Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہ

اہدافی قتل کی وارداتیں

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 26, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
9 Min Read
SHARE
 گزشتہ دنوں اہدافی قتل کا ایک اور دل خراش واقعہ جنوبی کشمیر اچھ بل میں پیش آیا ۔ اس واقعے میں تحریک حریت کے ایک سرکردہ عہدیدار میر حفیظ اللہ کو اپنے ہی گھر کے باہر نامعلوم بندوق برداروں نے گولیاں چلاکر ابدی نیند سلادیا۔ کہا جاتا ہے کہ نقاب پوش بندوق برداروں نے دن دھاڑے موصوف کے سر میں گولیاں پیوست کیں اور پھر جائے وقوعہ سے اپنی گاڑی میں بآسانی فرار ہوئے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مقتول دو سال طویل جیل کاٹنے کے بعد دوماہ قبل رہائی پاگئے تھے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رہائی کے بعد سے اُنہیں مبینہ طور جان سے مارے جانے کی دھمکیاں دی جارہی تھیںاور اس بارے میں خود مقتول نے اپنی تشویش اور خدشات سے متعلقہ پولیس کو مطلع بھی کیا تھا ۔ قبل ا زیں بڈگام میں محمد یوسف ندیم ، سوپور میں تحریک حریت کے عہدیدار حکیم سلطانی اور مسرت عالم کی سربراہی والی مسلم لیگ کے ساتھ منسلک کارکن طارق احمد گنائی بھی یکے بعد دیگرے ایسی ہی پُر اسرار ہلاکتوں کی بھینٹ چڑھائے گئے ۔ ان ہلاکتوں کے پیچھے کن کا دماغ اور کن کا ہاتھ شریک ِجرم ہیں ،اس بارے میں کوئی چیز وثوق سے نہیں کہی جاسکتی۔ البتہ کشمیر میں دل دَہلانے والے اہدافی قتل کے جگر سوز واقعات نوے کے ما بعد ایک ناقابل انکار ٹھوس حقیقت کی طرح عصری تاریخ سمیت انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ بنے ہوئے ہیں۔ پہلے پہل اس نوعیت کی سفاکیت بعض عسکری تنظیموں کے جھنڈے تلے گروہی تصادموں اور باہمی رقابتوں کی شکل میں منظر عام پر آتی رہی، بعد میں اخوان کے نام سے معروف منحرفین کے مسلح جتھوں نے وادی بھر میں خون خرابے کی ایسی ہولناک کہانی خون آشامیوں ، عزت ریزیوں اور لوٹ مار کی پے در پے وارداتوں کی سیاہی سے لکھی کہ اس کو یاد کر کے قلم بھی تھر تھر کانپ اٹھتا ہے ۔ افسوس صدافسوس قتل وخون کی اس طویل و مہیب کالی رات کی سحر اب تک کہیں ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ بڈگام، سوپور ، شوپیان اور اب اچھ بل میں پیش آمدہ اہدافی قتل کی وارداتیں باور کراتی ہیں کہ یہاں کثیرا لاطراف بندوقیں اپنے اپنے ٹارگٹ کے پیچھے برابر لگی ہوئی ہیں اور آثار و قرائین سے لگتا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی وابستگیوں کی بناپر یہ کسی بھی نہتے کو نشانہ بنا نے میں آزاد وخود مختار ہیں ۔ ا س سلسلے میں ہمیشہ یہی دیکھا گیا کہ جہاں پولیس ضابطے کی کارروائی کی بجائے بہ عجلت ایسی ہرواردات کی ذمہ داری عسکریت پسندوں پر عائد کرکے کیس درج کر نے کا اعلان کر تی ہے ،وہاں مزاحمتی اتحاد اس کے لئے خفیہ ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھہراکر تعزیتی بیان جاری کر تا ہے اور مارے گئے فرد کے چہارم چہلم میں تقریریں کر تا ہے ۔ انہی روایات کے اعادے پر اکتفا کر کے معاملہ بہت جلد بستہ ٔ فراموشی میں چلا جاتا ہے ۔میر حفیظ اللہ کے معاملے میں البتہ یہ اضافہ ہوا کہ وادی میں متحدہ مزاحمتی قیادت کی کال پر ایک تعزیتی ہڑتال کرا ئی گئی۔ ظاہر ہے کہ ہڑتال کے بعد اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ نامعلوم بندوق بردار اگلے شکار کی تاک میں نہ لگے رہیں گے۔ اس معاملے کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو روایتی طوریہ ہے کہ کچھ دن تک مارے گئے ایسے شخص کے لواحقین کے ساتھ لوگ بے محابہ دلی ہمدردیوں کا اظہار کر تے ہیں ، اُس کے والدین یا یتیم بچوں اور بیوہ کو بھی دلاسہ دیتے ہیں مگر اُس کے بعد سوگوار کنبہ ہوتا ہے اور اُن کی اشک باریاں ، محرومیاں ، تنہائیاں اور محتاجیاں۔ گزشتہ اٹھائیس سال سے یہی ایک حزنیہ کہانی ہر جگہ بنتی دیکھی گئی ہے ۔ اصولی طور پر کسی بھی فردبشر کو محض سیاسی یا نظریاتی اختلاف کی بنیادوں پر واجب القتل گر داننا انساینت کے ساتھ غداری ہے۔ ایسی سوچ وحشی جانوروں کو زیب دے تودے مگر انسانی سماج  کے لئے یہ چیز سم ِقاتل ہوتی ہے ۔ یہ ایک آفاقی مسلّمہ ہے کہ انسانوںمیں طبائع کا تضاد ایک فطری عمل ہے ،اس لئے کسی ایک شخص یا گروہ کو جو چیز پسند ہو ، ضروری نہیں کہ وہی چیز من وعن دوسرے شخص یا گروہ کو بھی پسند ہو ۔ سیاست میں اختلافِ رائے کا موجود ہو نا بھی کو ئی شجر ممنوعہ نہیں ۔ دنیا کی تحاریک میں ہم ہر طرح کے طبقات ِ خیال کی موجودگی دیکھتے ہیں ۔ مثال کے طور تحریک آزادی ٔ ہند کو ہی لیجئے، یہاں ہم گاندھی جیسے حامی ٔ عدم تشدد کو بھی پیش پیش دیکھتے ہیں ، نہرو جیسے سوشلسٹ کو بھی پاتے ہیں ، سبھا ش چندر بوس جیسے عسکریت پسند کو بھی فعال ومتحرک دیکھتے ہیں ، مولانا ابولکلام آزاد جیسی بلند قامت عالمانہ شخصیت سے بھی متعارف ہوتے ہیں ۔ اسی کے پہلو بہ پہلو ہماری آنکھیں اُن سر بر آوردہ لوگوں سے بھی چار ہوتی ہیں جو انگریزوں کی آقائیت تسلیم کر کے اور اُن کے کاسہ لیس بن کر تحریک آزادی سے عملاً کنارہ کش ہوتے مگر کیا مجال کہ اُن سیاسی بکھیڑوں یا حریفانہ کشاکش کے درمیان سیاسی سوچ کی عدم یکسانیت کو بہانہ بناکر کسی کو چھیڑا گیا ہو یا ستایا گیا ہو ، اور پھر جب انڈیا انگریز سے آزاد ہوا تو بر طانوی راج کے زرخریدمریدوں کو تحریک سے عدم موافقت کی بنا پراُچھوت قراردیا گیا نہ انہیں زندگی کے دھارے سے الگ کیا گیا ۔ یہ ہوتی ہے قومی تحریکیں چلانے والوں کی ذہنی ساکھ کا حال چال اور یہ ہوتا ہے زندہ قوموں کا وسیع الظرف مزاج ۔ ہمارے یہاں حالات ا س کے بالکل برعکس پائے جاتے ہیں ۔ پچھلے اٹھائیس سالہ دور ِ پُر آشوب میں دنیا نے یہ مسلسل دیکھا کہ مثال کے طور پر اگر کسی نہتے اور بے گناہ سوئیلین کو سیاسی یا نظریاتی وابستگی کی پاداش میں مخا لف فریق جان سے مار بھی ڈالے یا تادیب کے نام سے اس پر تعذیب کے کوڑے برسائے، اس کی عزت ریزی کرے تو ردعمل میں صرف اُس کی اپنی پارٹی واویلا کر تی ہے، جب کہ مخالف پارٹی مکمل خاموشی اختیار کر کے بزبان ِ حال یہ تاثر دیتی ہے کہ اس بے قصور نہتے کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ عین تقاضائے عدل ہے۔ اسی انسان دشمن سوچ کے چلتے ہمارے یہاںآج تک بہت سارے نہتوں کو سیاسی ا نتقام گیری کے جذبے سے الم ناک موت کے منہ میں دھکیلا گیا، کبھی ایک الزام کے تحت اور کبھی دوسرے ناکردہ جرم کے نام پر ۔ اس طرزفکر وعمل کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بے گناہوں کا خون رُک جائے اور یہاں طوائف الملوکی کا جو ماحول بن رہاہے، اس کا موثر سدباب ہو ۔   
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پلوامہ انتظامیہ کی غیر رجسٹرڈ آیوش کلینکوں کے خلاف کارروائی، دو درجن کلینکوں پر چھاپے
تازہ ترین
ایس آر او-43 کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، ملی ٹینسی کے متاثرین کو روزگار فراہم کیا جائے گا: منوج سنہا
برصغیر
پونچھ: مغل روڈ پر پتھر گرآنے کے دوران دولہا سمیت تین افراد زخمی
پیر پنچال
ہم نے پاکستان میں 9 دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، کوئی نشانہ ضائع نہیں گیا:اجیت ڈوول
برصغیر

Related

اداریہ

زرعی اراضی کا سکڑائوخطرے کی گھنٹی !

July 10, 2025
اداریہ

! ہماراقلم اور ہماری زبان

July 9, 2025
اداریہ

کشمیر میں ایمز کی تکمیل کب ہوگی؟

July 9, 2025
اداریہ

تعلیم ضروری ،سکول کھولنے کا خیرمقدم | بچوں کی سلامتی پر سمجھوتہ بھی تاہم قبول نہیں

July 8, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?