امریکااوریورپ کے چوٹی کے دانشور انتہائی پریشان، سرتھامے یہ سوچنے پرمجبوراوراس کاحل تلاش کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں کہ ان کے ہاں ضروریات زندگی کی تمام ترآسائشیں اورسہولتیں ہونے کے باوجودنوجوان طبقے میں جرائم کی شرح خطرناک حدتک تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے اوروہاں کے قانون سازادارے ،پولیس اوردیگرفلاحی ادارے انتہائی فکرمند اورپریشان ہیں کہ پہلی مرتبہ معاشرہ میں لڑکیوں کی بڑی تعدادشدت پسندہوتی جارہی ہے۔ اگرچہ اسلام مخالف قوتیں اس مہم پرعمل پیراہیںکہ مسلمانوں کوبدنام اور دہشت گرد قرار دے کر امریکااورمغرب میں نوجوان لڑکیوں میںاس بڑھتے ہوئے جرائم اورشدت پسندی کی خبروںکوچھپایاجائے، تاہم غیرمسلموں کی اولایں کے اپنے کرتوت اس نہج پرپہنچ چکے ہیںکہ اب آوازیں اُٹھناشروع ہوگئی ہیں کہ ان کوملک بدرکردیاجائے۔سیریل کلرزمیں اب تک مردوں کی بے شمارکہانیاں نہ صرف عام ہوئی ہیں بلکہ ان پرباقاعدہ فلمیں اورڈرامے بھی عام ہوئے ہیں تاہم اب امریکااوربرطانیہ سمیت کئی ممالک میں لڑکیاں خطرناک اورسفاک قاتل بن رہی ہیں لیکن انسانیت کے ان علمبرداروں کوان کی یہ کھلی دہشت گردی نظرنہیں آتی یاپھرایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اس بربریت کوچھپانے اورآنکھیں بندکرنے کامجرمانہ فعل کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن اب اُن کے لئے ان واقعات کوچھپاناازحدمشکل ہوگیااوربالآخریہاں کے میڈیانے بھی انتہائی عمدہ وخوبصورت قالین کے نیچے چھپی ہوئی غلاظت کابھانڈہ پھوڑدیاہے ۔یہاں کے میڈیاکے مطابق ایسی مجرم لڑکیوں کی تعدادمیں آئے دن اضافہ ہوتاچلاجارہاہے اوراب تک ایسے درجنوںمصدقہ واقعات رونماہوچکے ہیں لیکن آئیے آج یہاں چندان لڑکیوں کے بارے میں جانتے ہیں جواب تک متعددافرادکواپنی ذہنی بیماری کی بھینٹ چڑھاچکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست پینسلوینیامیں درجنوں افرادکی قاتل لڑکی مرنڈاباربر(Merinda Barbour) کواپنے کئے پرکوئی پچھتاوانہیں،اس نے ۱۳سال کی عمر میںپہلاقتل کیااوراُس کے مطابق ۲۲ وارداتوں کے بعدگنناچھوڑدیا۔پولیس اورایف بی آئی نے اس قاتل لڑکی کے انکشافات پرمزیدتحقیقات شروع کردی ہے۔۱۹سالہ مرنڈاماربرکوگزشتہ سال ۴۲سالہ شخص کے قتل کے جرم میں گرفتارکیاگیاتھا۔پولیس کے مطابق ملزمہ نے ویب سائٹ پرجسم فروشی کی پیش کش کرکے اس شخص کوملنے کے لئے بلایااوراپنے شریک ِحیات کے ساتھ مل کرقتل کردیالیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی،امریکی اخبارکوانٹرویودیتے ہوئے لڑکی نے اعتراف کیاکہ وہ ۱۳سال کی عمرسے لوگوں کوقتل کررہی ہے اوربائیس افرادکے قتل کے بعداس نے گنناچھوڑ دیاتھا۔ملزمہ کے مطابق اس نے صرف غیراخلاقی کام کرنے والوں کوقتل کیاجس پراُسے کوئی شرمندگی نہیں۔جیل سے رہائی ملی تووہ ایسے لوگوںکوقتل کرنے کاسلسلہ جاری رکھے گی اوراب وہ قتل کے لئے ایسے طریقے اختیارکرے گی کہ پولیس کواس کے خلاف کوئی شواہدبھی نہ مل سکیں۔امریکی لڑکی کے اس اعتراف اورارادوں نے ایف بی آئی اورپولیس افسران کی نیندیں اڑادی ہیں اوردونوں ادارے مل کرمعاملے کی تحقیقات کررہے ہیں۔سفاک،جنونی اورخونخوارکے الفاظ اب تک مردسیریل کلرزکیلئے استعمال کئے جاتے تھے لیکن برطانیہ میں قیدجواناڈینی (Joanna Dennehy)کی بربریت اورسفاکی نے خودجن افرادکے سرپرہروقت خون سوار رہتاہے،کے سربھی جھکادیئے ہیں۔پچھلی چاردہائیوں سے سیریل کلرزمردوخواتین کی فہرست میں اسے سب سے زیادہ خطرناک ترین قاتل سمجھاجارہاہے۔دوبچوں کی ماں ہونے کے باوجودوہ اب تک متعددبلکہ لاتعدادلڑکیوں اورلڑکوں کواپنی ذہنی بیماری کاشکاربناچکی ہے۔اس نے پہلاقتل ۲۰۰۳ء میں ایک لڑکے کوبہکاکرکیاتھاجواس کاآشناتھا۔اس کے بعداس سفاک قاتلہ نے چودہ سالہ لڑکی کوبہیمانہ اندازمیں قتل کردیا۔کچھ عرصے بعد اس نے اپنے مالک مکان کے ساتھ ناجائزتعلقات قائم کرکے اسے بھی ماردیا۔ اس نے اب تک ایسی درجنوں وارداتوں کااعتراف کیاہے جس کی تفصیلات انتہائی لرزہ خیزہیں۔ ابھی ایک ماہ قبل اس جنونی لڑکی نے سیکورٹی پرماموردواہلکاروں پرخنجرسے حملہ کردیا جس میں ایک موقع پرہی ہلاک اوردوسراشدیدزخمی ہوگیااوراب وہ عمربھرکیلئے معذورہوگیاہے۔تاہم ایک دن پولیس نے ایک چھاپے کے دوران اس کودھرلیااوراب وہ خطرناک ترین قیدیوں کی جیل میں ہے۔طبی ماہرین کے مطابق وہ ایسی خطرناک لڑکی کے طورپرسامنے آئی ہے جس کے سرپرہروقت خون سوارہتاہے۔
۲۰۱۳ء میں برطانیہ میں ایک اورخاتون سیریل کلرزکے چارسوبچوں کوموت کے گھاٹ اُتارنے کے انکشاف نے برطانوی تفتیشی حکام پرلرزہ طاری کردیاتھا۔برطانیہ کی ایک فرشتہ صفت سمجھی جانے والی یہ خاتون ملک کی بدترین سیریل کلرزکے طورپرسامنے آئی ہے۔برطانیہ کے مشہوراخبار’’ڈیلی میل‘‘نے یہ روح فرساخبرکاانکشاف نیشنل آرکائیوزکے حوالے سے کیا۔اخبارنے ۱۷۷۰ء سے ۱۹۳۴ء کے دوران ہونے والے جرائم کے بارے میں آن لائن دستاویزات میں اس ظلم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایاہے کہ ۱۹ویں صدی میں ایملیا ڈائرنامی عورت کے ہولناک جرائم نے برطانیہ کولرزاکررکھ دیاتھا۔ایملیاخواتین سے رابطہ کرتی اوران کے گناہوںکابوجھ خوداٹھانے کی پیش کش کرتی ۔بن بیاہی مائیں اس موقع کو نعمت اوراپنے بچے کے بہترمستقبل کاسودا سمجھتے ہوئے اپنابچہ گودلینے پرنہ صرف اس کی شکرگزارہوتیں بلکہ اپنی استطاعت سے بڑھ کرادائیگی بھی کرتیں۔ایملیارقم لے کر بچوں کواچھی طرح لپیٹ کردریائے ٹیمزکی تہہ کے حوالے کردیتی۔ایملیانے اپنایہ سفاکانہ کاروبار۳۰برس تک کامیابی کے ساتھ جاری رکھااوراس دوران اس نے چارسوبچوں کوزندگی سے محروم کیا۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ اس نے اپنی ایک خاص ڈائری میں یہ ساراریکارڈبھی محفوظ رکھاجس کوکئی سالوں کی تفتیش کے بعددرست قراردیاگیالیکن لرزہ خیزاورخوف ناک انکشاف یہ ہے کہ جواناڈینی نے چندسالوں میں ایمیلیاکے جرائم کوبھی کہیں پیچھے چھوڑدیااورسرفہرست سیریل کلرزقرارپائی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست میسوری کی رہائشی ۱۹سالہ وکٹوریہ وینٹراپناخون نکال کرپیتی تھی۔ایک روزاس نے اپنے ایک دوست کوبھی اپنے خون کاذائقہ چکھنے کی دعوت دی ۔ لڑکے نے وکٹوریہ کی کلائی پرچھری سے ایک کٹ لگاکراس کوخون چوسناشروع کردیالیکن اسی دوران نامعلوم وجہ پروکٹوریہ کوغصہ آگیااوراس نے پاس پڑی ہوئی اسی چھری سے اس لڑکے پرحملہ کردیا۔وکٹوریہ نے کئی بارلڑکے کے کندھے پروارکئے اوراسے شدیدزخمی کردیا۔پولیس پہلے ان دونوں کوہسپتال لے گئی اوربعدازاں وکٹوریہ کوعدالت میں پیش کیاگیاجہاں اس نے متعلقہ جج کے سامنے اعتراف کیاکہ اسے اپناخون پینابہت اچھالگتاہے۔عدالت نے ڈیڑھ لاکھ ڈالرزکے عوض اس کی ضمانت قبول کرلی ۔وکٹوریہ نے دوران تفتیش اعتراف کیاکہ میں معاشرے کیلئے خطرہ بن چکی ہوں اورمیں اپنے خون پینے کے شوق میں سیریل کلرزبھی بن سکتی ہوں۔
گزشتہ سال مارچ میں لندن میں اونٹاریوکینیڈاکی آٹھ سالہ بچی وکٹوریہ کو زیادتی کے بعدقتل کرنے کامقدمہ ازسرنوشروع ہوا۔اسے اپریل ۲۰۰۹ء میں ۲۱سالہ ٹیری اور۳۱سالہ مائیکل ریفرٹی نے وڈراک نامی قصبے میں واقع اسکول کے باہرسے اغواء کیااورکارمیں بٹھاکرویرانے میں لے گئے۔وکٹوریہ عرف ٹوری کی ماں ٹارامیکڈونلڈمنشیات کی عادی ہے اور وہ بھی اپنے آشناکے ساتھ رہ رہی تھی۔اس روزوہ گھرسے ایک کلومیٹردوراسکول سے اپنی بچی کولینے نہیں گئی تھی۔عموماًننھی لڑکی کاگیارہ سالہ بھائی اسے اسکول سے پیدل گھر لے جاتا تھالیکن اس روزوہ بھی اپنے ایک دوست کے گھرچلاگیاتھااورجب لوٹ کراسکول پہنچاتومعلوم ہواکہ وکٹوریہ چلی گئی ہے۔اس کی ماں غالباً نشے میں تھی ،لہٰذا اس نے بچی کی نانی سے بھی نہ کہاکہ وہ اسے اسکول سے لے آئے،یوں وہ پھول سی بچی محلے کے ایک بدکارجوڑے کے چنگل میں پھنس گئی ۔سنگدل ٹیری نے عدالت میں بتایاکہ وہ کٹوریہ کوبہلاپھسلا کر قریبی جنگل میں لے گئے تھے۔راستے میں انہوں نے ایک ہتھوڑااورکوڑے کے بیگ خریدے۔اس اثناء میں کارہی میں انہوں نے وکٹوریہ کواپنی ہوس کانشانہ بنایا۔ٹیری نے عدالت کوبتایاکہ میں نے وکٹوریہ کے سرپرکوڑے کابیگ چڑھایا،اس کی پسلیوں میں ٹھوکریں ماریں اورپھرہتھوڑے سے اس کے سرپرکئی ضربیں لگائیں۔دوران تشدداس کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی تھیں لیکن چندہی ضربوں کے بعدمکمل خاموش ہوگئی ،جب کہ دوسال قبل اس نے پولیس کوبتایاتھاکہ ایسامائیکل نے کیاتھااوراس نے صرف وکٹوریہ کوکوڑے کے بیگ میں ٹھونسنے میں اس کی مددکی تھی۔پھرانہوں نے ننھی بچی کی لاش ایک گڑھے میں ڈال کرپتھروں سے ڈھانپ دی تھی۔تحقیقاتی پولیس افسرنے عدالت میں بیان دیتے ہوئے یہ بھی کہاکہ میری زندگی کایہ سب سے زیادہ خوفناک کیس تھاجس نے نہ صرف میرے اعصاب کوشل کردیابلکہ میری معاون خاتون افسرڈیپریشن کاشکارہوکرلمبی رخصت پرچلی گئی ہے ۔ اس لرزہ خیزجرم میں پہلے ٹیری میکلنٹک پکڑی گئی اوراسے اپریل ۲۰۱۰ء میں عمرقیدکی سزاسنائی گئی۔اب حقائق سامنے آنے کے بعدگزشتہ برس اس مقدمے کی دوبارہ تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
اسی طرح میکسیکوکی خاتون نے خونخواری کے تمام ریکارڈتوڑدئے ہیں۔’’ڈیلی میل‘‘کے مطابق میلسیامارگریٹاکالڈرن(Melissa Margarita Calderon) نامی خاتون کی وحشت اوردہشت اس حدتک پہنچ گئی کہ اس کے اپنے آشنانے ہی اس کے خون آشام جنون سے گھبراکرپولیس کواس کی مخبری کرکے اسے گرفتارکروادیا۔پیڈروگومزنے پولیس کوبتایاکہ اس کی محبوبہ میلسیاپرخون کاجنون طاری ہوچکا تھا اوروہ اپنے مخالفین کودرجنوں کے حساب سے قتل کررہی تھی۔ وہ خاص طورپراس وجہ سے مشہورتھی کہ وہ اپنے مخالفین کوقتل کرکے ان کے جسم کے اعضاء ان کے گھروں کے باہر پھینک دیتی تھی۔میکسیکوکے میڈیاکے مطابق میلسیامارگریٹاکالڈرن کواس کے گینگ میں ’’لاچائنا‘‘کے نام سے جاناجاتاتھاجس کے معنی ’’ایشیائی‘‘کے ہیں۔۳۰سالہ میلسیانے ۲۰۰۵ء میں صرف ۲۰سال کی عمرمیں انڈرورلڈجرائم کی دنیامیں سفرکاآغازکیااوراپنے خونخواررویے کی بناء پرصرف تین سال میں اس گینگ کی سربراہ بنادی گئی۔بعدازاں اس نے اپناالگ گینگ بنالیااوراپنے مخالفین کے ساتھ ساتھ پولیس کی بھی نیندیں حرام کردیں۔۲۰۱۴ء میں محض دوماہ میں ۴۶نامی گرامی طا قتور افرادکوخوفناک اندازمیں قتل کردیا۔ میلسیاکے بوائے فرینڈپیڈروکاکہناتھاکہ وہ اس کے جنون سے اس قدرخوف زدہ ہوگیاتھاکہ اپنے آس پاس ہونے والی ہلکی سی آہٹ پربھی میری سانس بندہوناشروع ہوجاتی تھی کیونکہ میں اس کے طریقہ کارکاعینی شاہدبھی تھا،اسی لئے پولیس کوبتاکراسے گرفتارکروادیاوگرنہ پولیس تواب بھی اس کی گردکو نہیں پاسکتی تھی۔پیڈروخودبھی پولیس کی حراست میں ہے اورمیلسیاکو گرفتار کروانے کے بعد اس کی سزامیں کمی کاامکان ہے۔امریکامیں کئی خواتین کے سیریل کلرزابھی تک گرفتارنہیں ہوسکے۔دنیابھرمیں بہیمانہ قتلوں کی ایسی فہرستیں موجودہیںجن کی تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں اورنہ ہی ان کے قاتل ابھی قانون کی گرفت میں آسکے ہیں۔سلسلہ واران قتلوں کے ان واقعات کے بارے میں جانتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،یہاں ہم آپ کوصرف چندایسے ہی سلسلہ وار قتلوںکے بارے میں بتائیں گے جن کی تحقیقات آج تک منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں۔
٭۱۹۷۱ء کے اوائل میں واشنگٹن میں ۱۰سے ۱۸سال عمرکی لڑکیوں کوگلاگھونٹ کرقتل کردیاگیا۔پولیس کے مطابق ان میں تین کے ساتھ زیادتی بھی کی گئی،ان کی لاشیں واشنگٹن ڈی سی اور میری لینڈ کے درمیان سڑک کے کنارے پرملی تھیں۔یہ تمام سیاہ فام لڑکیاں تھیں،اس وقت ڈی سی میں سیاہ فاموں کی اکثریت تھی لیکن پولیس میں ۷۰فیصدگوری چمڑی والے تھے۔یہ کیس یونہی چلتارہااور۲۰۰۹ء میں تفتیش کاروں نے کپڑوں سے ڈی این اے حاصل کرکے لیبارٹری بھی بھجوائے لیکن آج تک اس کی رپورٹ بھی سامنے نہیں آسکی۔
٭۱۹۸۵ء اور۱۹۸۶ء کے درمیان ہونولولومیں ۵خواتین کوزیادتی کے بعدگلا گھونٹ کرقتل کردیاگیا۔تمام خواتین کی لاشیں جب برآمدہوئیں توان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ایف بی آئی اورپولیس اہلکاروں پرمشتمل ۲۷/افرادکی ٹاسک فورس بنائی گئی جس نے بعدازاں سیریل کلرکے بارے میں تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایاکہ یہ شخص بھیس بدل بدل کر ان علاقوں میں کام کررہاتھاجہاں سے خواتین کی نعشیں برآمدہوئی ہیں لیکن اس نے کبھی اپنے گناہ کاکوئی نشان نہیں چھوڑا،جس کی وجہ سے وہ آج تک پکڑانہیں گیا۔
٭۲۰۱۰ء میں نیویارک میں واقع گلگوساحل سے ۴خواتین کی نعشیں برآمدہوئیں ،بعدازاں اس جگہ سے ۲۰۱۳ء تک درجنوںنعشوں کی برآمدگی کاسلسلہ جاری رہالیکن پولیس آج تک مجرم کاکوئی سراغ تک نہیں لگاسکی جب کہ پولیس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ واردات قتل سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بھی سیریل کلرہے۔امریکی ریاست یوٹاہ کے شہرسالٹ لیک سٹی میں ۲۰۰۶ء میں سیریل قاتل نے ۹فروری کوایک خاتون سونیامچیاکوقتل کیااور۲۰۰۸ء میں ۹فروری ہی کواس کے بچے کوقتل کیا ، سونیا کو زیادتی کے بعدقتل کیاگیا۔اس کیس کیلئے ڈی این اے بھی حاصل کیاگیالیکن تاحال ملزم پکڑانہیں گیا۔۲۰۰۹ء میں پولیس نے نیومیکسیکوکے ایک قبرستان سے ۱۱خواتین کی باقیات برآمدکیں ہیں جن کی عمریں ۱۵سال سے ۳۲سال تھیں۔اس بارے میں پولیس کاکہناہے کہ سیریل قاتل نے قتل ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۵ء کے درمیان کئے جس میں خواتین کونشہ دیکرنشانہ بنایاگیا۔ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ضرورپتہ چلاکہ ایک ہی قسم کی نشہ آوردواکااستعمال ہوا۔ مذکورہ سیریل قاتل کے بارے میں معلومات دینے پرحکومت نے متعلقہ مخبرکوایک لاکھ ڈالردینے کااعلان بھی کررکھاہے۔قارئین!ذرادل پرہاتھ رکھ کرسوچیں کہیں اہل مغرب کے لئے یہ آفتیںمکافاتِ عمل کا پیش خیمہ تونہیں۔پچھلی تین دہائیوں سے مسلمانوں کووحشی ،ظالم اوردہشت گردکے القاب سے بدنام کرنے والے گوروں کے اپنے گھروں میں یہ کیسی آگ بھڑک اٹھی ہے جن سے اب ان کے اپنے دامن بھی محفوظ نہیں لیکن اس کے باوجودوہ اب بھی مسلمان ممالک میں اپنی سازشوں میں پوری طرح مگن ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے بالکل بجا فرمایاتھا ؎
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے