اگست کا مہینہ بر صغیر ہند و پاک کیلئے ایک تاریخ ساز مہینہ ہے اور یہ مہینہ بر صغیر میں کئی سیاسی تغیرات کا حامل رہا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ برصغیر کی تاریخ نے بہترسال قبل اسی ماہ میں کئی اوراق پلٹے جس کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں ۔ دنیا کا یہ خطہ جو وسعت میں اس حد تک بڑاہے کہ بر صغیر کہلا تا ہے، کئی ممالک کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ سات دَہائیاں قبل یہ ہندوستان کہلا تا تھا۔ہندوستان میں صدیوں سے ہندوؤںکے علاوہ کئی مذاہب ماننے والے آباد ہیں لیکن یہاں ہندوؤں کی واضح اکثریت ہے ۔ یہاں مسلمانوں ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے اور پاکستان اور بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی ہندوستان میں اتنے مسلمان آباد ہیں کہ یہ انڈونیشیا کے بعد دوسری بڑی مسلم آبادی بتائی جاتی ہے۔متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کے بعد مسلم اقلیت کی عددی حساب سے بڑی جمعیت کئی سیاسی تغیرات کا سبب بنی اور یہ سیاسی تغیرات اگست کے مہینے میں انجام پذیر ہوئے ،لہٰذا اِس مہینے کی اہمیت تاریخ میں ثبت ہو چکی ہے۔
سات دہائی قبل کے بر صغیر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو وسط اگست یعنی 14/15 اگست کی تاریخیں ذہن میں آتی ہیں۔یہ وہ تاریخیں ہیں جب ہندوستان تقسیم ہوااوریک نیا ملک پاکستان وجود میں آیا جو ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں پہ مشتمل تھا۔ اِن خطوں میں مسلمان اکثریت میں ہیںجب کہ باقی ہندوستان میں مسلمان کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود بکھرے ہو ئے ہیں۔ بنابریں اُن کی کوئی موثر سیاسی آواز نہیں۔اگست کی 14؍تاریخ کو پاکستان کا ظہور ہوا ۔ پاکستان اگر چہ ایک مسلم اکثریتی مملکت ہے لیکن جب پاکستان قائم ہوا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کو مذہبی رسوم کی ادائیگی کی کھلی ضمانت دی بلکہ اُن کے سیاسی حقوق بھی مسلم اکثریت کے مساوی رکھے گئے۔برسوں بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کے دورے کے بعد خود یہ اقرار کر لیا کہ جناح صاحب کا انداز کار سیکولر تھا ۔ اِس اعترافِ حق پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ سنگھ پریوار میں ایڈوانی اپنی سیاسی ساکھ کھو بیٹھے حالانکہ وہ اپنی پارٹی کے بہت بڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔کئی سال گذرنے کے بعد بھی ایڈوانی اپنا کھویا ہوا سیاسی مقام نہیں پا سکے۔ یہ ایک سیاسی المیہ ہی کہلاسکتاہے کہ آر پار کا کوئی لیڈر کسی سیاسی سچائی کا اعتراف کرے تواُسے اُس کی بھاری سیاسی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ہندوستان کی تقسیم صحیح تھی یا غلط ،اِس پہ آج بھی مختلف حلقوں میں بحث و مباحثہ ہو رہا ہے، حالانکہ جہاں انڈیا کا وجود ایک حقیقت ہے وہی پاکستان بھی ایک ملک کے طور پر ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، بلکہ اب ایک اور ملک بنگلہ دیش بھی ایک ٹھوس حقیقت رکھتا ہے۔ اِن حقائق کے باوجود آج بھی کہیں کہیں اَکھنڈ بھارت کے نعرے سنائی دے رہے ہیںاور انتہا پسند سیاسی حلقوں کیلئے اکھنڈ بھارت جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں، کے تمام باشندگان بقول ان حلقوں کے مذہبی و ثقافتی اعتبار سے ایک ہی رنگ میںرنگے ہوئے ہیں جسے کلچرل نیشنلزم کا عنوان دیا گیا ہے۔
14اگست 1947ء کو بر صغیر میں ایک نئی مملکت پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آیا اور 15اگست کو انڈیا آزاد ہوا تو اپنے قدیمی نام ہندوستان کا کہیں ذکر نہ ہوا بلکہ یہ ملک لاطینی نام انڈیا کے ساتھ ساتھ بھارت کہلانے لگا ۔ آئین میں بھی اسے انڈیا( بھارت) کانام دیا گیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم نام بھارت پرراجندر پرشاد نے اصرار کیا اور وہ بھارت کی آئین ساز اسمبلی کے چیرمین تھے اور بعد میں بھارت کے پہلے راشٹر پتی یعنی صدر ہند بھی بنے ۔راجند ر پرشاد اِس حد تک ہندو وادی تھے کہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ راشٹر پتی بنے تو راشٹر پتی بھون میں تمام مسلم ملازمین کو رخصت کیا گیا ۔اِس سے پہلے یہ ملک کے لئے بد نامی کا باعث بنے ،ان ملازمین کو انڈیا کے اولین پرائم منسٹر پنڈت نہرو نے اپنی سرکاری رہائش گاہ میں تعینات کیا۔ بہرحال14/15؍اگست 1947ء کے ایام میں یہ دو مملکتیں وجود میں آئیں جو ہرسال اپنے یوم آزادی انہی دوتاریخوں پر مناتی ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باہمی رقابت اور عداوت کے علاوہ ایک دوسرے سے ہر معاملے میں سبقت لینا ان دونوں ملکوں کا شیوہ اور شعار بن چکاہے۔
اگست 1947ء کی تاریخ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح 7 ؍اگست کو آخری بار دہلی سے کراچی تشریف فرماہوہوئے اوراُس کے بعد وہ کبھی بھی ہندوستان واپس نہیںآئے۔دوسرے ہی دن 8 ؍اگست کو سردار پٹیل نے دہلی میں منعقدہ آئین ساز اسمبلی میں کہا ’’ہندوستان کے جسم سے زہر نکل چکاہے۔اب ہم ایک بار پھرتقسیم نا شدنی ہیں۔آپ سمندر یا دریا کے پانی کو تقسیم نہیں کر سکتے۔جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے اُن کی جڑیں اِس زمین میں ہیں۔زیادہ دیر نہیں لگے گی وہ لوٹیں گے‘‘(پارٹیشن آف انڈیا۔۔۔حقیقت و حماسہ ۔ایچ ایم سراوائی۔ صفحہ:135۔آکسفورڑ:2005)۔ پنڈت نہرو نے بھی اپنے بھتیجے بی کے نہرو کو کہا ’’دیکھتے ہیں کتنی دیر علحیدہ رہتے ہیں‘‘۔ جہاں تک سردار پٹیل کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ زیادہ دیر نہیں لگے گی وہ لوٹیں گے ،تو کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کبھی بھی نہ لوٹنے کی قسم نہیں کھائی تھی۔ وہ بمبئی میں اپنی شاندار رہائش گا ہ کوکسی بھی تصفیے کے بغیر ایسے چھوڑ گئے تھے جیسے آج گئے اور کل واپس آگئے۔ آج بھی یہ عمارت( جناح ہاؤس) بھارت سرکار کے زیر قبضہ ہے۔ پاکستان کے نئے ہونے والے وزیر اعظم عمران خان اپنی ایک تحریر میں ذکر کرتے ہیں کہ قائد اعظم کا ارادہ شملہ میں زمین خریدنے کا تھا ۔اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ تقسیم کے باوجود وہ ہند و پاک کے مابین ایسے ہی تعلقات دیکھنا چاہتے ہیں جیسے امریکہ اور کینڈا کے بیچ میں ہیں ،جہاں سرحدیں کوئی معنی نہیں رکھتیں اور لوگ کسی ویزا کے بغیر ایسے سفر کرتے ہیں جیسے یہ ایک ہی ملک ہوں ۔ یہی حال یورپ کا ہے جہاں یورپین یونین میں سرحدوں کی حقیقت صرف مملکتوں کا حدود و اربعہ تعین کرنے تک محدود ہے ، باقی سرحدیں بے معنی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح 7؍ اگست کو دہلی سے عازم کراچی ہوئے تو 11؍ستمبر 1948ء تک اُنہیں بمبئی میں اپنی رہائش گاہ واپس پلٹنا نصیب نہیں ہوا ۔ یہ جگہ اُنہیں کافی عزیز تھی بلکہ وہ بمبئی کو اپنا شہر مانتے تھے۔11؍ستمبر 1948ء کو قائد اعظم جہاں فانی سے رخصت ابدی لے گئے اور تب تک مسلٔہ کشمیر دونوں ملکوں کے مابین ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکا تھا۔
بر صغیر ہند و پاک میںاگست میں انجام پذیر ہونے والے واقعات و حوادث کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ 9؍اگست1942ء کے روز مہاتما گاندھی نے کوئٹ انڈیا ( ہندوستان چھوڑ دو )کی کال دی ۔اس اقدام سے جنگ آزادی ہند تیز سے تیز تر ہوگئی لیکن تب تک کانگریس اور مسلم لیگ کے بیچ کی خلیج اتنی وسیع ہو گئی تھی کہ اُسے پاٹنا مشکل سے مشکل تر نظر آ رہا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح سرعت کے سا تھ مسلمانانَ ہند کی مشتر کہ ومتفقہ آواز بن کر اُبھر رہے تھے حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1937ٗء کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو کانگریس کے مقابلے میں بہت کم سیٹیں حاصل ہوئیں اور صرف بنگال میں مسلم لیگ فضل الحق چودھری کی کرشک پرجا پارٹی کے ساتھ ایک کولیشن سرکار بنانے کے قابل ہوئی، جب کہ مسلم اکثریت والے شمال مغربی صوبہ سرحد میںبھی کانگریس ہی کی جیت ہوئی جہاں کانگریس نے مجموعی طور 707؍سیٹیں حاصل کیں اور مسلم لیگ کو مختلف صوبوں میںصرف 106سیٹیں حاصل ہوئیں ،حتّی کہ مسلم اکثریتی صوبے پنجاب میں بھی یونینسٹ پارٹی نے میدان مار لیا جو کہ سر سکندر حیات خان کی سر براہی میں پنجابی مسلمانوں،ہندوؤں اور سکھوں کی متحدہ پارٹی تھی۔یوپی میں بھی مسلم لیگ کی پوزیشن کافی کمزور رہی حالانکہ یہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ نے کانگریس کی جانب اتحاد کا ہاتھ بڑھایا لیکن کانگریس کو کسی بھی صوبے میں حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ کی ضرورت نہیں پڑی۔ نیز کانگریسَ یہ ماننے کے لئے کبھی تیار ہی نہیں تھی کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی تنہا نمائندہ جماعت ہے۔ کئی سیاسی مبصرین ومورخین ین کا ماننا ہے کہ یہ مسلم لیگ کانگریس کو قریب آنے کا ایک موقعہ تھا جس سے کانگریس نے کھودیا ۔ کانگریس کی صوبائی حکومتوں میں کار کردگی توقعات کے بر عکس نکلی اور لیگ کے لئے سیاسی میدان کھلنے لگا۔1938ء میں کلکتہ کے مسلم لیگ سیشن میں سر سکندر حیات خان کو یہ آفر دی گئی کہ وہ یونینسٹ پارٹی کی رکنیت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی رکنیت بھی رکھ سکتے ہیں ۔اس فیصلے سے مسلم لیگ کو پنجاب میں بہت تقویت حاصل ہوئی ۔ اِس کے علاوہ کرشک پرجا پارٹی کے لیڈر فضل الحق چودھری بھی بذات خود قائد اعظم کے بڑے حمایتی بن گئے۔1939ء میں کانگریس کی صوبائی سرکاریں مستعفی ہوئیں جس کی کئی ایک وجوہات تھیں ، مثلاً کانگریسی نظریے کے مطابق کام کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں کے اختیارات محدود رہے ،مزیدبرآں برطانوی راج نے کانگریس لیڈرشپ کی حمایت کے بغیر ہی ہندوستان کو جنگ عظیم دوم میں شامل کر لیا۔ گاندھی جی ویسے بھی عدم تشدد کے پجاری اور جنگ میں شمولیت کے صریحاََ خلاف تھے۔ کانگریس کی صوبائی سرکاروں کے مستعفی ہونے پر مسلم لیگ نے خوشیاںمناتے ہوئے گھی کے چراغ جلائے۔ 23؍ مارچ1940ء کو فضل الحق چودھری نے ہی لاہور کے تاریخی شہر میںقرارداد پاکستان پیش کی جو بالاتفاق منظور کی گئی ۔اِس کے بعد لیگ کا گراف اوپر ہی اوپر کی طرف جانے لگااور قائد اعظم محمد علی جناح سیاسی معنوں میں کا نگریسی رہنماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی پوزیشن میں آ چکے تھے۔ 1945ء کے انڈین جنرل الیکشن میں مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کو 30 کی 30مسلمانوں کیلئے مخصوص نشستیں حاصل ہوئیں۔1946ء میں صوبائی الیکشن ہوئے جس میں مسلم لیگ کو مسلم نشستوں کی واضح اکثریت حاصل ہوئی جسے مسلم لیگ کو مسلمانان ِہند کی نمائندگی کا حق ملا ۔اس کے حصول سے یہ پارٹی1937ٗء کے الیکشن میں محروم رہی لیکن دس سال کے عرصے میں ہی سیاسی بازی کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔1946ء کے صوبائی الیکشن کے بعد یونینسٹ پارٹی اور کانگریس نے پنجاب میں ایک کولیشن سرکار بنانے کی کوشش کی مگر یہ ایک دن بھی نہ چل سکی ۔مسلم لیگی سڑکوں پہ آ گئے اور خضر حیات کے خلاف نعرے لگانے لگے لیکن جب یہ خبر آئی کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ مل چکے ہیں تو یہ نعرہ لگا کہ تازہ خبر آئی ہے خضر ہمارا بھائی ہے!
1946ء میں دہلی میں پنڈت نہرو کی سر کردگی میں ہندوستان کی ایک عبوری کابینہ معرض وجود میںآئی جس میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں ہی شامل رہے، برطانوی کیبنٹ مشن کے تحت ایک طے شدہ منصوبے میں یہ قرار پایا کہ صوبوں کے تین گروپ تشکیل دئے جائیں:پہلے گروپ (A)میں ہندو اکثریتی صوبے،دوسرے گروپ ( B) میں شمال مغرب کے مسلم اکثریتی صوبے اور تیسرے گروپ (C) میں شمال مشرق کے مسلم اکثریتی صوبے شامل رہیں ۔ظاہرہے اس سکیم میںصوبوں کو وسیع اختیارات حاصل رہتے جب کہ مرکزی حکومت کے اختیارات کچھ ہی امور تک محدود رہتے۔اِس کے برعکس کانگریس ایک مضبوط مرکز کی حامی تھی ۔اسی دوران 10؍جولائی1946ء کو پنڈت نہرو کا بمبئی میں ایک بیان سامنے آیا جس میں یہ کہا گیا کہ آئین ساز اسمبلی میں کیبنٹ مشن کے پلان پہ نظر ثانی ہو گی ۔ پنڈت جی کے بیان نے قائد اعظم محمد علی جناح کے لئے کیبنٹ مشن کے پلان کو مکمل طوررد کرنے کا جواز فراہم کیا۔ اُنہوں نے زندگی میں پہلی اور آخری بار ’’ڈائرکٹ ایکشن‘‘ ( راست اقدام )کی کال دی اور پھر حالات سب کے قابو سے باہر ہو گئے ۔ پنڈت نہرو کے دفاع میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عبوری کابینہ کی کار کردگی سے عاجز ہو چکے تھے اور اُنہیںساتھ کام کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آیا تھا۔بہر حال اگست کے وسط میںہندوستان تقسیم ہو کے بھارت اور پاکستان بن گیا مگر پھر مسٔلہ کشمیر نے دونوں ملکوں کے درمیان ایسی دراڑ ڈال دی جس نے دونوں ملکوں کو ہتھیاروں کی دوڑ میں نیوکلیر پاور بننے کی راہ سجھائی۔آج کی تاریخ میں دو نوںہمسایہ ملکوں کے مابین مسئلہ کشمیر ایک پیچیدہ حل طلب مسئلہ بن کر یہ خدشہ بڑھا رہاہے کہ کہیں ان کے درمیان خواہی نہ خواہی نیوکلیائی جنگ نہ چھڑ جائے اور اس ہلاکت خیز جنگ کا خطرہ بر صغیر کے ساتھ ساتھ دنیا کے امن واستحکام کے لئے ایک خطر ناک ترین بحران ثابت ہوسکتا ہے ۔اسی صوت حال نے برصغیر کے کوخطہ پُرخطر بنایا ہوا ہے۔9؍اگست1942ء جہاں کوئٹ انڈیا کی تحریک شروع ہونے کے تعلق سے بر صغیر کی تاریخ میں زریں لفظوں میں ثبت ہے، وہی9؍اگست 1953ء کو شیخ عبداللہ کو بہ حیثیت ریاستی وزیراعظم اپنے منصب سے معزول کر دیا گیا اور وہ حکومت ہند کے باغی کہلاکر قیدوبند میں ڈال دئے گئے۔ واضح رہے یہ شیخ عبداللہ ہی تھے جنہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت سے کئے ہوئے الحاق کی تائید کی تھی۔اُن کی معزولی اورقید جموں و کشمیر میں مزاحمتی تحریک کا ایک سبب بن گئی جو وقتاًفوقتاً مختلف روپ دھارتے ہوئے آج تک قائم ہے۔
Feedback on: <[email protected]