امتیاز خان
عام معاشروں میں بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں، جو حقیقت میں ہردلعزیز ہوتے ہیں، یعنی وہ ہر ایک کو اچھے لگتے ہیں۔ لوگ ان سے مل کر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں، ان کے پاس طویل وقفہ بیٹھنے کو بھی مختصر سمجھتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ہر دلعزیز شخص وہ ہوتا ہے، جو زندہ ہو تو لوگ اس سے ملنے کے مشتاق رہیںاور جب وہ دنیا سے کوچ کر جائے تو لوگ اس کے غم میں آنسو بہائیں۔میرے دوست مرحوم عاشق حسین ملک کا شمار بھی انہی افرادمیں ہوتا ہے۔ وہ جب تک زندہ رہے، دوستوں کو ان سے ملنے کی خواہش رہتی تھی اور اب جبکہ وہ اس دنیا سے جا چکے ہیں تو ان کے دوست ان کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو دو بہترین صفات سے نوازا تھا، ایک ان کا ہر دلعزیز ہونا اور دوسرا یہ کہ کسی کی تکلیف دیکھ کر بے چین ہونا۔
ہر دلعزیز بننے کیلئے اخلاق حسنہ کا مالک ہونا بھی ضروری ہے۔موصوف کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایسے افراد کو بہت جلد اپنا نظریاتی ہمسفر بنالیتے تھے جن کے اخلاق بلند ہوتے تھے۔خوب سے خوب تر کی تلاش ان کی شخصیت سے عیاں رہتی تھی۔ ان کے کئی دوستوں کی ان کے بارے میں یہ متفقہ رائے تھی کہ وہ کسی ایک منزل پر رکنے پر یقین نہیں رکھتے تھے، وہ ہر منزل کو آنے والی منزل کا زینہ اور مرحلہ سمجھتے تھے۔ ان کی کیفیات ساحل پر پہنچنے کے بعد ایک اور تلاطم خیز سمندر میں اترنے کی خواہش ہوتی تھی۔اُن کی جدائی نے سب کی آنکھوں کو پرنم اور دلوں کو مغموم کیا ہے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے لیکن یقین ہی نہیں ہورہا ہے کہ وہ ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔ ان کی یادوں کے اجالے زندگی کی سردودشوار شاموں میں ایک دیے کی مانند ہیں۔ جب بھی ان کی یاد کے زخم بھرنے لگتے ہیں، ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ ایک مانوس اجنبی کی طرح دوستوں کی زندگی میں آئے اور اپنی محبت و الفت کا رنگ دکھا کر نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
کسی کی بھی موت پر لکھنا خاصا مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہوتاہے۔کسی کی بھی موت کا نوحہ لکھتے ہوئے خود بھی مرنا پڑتا ہے۔ بلاشبہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مرنے والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ مرنے والے یادوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیںلیکن ان کی باتوں اور یادوں کے چراغ جلانے پڑتے ہیں اور درد کا روگ پالنا پڑتا ہے۔
خوشی کی رت ہو یا غم کا موسم ، مرحوم کے سبھی دوست آج بھی انہیں اپنے اردگرد محسوس کرتے ہیں۔ایثار و قربانی اور دوسروں کیلئے خدمت کا جذبہ انہیں اپنے دوستوں سے ممتاز کرتا تھا، اپنی انتہائی متحرک زندگی میں دوستوں کی غمی و شادی میں بھی شریک رہنا، دوستوں کو اس بات کی توقع ہی نہ ہوتی اور وہ دشوار ترین حالات میں ان کا غم تقسیم کرنے یا خوشی میں شریک ہونے کیلئے ان کے پاس پہنچ جاتے۔ موصوف کا ایک کام یہ تھا کہ وہ دوست ہی کیا بلکہ دوستوں کے دوستوں اور عزیز و اقارب میں یوں گل مل جاتے کہ وہ انہیں اجنبی محسوس نہیں کرتے تھے۔ دوستوں کے بچوں اور بھائیوں کے ساتھ ان کا رویہ اتنا مثاثر کن ہوتا کہ تادیر ان کی محفلوں میں ان کا ذکر رہتا۔دوستوں میں انہیں انتہائی ہنس مکھ اور حاضر جواب فرد کے طور پرپہچانا جاتاتھا۔ ہنسی مذاق میںوہ طنز و مزاح کے ایسے تیر ارسال کرتے کہ سب کو لاجواب کر دیتے البتہ ان کی تنہائیوں اور خلوتوں سے بہت کم دوست آشنا تھے۔ اپنے والدین کے جنازوں پربھی انہوں نے ضبط کا مضبوط پہاڑ بن کر صبر و ہمت کی مثال قائم کی۔صبر و شکر جیسے اوصاف ایک مسلمان کی نشانی
ہوتے ہیں۔ مومن زندگی کے مشکل سے مشکل حال میں بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
عاشق حسین ملک کا تعلق وسطی ضلع بڈگام کے ایک خوبصورت گائوں دہرمنہ سے تھا جہاں ہم نے بچپن سے جوانی تک زندگی کے نشیب و فراز ساتھ دیکھے۔جہاں ہم نے زندگی کے کئی زاویوں کا رنگ دیکھا۔ شب و روز کا تیزی سے سفر،زمانے کی گردش اور ماہ و سال کے بدلتے ہوئے کئی موسموں کو قریب سے دیکھا۔ بچپن، لڑکپن اور اب جوانی کے کئی انداز اور تیوردیکھے جو وجود کے رگ و پے میں سما چکے ہیں۔ً یہ بات یقیناصد فی صد درست ہے کہ ہر جاندار کے صبح و شام، ماہ وسال گنے چنے ہیں بلکہ انسان کی سند پیدائش ہی اس کی وفات کا گوشوارہ بھی ہے، جس پر اس کی مقرر شدہ زندگی کا ہر لمحہ درج ہوتا رہتا ہے اور ہر دن زندگی کا ایک ایک صفحہ اْلٹتا رہتا ہے۔دل میں حسرت اس غنچہ کی ضرور ہے جو بن کھلا مرجھا گیا لیکن اس کی موت نے یقیناً ایک پیغام دیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور وقت مقررہ کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں ملتی۔صورہ میڈیکل انسٹچوٹ میںکئی دن موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعدبا لآخرموصوف20اکتوبر2023کو اس فانی دنیا کولبیک کہہ گئے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مہلک مرض کا مقابلہ بھی انہوں نے جس صبر کے ساتھ کیا وہ قابل دید تھا۔پی جی آئی چندھی گڑھ سے واپسی پرانہیں دیکھ کر کوئی بھی پتھر دل پگھل جاتا لیکن موصوف نے یہاں بھی اپنی دو معصوم بیٹیوں کو دیکھنے کے باوجود جس ہمت کا ثبوت دیا ،اُس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔اس صورتحال کے باوجود موصوف نے خواہش کی کہ کیوں نہ کہیں سب بیٹھ کے چائے کا ایک ایک کپ پئیں گے ۔افسوس کہ ہم نے اُس خواہش کو پورا کرنے میں دلچسپی نہیں لی کیونکہ ہم اولین فرصت میں صورہ میڈیکل انسٹچوٹ پہنچنا چاہتے تھے۔ یوں تو اُس کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی ہے لیکن کچھ باتیںاور کچھ یادیں ہمیشہ کریدتی رہتی ہیں ۔
زندگی میں کئی لوگ ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے وجود کی چھاپ ہمیشہ ہمارے دلوں پر قائم رہتی ہے۔ ایسا ہی میرا یار بھی تھا۔اس کی جدائی کا غم اور مفارقت کا داغ میرے لئے ایک المناک سانحہ بن کر دماغ پر نقش ہوگیا ہے ۔میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ موصوف اتنا جلدی اپنا سفر سمیٹ لیں گے لیکن مقدر میں شاید یہی لکھا تھا کہ وہ اس دنیا سے پاکیزہ جنت کی طرف چلے جائیں جہاں حوریں ان کا استقبال کررہی ہوں۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر رخسار آنسوؤں سے شرابور ہیں، زبان جواب دے گئی ہے، گویا حال دل یہ کہہ رہا ہے ’’اگر گویم زباں سوزد نہ گویم مغز استخواں سوزد‘‘۔ایسے جواں ساتھی کی موت پر صبر ورضا کا دامن تھامے رکھنا بھی اللہ غفور ورحیم کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دعا ہے کہ اے اللہ! ہمیں ایسی آزمائشوں میں نہ ڈال جن کا تحمل ہم نہ کرسکیں اور ہمیں دنیا میں عافیت اور آخرت میں عفو سے بہرہ ور فرما اورجانے والے کو فردوس بریں میں جگہ دے۔ اسے اس کے ماں باپ کیلئے ذخیرئہ آخرت کی حیثیت سے قبول فرما اور پورے اہل خانہ اور متعلقین کوصبرعطا فرما۔
عاشق ایک ایسا دوست تھا، جو آنکھوں سے اوجھل تو ہوگیا لیکن دل سے اتر نہیں سکا۔ اپنے مرحوم یار کے بارے میںلکھی اس شکستہ تحریر کو معروف شاعراحمد فراز کے ان اشعار سے اختتام کروں گا
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی