس کڑے امتحان کے لئے شامیو ں کو چنا ہے مگر خدارا آپ کبھی ان نام نہاد ،بے غیرت مسلم حکمرانوں اور موروثی شہنشاہوں کو اپنی مدد کیلئے بھولے سے بھی نہ پکاریں ۔ گوآپ کے خلاف عالم کفر نے کمر کس لی ہے مگر وہ دن دور نہیں جب ان بے حمیت شہنشاہوں اور بے ضمیر حکمرانوں کو اپنے مغربی آقا’’ ڈو مور‘‘ کہہ کر ذلیل ورسوا کریں گے ۔دنیا کے تمام مسلمانوں کے دل میں تمہارے لئے بہت سارا پیار بھی ہے اور ہمدردی بھی ہے۔ اگرآپ لوگوں نے ان اندھے بہرے اور لولے لنگڑے ہجڑوں کو مدد کے لئے پکاراتو مسلمانانِ عالم کو آپ کے تئیں عقیدتوں کو ٹھیس پہنچے گی ۔دنیا کاہر باغیرت مسلمان آپ کو بہادر قوم تصور کرتا ہے ۔ ہاں ،صرف اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو اپنی مدد وحمایت کے لئے پکارتے رہئے،اللہ اس بے سروسامانی میں بھی تمہاری نصرت کے لئے راستہ نکالے گا جیسے اس نے بدروحنین کر دکھایا۔ یہی حضرت حمزہؓ اور امام حسین ؓ کا شیوہ اور شعار ہے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور مجرموں کو اپنے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ ہاں ایک اور مشورہ یہ ہے کہ اگر زندہ و سلامت رہی تو اپنی نسل کو ظلم وستم کے خلاف مزاحمت کارا ور مجاہد بنایئے، چاہے دنیا ان کو دہشت گرد کہے یا انقلابی مانے ۔آپ لوگ جانتے ہیں کہ دہشت گرد اصلاًوہ ہیں جو نہتوں پرجرم بے گناہی کی پاداش میں ہزاروں ٹن بم گراتے ہیں اور جن کی رگ ِ انسانیت بے گناہ شہری ہلاکتوں پر بھی ایک باربھی نہیں پھڑکتی۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم عالمی غنڈہ گردوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں مگر افسوس کہ ہمارے پاس نہ ٹیکنالوجی ہے، نہ وحدتِ فکر ہے، نہ جاندار قیادت ہے ، نہ اپنی حق بات منوانے کا اسلوب ہے ۔ اگر ہمارے پاس کچھ ہے تواپنوں پہ ستم غیروں پر کرم کر نے والے حکمران اور شہنشاہ، لالچی لیڈرشپ، نفس پرست دانش ور ، دنیا کی چکا چوندی میں مست ومگن امراء ، ملت کے درد سے غافل علماء۔ ان لوگوں کو فرق نہیں پڑتا کہ شام میں شام غریباں ہو یا یمن کا چمن اُجڑ جائے ، عراق تباہیوں کا گہوارہ بنے یا افغانستان تاراج ہو۔ بہر حال مجھے اُمید ہے کہ شام کے ستم رسیدہ جسور وغیور مسلمان اسد کی ظالم فوج اور اس کے جنگی اتحادیوں کا نہتے ہوکر بھی ڈٹ کے مقابلہ کریں گے اور دنیا میں ایک نئی مثال قائم کریں گے کہ فرعونیت کس طرح بالآخر غرقآب ہوتی ہے اور نمرودیت کی آگ کس عنوان سے بجھ کے خاک بن کے رہتی ہے۔
رابطہ : دراس کارگل جموں و کشمیر
9469734681