بلال احمد پرے
دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو دوسروں کے دکھ و درد میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی تکلیف و پریشانی کو دور کرنے کے لئے کئی طرح کے اقدامات کرتے ہیں ۔ اس طرح کے لوگ اپنی تمام تر توانائی، اثر و رسوخ اور دیگر وسائل بروئے کار لاکر بے سہاروں کے لئے سہارا بن جاتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا مقصد یہی ہوتا ہے ۔ وہ اُسی لمحے کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب اور کیسے دوسروں کے کام آئیں اور وہ اپنی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ایسے ہی لوگ اہل خیر کے زمرے میں گنوائے جاتے ہیں ، چہ جائیکہ وہ کسی کی روزی روٹی کے لئے ہی دوڑ دھوپ کرنا کیوں نہ ہو، یا کسیبے یارومددگار کے لئےمسیحا بن کر کھڑا رہنا کیوں نہ ہو یا کسی غریب و ضرورت مند کاغیبی خزانہ بن کر بیٹھا کیوں نہ ہو ۔ چاہے یہ کام تعلیمی میدان میں ہو یا خیراتی، فلاحی، رفاہی و اصلاحی ادارے کی صورت میں چل رہا ہو ۔ غرض اس طرح کا ہر ایک کام اپنے آپ میں خیر ہی خیر ہے، جو ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے اور ایسے ہی لوگ ہمیشہ یاد کئے جاتے ہیں ۔
یہ نیک کام چھوٹے پیمانے پر بھی انفرادی سطح کا ہو سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر اجتماعی طور پر بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ کھل کر سب کے لئے عیاں بھی ہو سکتا ہے اور چھپ کر بھی ہو سکتا ہے ۔ صرف انسان کی صحیح نیت ہونی چاہئے ۔ لیکن لوگوں کو بے ایمانی کئے بغیر اپنی ضرورت کا اظہار اہل خیر کے سامنے کرنا چاہئے اور اہل خیر کی شرافت کا ناجائز فائدہ قطعاً نہیں اٹھانا چاہیے ۔ کیونکہ بے ضرورت مانگنے والوں اور عادی بن کر اس سے اپنا پیشہ بنانے والوں کے لئے دین اسلام میں سخت وعیدیں آئی ہے ۔
اس سے قارئین کرام کا بھی ضرور اتفاق ہوگا کہ کچھ لوگ دنیا سے تو گزر جاتے ہیں،لیکن اُن کے وہ جذبۂ ایثار، ہمدردی اور نیک نیتی کے کارنامے ہمیشہ یاد کئے جاتے ہیں جس سے وہ کئی بے سہاروں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ جب کہ کچھ لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی مرے ہوئے ہی ہوتے ہیں ۔ جنہیں نہ کسی کے غم و پریشانی کا افسوس ہوتا ہے اور نہ کسی کے ساتھ ہمدردی کرنے کا احساس ہوتا ہے ۔ اس طرح سے اچھے اچھے کارناموں سے ہی اہل خیر کو یاد رکھا جاتا ہے ۔ جو ان کی پہچان اور ان کی زندگی کی شان بنتی ہے ۔ لوگ انہیں دعائیں دیتے رہتے ہیں، جو اُن کے لئے صدقۂ جاریہ سے کم نہیں ہوتا ہے ۔
حال ہی میں جنوبی کشمیر کے ترال علاقے کے موضع لام سے تعلق رکھنے والے گوجر کمیونٹی کے ایک یتیم طالب علم زاہد علی نے غربت اور بے شمار مشکلات کے باوجود سن2025 کا نیٹ (NEET) امتحان اپنی غیر معمولی محنت سے پاس کیا ہے ۔ آپ کو دوسری جماعت میں ہی سایہ پدری کے لاڈ و پیار سے محروم ہونا پڑا ۔ زاہد علی کو اپنی والدہ اور ماموں نے مکمل حمایت کی اور اپنی تعلیم مستقل رکھنے کے لئے جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ یونٹ ترال نے انہیں مکمل سہارا دیا ۔ اس یتیم ٹرسٹ کی بنیاد اہل خیر مرحوم غلام حسن ٹاک زینہ گیری نے ڈالی ہے اور لوگ آج بھی اس سے بھول نہیں پاتے ہیں ۔ اسی ٹرسٹ کی ایک شاخ آپ کے بیٹے نے ترال میں قائم کی ہے جس کی ذمہ داری محترم محمد امین بٹ صاحب سنبھالے ہوئے ہیں ۔
ذرا غور کریں کہ زاہد علی کی طرح ایسے کتنے ذہین، ہونہار اور باصلاحیت بے سہارا بچے ہوں گے، جنہیں اہل خیر کے سہارا کی ضرورت ہے ۔ جس سے وہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے ۔وقت کے بے رحم ہاتھ انہیں مزدوری کرنے پر مجبور کر دیں گے اور ان کے خوبصورت خواب دفن ہوتے رہیں گے ۔ایسے کئی بچے اہل خیر کی نظر سے اوجھل ہیں ، جنہیں قبل از وقت پہنچاننے کی ضرورت ہے ۔ کئی سال سے وادی کشمیر سے ایسے بے شمار بیماروں کا نام سامنے آیا، جن کی علاج و معالجہ پر بیس سے پچاس لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا تھا اور وہ مجبور ہوکر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام الناس سے تعاون کی اپیل کرتے تھے ۔ یہ سب کراوڑ فنڈنگ کے ذریعے ہی ممکن ہو پایا اور اس طرح ان کی ضرورت کو قلیل وقت میں مکمل کیا گیا ہے ۔اہل خیر سماج میں دبے ہوئے لوگوں کے لئے ایک امید کی کرن ہیں ، اُن کے لئے روشن چراغ ہوتے ہیں اورسماج میں ضرورت مندوں کے لیے شہ رگ کی طرح ہوتے ہیں جس پر بے سہاروں کی زندگی حیات بن کر چلتی ہے ۔ خدانخواستہ اگر اہل خیر حضرات اپنا ہاتھ مختلف طرح کے نیک کاموں پر ہونے والے اخراجات سے کھینچ لیں تو بے سہاروں کی زندگی کی یہ شہ رگ آہستہ آہستہ دم توڑ دے گی ۔
تمام اہل خیر جو اپنے مال کو دوسروںکی مشکلات دور کرنے، لوگوں کی خیر و بھلائی کے لئےبغیراحسان جتلانے کےاور بنا تکلیف دینے کے ربّ کی رضا کی خاطر بے دریغ خرچ کرتے رہتے ہیں ،وہ بہت ہی قابل مبارک باد اور قابل ستائش ہے ۔ یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں، جنہیں اپنے اس عمل کی بنا پر اللہ کے یہاں بہترین اجر ملے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کئے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں، ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس اُن کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘(البقرۃ:۲۶۲)
اسی طرح گوشۂ سیرتِ سرورِ کائناتؐ پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ دورِ نبوی میں جب بھی دین کی خاطر مالی ضرورت در پیش آئی، تو نبی اکرمؐ کی اپیل پر صحابہ کبار ؓ نے اپنا قیمتی سرمایہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں لا کر انڈیل دیا ۔ اور بدلے میں نبی پاکؐ نے ان صحابہؓ کا صرف شکریہ ہی ادا نہیں کیا بلکہ ان کی ہمت افزائی کی، ان کے مالوں میں خیر و برکت کی دعا کی اور اس سے سراہا بھی دیا ۔ایک موقع پر حضرت عثمان بن عفانؓ کے ایک ہزار دینار کے تعاون کو دیکھ کر نبی پاکؐ نے یوں فرما دیا کہ ’’ آج کے بعد سے عثمانؓ کو کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا، ایسا آپؐ نے دو بار فرمایا۔‘‘ (سنن ترمذی)
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جہاں کہیں بھی معلوم ہو جائے کہ اہل خیر لوگوں نے اپنے جائز مال کو اللہ کے راہ میں خرچ کیا، تو اس پر اُن کی قدر ہونی چاہئے ۔ ان کی ہمت افزائی کے ساتھ ساتھ ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہئے ۔ کیونکہ مالدار لوگ تو دنیا میں بہت ہیں لیکن اپنے مال کو ضرورت مندوں کے لئے خرچ کرنا تو صرف چنندہ لوگوں کا ہی شیوہ ہے ۔ ان کا یہ خیر کوئی معمولی اقدام نہیں ہے بلکہ یہ عمل ہم سب کے لئے قابل رشک اور قابل تعریف ہے ۔اس پر اللہ کے آخری نبی ؐنے فرمایا ،’’حسد (یعنی رشک) نہیں مگر فقط دو آدمیوں کے معاملے میں، پہلا وہ شخص جس سے اللہ نے قرآن عطا فرمایا اور وہ دن رات اس کے ساتھ قائم رہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال عطا فرمایا اور وہ دن رات (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا رہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
خلاصہ کلام یہی ہے کہ اہل ثروت و اہل خیر حضرات لوگوں کی خدمت کرنے کا اپنا مشن جاری رکھیں اور اپنے لئے اللہ کے ہاں خصوصی مقام حاصل کرتے رہیں ۔جبکہ ہم سب کو اُن کی اس بے لوث خدمات کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہئے ۔
(رابطہ ۔ 9858109109)