زندگی
وسیم نذیر بٹ
انسانی زندگی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی مختلف قسم کے تعلقات کا نام ہے کیوں کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس کے دنیا میں آنے سے پہلے اس کے تعلقات اور رشتے وجود میں آچکے ہوتے ہیں۔وہ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو دو بازو اس کو اٹھانے کے لیے بے قرار ہوتے ہیں۔ ماں کی مامتا اس کے منہ میں خونِ جگر نچوڑنے کے لیے بے تاب ہوتی ہے۔ باپ کے کندھے اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتے ہیںاور پھر جب وہ دنیا میں آجاتا ہے تو کتنی پیار کرنے والی نگاہیں اور کتنے اٹھانے والے ہاتھ اور کتنے لوریاں دینے والے بازو اس کے لیے موجود ہوتے ہیں۔وہ مسکراتا ہے تو اس کی مسکراہٹ سے کتنی مسکراہٹیں جنم لیتی ہیں۔ وہ روتا ہے تو اس کے رونے سے کتنے دل بے قرار ہونے لگتے ہیں۔پھر انہی لوریوں، انہی چاہتوں میں پروان چڑھتے ہوئے جب لڑکپن کی عمر کو پہنچتا ہے تو دوستوں کی ایک دنیا پیدا ہوجاتی ہے۔پھر وہ اسکول اور مدرسہ کی عمر کو پہنچتا ہے تو نئے تعلقات جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح درجہ بدرجہ آگے بڑتے ہوئے وہ اپنی تعلیمی مراحل تک پہنچتا ہے تو نئے تعلقات کی زنجیر طویل ہوتی جاتی ہے۔جب عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اب نئی ذمہ داریوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تعلقات علمی مجلسی، دینی ، قومی اور ملی رشتوں کا ایک نیا جہاں وجود میں آجاتا ہے۔پھر جب اس کی شادی ہو جاتی ہے اور وہ اپنا گھر بسا لیتا ہے تو پھر معاشرتی تعلقات پڑوسیوں کے حقوق محلے داروں اور میل جول رکھنے والے لوگوں کی ذمہ داریاں دوستی اور دشمنی کے حوالے سے پیدا ہونے والے رشتے اور اپنی پرورش، خوراک، لباس اور فطری صلاحیتوں کی نشوونما اور ان کے عملی اظہار کے لیے اجتماعی زندگی کی ضرورتیں ، پھر دوستی کے حوالے سے پیدا ہونے والے رشتے ، زمین اور وطن کے رشتے ، غرض یہ کہ انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک طویل فہرست ہے۔ جن کے مل جانے سے زندگی کا نقشہ تیار ہوتا ہے اور ان ذمہ داریوں سے کامیابی سے نمٹنے اور عمر بھر ان کو نباہنے کو ہی انسانی زندگی کہا جاتا ہے۔ایک انسان کی تمام مسرتوں اور شادمانیوں کا دار مدار انہی تعلقات کی خوش گواری میں ہے۔ماں باپ اپنی اولاد کی محبت سے، اولاد اپنے والدین کی شفقت سے بہن بھائی ایک دوسرے کی رفاقت سے ،دوست احباب ایک دوسرے کی الفت سے، غرض یہ کہ ہر رشتہ دوسرے رشتہ کی گرمی سے خوشی محسوس کرتا ہے اور زندگی کے ان تعلقات کو کامیابی سے ادا کرنے سے زندگی میں خوش گواری، ہمواری، خوشحالی اور خوشی کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔
کوئی انسانی معاشرہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ باہمی تعلقات کی خوش اسلوبی سے خوشی اور مسرت کی جو دنیا وجود میں آتی ہے اور ان تعلقات کا بگاڑ اور ان کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنے سے جو الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اس سے زندگی زخم زخم ہو جاتی ہے۔ انسانیت کا چہرہ داغ داغ ہو جاتا ہے۔اس لیے کوئی انسانی معاشرہ کبھی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ زندگی میں ایسی تلخیاں پیدا ہوں جن سے گھر، ماحول، تعلیمی ادارے، کھیلوں کے میدان اور سیاسی اور حکومتی ایوان پریشانیوں کے جہاں بن کر رہ جائیں۔
رابطہ۔9070931709
[email protected]