سہیل انجم ؔ
اترپردیش میں اردو زبان کا مسئلہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ ا س بار اس بحث کے مرکز میں ہے بجنور کے سیوہارا بلاک میں واقع ایک پرائمری اسکول کے پرنسپل کی معطلی کا واقعہ ہے، اس اسکول کی اندرونی و بیرونی دیواروں پر اسکول کا نام انگریزی اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھا ہوا تھا جس پر ایجوکیشن انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے اسکول کے پرنسپل کو معطل کر دیا۔ حکام کا استدلال ہے کہ اسکول کی املاک پر کچھ لکھنے یا کوئی کام کرانے کے لیے پیشگی اجازت لینی ضروری ہے جسے نظرانداز کیا گیا۔ لیکن ایک طبقہ پرنسپل کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے جو کہ ا س واقعے کو مسلمانوں کے خلاف نفریق کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اردو ہمارے ورثے کا ایک حصہ ہے اور ریاست کی دوسری سرکاری زبان بھی ہے۔ لہٰذا آئین میں مسلمانوں کو دیے گئے حقوق کے تحفظ کا احترام کیا جانا چاہیے۔ تھوڑا اور پیچھے جائیں تو اسی ریاست میں ایک اسکول کی اسمبلی میں’ ’لب پہ آتی ہے دعا‘‘پڑھائے جانے پر اُستاد کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ جہاں تک اردو کی آئینی حیثیت کی بات ہے تو وہ اب بھی ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے۔ لیکن موجودہ حکومت اسے ایک اچھوت اور مسلمانوں اور مدرسوں کی زبان ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اگر یہ رویہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے تو اسے مسلمانوں کے حقوق سے جوڑنا بھی غلط ہے۔ اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے، یہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی زبان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ اب صرف چند مسلم خاندانوں تک سمٹتی جا رہی ہے ۔
دراصل اردو کے خلاف مہم کوئی نئی مہم نہیں ہے۔ اس کی ایک تاریخ ہے۔آزادی کے بعد سرکاری سطح پر ہندی کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی گئی۔ لیکن جنوب میں یہ پالیسی کامیاب نہیں ہو ئی۔ ابھی کچھ دنوں قبل وزیر داخلہ امت شاہ نے ہندی کو نافذ کرنے کے سلسلے میں بیان دیا تھا جس پر تمل ناڈو وغیرہ میں ایک تنازع پیدا ہوا تھا۔ بہرحال حکومت کی سطح پر ہندی کو فروغ دینے کی کوششیں بہت زیادہ بارآور نہیں ہیں۔ لیکن اردو کو مٹانے کی کوششیں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ اترپردیش کی صورت حال یہ ہے کہ اردو میڈیم کا ایک بھی سرکاری اسکول نہیں ہے۔ حالانکہ ریاستی حکومت نے 1989 میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام سرکاری کام کاج اردو میں بھی ہونے چاہئیں۔ لیکن عملی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ یوپی کے علاوہ جن دوسری ریاستوں میں بھی اردو دوسری سرکاری زبان ہے وہاں اس کو عملی طور پر اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ نہ تو مختلف محکموں میں اردو مترجمین رکھے گئے ہیں اور نہ ہی اردو میں کوئی قابل ذکر کام ہوتا ہے۔ اردو اداروں میں اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ جہاں تک اردو زبان کی قانونی حیثیت کی بات ہے تو ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے اردو کے حق میں ایک تفصیلی فیصلہ سنایا ہے اور کہا ہے کہ اردو اسی ملک میں پیدا ہوئی۔ یہیں اس نے پرورش پائی اور یہیں اس کو فروغ حاصل ہوا۔ یہ باہری یا غیر ملکی زبان نہیں ہے۔ اس سے قبل ’اترپردیش ہندی ساہتیہ سمیلن‘ نے اردو کو یوپی کی دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جسے آئینی بینچ نے خارج کر دیا تھا۔ اس بینچ میں اس وقت کے چیف جسٹس آر ایم لوڈھا، جسٹس دیپک مشرا، جسٹس مدن بی لوکور، جسٹس کورین جوزف اور جسٹس ایس اے بوبڈے شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں جو کہ پونے کی بلدیہ کے دفتر میں اردو میں بورڈ نصب کیے جانے کے خلاف دائر اپیل کو خارج کرتے ہوئے اس آئینی بینچ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ پانچ ستمبر 2014 کو سنائے جانے والے سابقہ فیصلے میں ہندی ساہتیہ سمیلن کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے دستور کی دفعہ 347 کا حوالہ دیا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ یہ دفعہ ریاستی قانون ساز ادارے کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ ریاست میں ایک یا ایک سے زائد زبان استعمال کرے یا ہندی کو اپنی سرکاری زبان کے طور پر اپنائے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خود اردو والے اس زبان کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اردو کے فروغ کے نام پر تو متعدد سرکاری و نجی ادارے قائم ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نجی ادارے بھی کوئی سنجیدہ کام نہیں کر رہے۔ البتہ سرکاری ادارہ ’قومی کونسل بائے فروغ اردو زبان‘ بہت کچھ کام کر رہا ہے۔ اس کے موجودہ ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال اس سلسلے میں کافی سنجیدہ ہیں۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے منجمد سیس ہو گئی کونسل کو کافی فعال بنا دیا ہے۔ ادھر نجی تنظیموں میں کچھ دیوانے ہیں جو اردو کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے پر آمادہ رہتے ہیں لیکن اکثریت عملی طور پر مفلوج ہے۔ اردو کے مراکز سے بھی اردو کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اردو اساتذہ کے لیے ہونے والے امتحانات میں جو طلبہ بیٹھتے ہیں وہ زیادہ محنت نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ فیل ہونے پر بھی ان کو ملازمت مل جائے۔ اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے اسی سال 30 مارچ کو ایک اسٹوری شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یوپی حکومت کی جانب سے ’اردو اہلیتی امتحان‘ منعقد کیا جاتا ہے لیکن اس میں بہت کم لوگ بیٹھتے ہیں۔ سال 2024 اور 2025 کے لیے ہونے والے امتحان میں صرف پانچ اور 2023 اور 2024 میں صرف تین امیدوار بیٹھے تھے۔ اس کم تعداد کی وجہ سے ریاستی لینگویج ڈیپارٹمنٹ کو ڈھائی لاکھ روپے کے بجٹ میں سے ایک لاکھ پانچ ہزار روپے واپس کر دینے پڑے۔ اس نے اس سے قبل کے سال میں ایک لاکھ
41 ہز ار روپے واپس کیے تھے۔ یہ اطلاع بھاشا ڈیپارٹمنٹ میں ایڈیشنل چیف سکریٹری جتیندر کمار نے دی ہے۔ اس سے قبل امتحان میں کچھ زیادہ امیدوار شریک ہوتے تھے لیکن اب یہ تعداد رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ریاستی حکومت جونیئر ہائی اسکول اور ہائی اسکول کی سطح پر چار امتحانی مراکز لکھنؤ، پریاگ راج، مرادآباد اور آگرہ میں اردو اہلیتی امتحان منعقد کراتی ہے۔ امتحان پاس کرنے والے طلبہ کو حکومت کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ باخبر لوگوں کے مطابق ریاستی حکومت کو قدیم ریونیو ریکارڈز پڑھنے اور ان کو آگے پروسیس کرنے کے لیے اردو میں اہل ملازمین کی ضرورت ہے۔ ریاست کے تمام اضلاع میں ایسے امیدوار چاہئیں۔1989 میں اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دیے جانے کے موقع پر جو آرڈر جاری کیا گیا تھا اس کے مطابق سات زمروں میں اردو جاننے والوں کی ضرورت ہے۔ یعنی اردو میں درخواستیں حاصل کرنا اور نمٹانا، ریاستی حکومت کے دفاتر میں اردو دستاویزات کو قبول کرنا، اہم ضوابط اور نوٹی فکیشن کو اردو میں شائع کرنا، اہم سرکاری اعلانات و سرکلر کو اردو میں شائع کرنا، اہم اشتہارات کو اردو میں جاری کرنا، سرکاری گزٹ کو اردو میں ترجمہ کرکے شائع کرنا اور اہم سرکاری سائن بورڈز کو اردو میں بھی لکھنا۔ لیکن ایک طرف جہاں حکومت کو اس سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وہیں اردو والوں کو بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اردو والے حکومت کا رونا تو روتے ہیں لیکن اپنے طور پر کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت کو بھی شہہ ملتی ہے اور اردو میں اسکول کا نام لکھنے پر ملازمت سے معطل کر دیا جاتا ہے۔ اردو والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں اردو کی تعلیم کو رائج کریں خواہ خود ہی استاد کیوں نہ رکھنا پڑے اور دوسرے حکومت کے متعلقہ اداروں اور ان کے حکام سے ملاقات کرکے دوسری سرکاری زبان کے تقاضوں کو پورا کرانے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ کیا اہل اردو اس کے لیے سنجیدہ اور تیار ہیں؟
[email protected]